"KNC" (space) message & send to 7575

نصابِ تعلیم کی تشکیلِ نو

ایک اچھا فیصلہ، خدشہ ہے کہ عجلت پسندی کی نذر ہو جا ئے گا۔
نصاب کی تشکیلِ نوجس مشاورت اورغور وفکر کی متقاضی ہے،اس کے لیے دو ماہ کافی نہیں۔کابینہ میں بیٹھے احسن اقبال تو یہ بات جا نتے تھے۔کیا انہوں نے وزیر اعظم کو بتا یا نہیں؟پھر یہ کہ اس کام کی راہ میں چند قانونی اور سماجی رکاوٹیں بھی ہیں۔اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد،تعلیم اب صوبائی مسئلہ ہے۔نصاب سازی، اسلامی تعلیم،تعلیمی منصوبہ بندی ،یہ اب صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ مزید یہ کہ،پاکستان میں اس وقت ایک نہیں، کئی نظام ہائے تعلیم رائج ہیں۔اس تنوع کو کسی ہم آہنگی میں تبدیل کیے بغیربھی کوئی قدم نتیجہ خیز نہیں ہو گا۔اچھا ہو تا اگر کوئی فرمان جاری کر نے سے پہلے، اس مسئلے پرماہرین سے مشاورت کرلی جاتی۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے ہیں۔اب وہ صوبوں کو مشورہ دے سکتا ہے یا کسی ہم آہنگی کے لیے معاونت کر سکتا ہے،حکم نہیں دے سکتا۔اس ترمیم میں سب مذہبی وسیاسی جماعتیں شریک تھیں۔ مذہبی تعلیم میں پہلے ہی ریاست کا کوئی عمل دخل نہیں۔ان کے اپنے وفاق ہیں اور اپنے نصاب۔وزیراعظم اس اقدام سے جونتیجہ نکالنا چاہتے ہیں، وہ ممکن نہیں جب تک مذہبی تعلیم بھی نئے خطوط پر استوار نہ ہو۔ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے۔سول سوسائٹی کے چند ادارے بھی اس باب میں متحرک ہیں۔ان کی رسائی نجی تعلیمی اداروں تک ہے جو دینی مدارس کی طرح ریاست سے بے نیاز ہیں۔اس پراگندگی میں،اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ وزیر اعظم کا خواب تعبیر آ شناہو ۔اس کی نتیجہ خیزی کے لیے، ضروری ہے کہ ان حقیقتوں کے اعتراف کے ساتھ کوئی حکمتِ عملی اختیار کی جا ئے۔
کے پی میں جو تنازع کھڑا ہوا، وہ ایک صوبے کا مسئلہ نہیں ہے۔اگر کسی اور صوبے میں نصاب کو اس طرح تبدیل کیا جا تا توبھی ردِ عمل یہی ہو نا تھا۔پاکستان میں مو جود نظری تقسیم جس طرح عصبیت میں ڈھل چکی، اس کے بعدکسی اتفاقِ رائے کی تو قع رکھنا مشکل ہے۔اختلاف کایہ دائرہ تین سوالات پر محیط ہے:
1۔ مذہبی تعلیمات کو کیا عمومی نصاب کا حصہ ہو نا چاہیے؟اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو اس پر مذہبی اقلیتوں کو اعتراض ہے۔ہمارے نصاب میں مذہبی تعلیمات پر مشتمل ابواب میں عام طور پر ایجابی کے بجائے سلبی انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ایجابی انداز یہ ہے کہ ہم اسلام کی مثبت تعلیمات کو نمایاں کریں۔سلبی انداز یہ ہے کہ دوسرے ادیان کی نفی کی اساس پر اپنا مقدمہ قائم کریں۔اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ تحقیراور عداوت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہیں۔اس کا دوسرا پہلوبھی ہے۔آئین ریاست کو اس بات کا پابند بنا تا ہے کہ وہ سماج کی اسلامی تشکیل اور تشخص کے لیے اقدام کرے۔اس کے لیے تعلیم کی اسلامی تشکیل بدرجہ اتم ضروری ہے۔اب اس تضاد کو کیسے دور کیا جا ئے؟
2۔ ہماری تاریخ کب سے شروع ہوتی ہے؟محمد بن قاسم کی آمد سے یا 'ہمارا‘ وجود اس سے پہلے بھی ثابت ہے؟اس سوال کا تعلق شناخت کے بنیادی مسئلے سے ہے۔اگر ہم اجتماعی طور پر اپنی مسلم شناخت پر اصرار کرتے ہیں توپھر اس کا آغاز محمد بن قاسم سے ہو تا ہے۔اگرہماری شناخت ہندی ہے تو پھر ظاہر ہے کہ ہندوستان کی تاریخ کہیں زیادہ قدیم ہے۔مسئلہ وہی قدیم ہے:قومیت کی اساس نظریہ ہے یا وطن؟ہمیں تسلیم کر نا چاہیے کہ پاکستان کو نظریاتی ریاست تسلیم کرنے کے بعدہم اسے بیسویں صدی میں فروغ پانے والے قومی ریاست کے تصور سے ہم آہنگ بنا نے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔نظریاتی شناخت پر اصراراقلیتوں میں بھی بے چینی کی لہر دوڑا دیتا ہے۔وہ پھر قائد اعظم کی 11اگست کی تقریر میں پناہ تلاش کر تے ہیں۔اکثریت اس تقریر کو قائد اعظم کی اجتماعی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنے پر اصرار کرتی ہے۔ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے خطاب کو کسی عوامی اجتماع کی تقریر پر قیاس نہیںکیا جا سکتا۔اس کی سنجیدگی متقاضی ہے کہ اسے دستور اور اجتماعی شناخت کے حوالے سے دیکھا جائے۔یہ گروہ اس مقدمے کے حق میں قائد اعظم کے بعض عملی اقدامات کاذکر کرتا ہے جن میں اہم وزارتوں پر غیر مسلموں کاتقرر بھی شامل ہے۔اس کا اب ایک جواب یہ آیا ہے کہ قائداعظم نے کوئی ایسی تقریر کی ہی نہیں۔ظاہر ہے کہ یہ اب ایک نہ ختم ہو نے والی بحث ہے۔
3۔اگر نصاب کو مذہبی تعلیم کے زیر اثرتشکیل پانا ہے تویہ کس تعبیر پر مبنی ہوگا؟ سماج میں اسلام کی بہت سے تعبیرات رائج ہیں۔ریاست کون سی تعبیر اختیار کرے گی؟ مسلمان مسالک، بالخصوص ایک دو مسالک میں تعبیر کی لکیر گہری ہے۔ اس لیے یہ مسئلہ بہت عرصے سے زیر بحث ہے۔ بھٹو صاحب کے دور میں اسلامیات بھی دو ہو گئی تھیں۔ کئی ریاستوں نے تو اس مسئلے کو حل کر لیا۔پاکستان کے لیے ممکن نہیں کہ یہاں ہر مسلک خود کو' سٹیک ہو لڈر‘ سمجھتا ہے اور ریاست کی 'اونرشپ‘ میں شرکت کا دعوے دار ہے۔یہاں ریاست جبر نہیں کر سکتی۔اسلامیات کو دو خانوں میں تقسیم کر نا زبانِ حال سے اس بات کا اقرار ہے کہ مذہب قومی وحدت کی اساس نہیں بن سکتا۔ہم اس با ت کو تسلیم نہیں کرتے۔یوں مسئلے کا یہ پہلوبھی تعلیمی نصاب کی تشکیلِ نو میں مانع ہے۔
ان سوالات کے چند سادہ جواب دیے جاسکتے ہیں۔جیسے مذہبی تعلیمات کو عمومی نصاب کا حصہ نہیں ہو نا چاہیے۔ اگر ہم نے بچوں کو اردو سکھانی ہے تو یہ لازم نہیں کہ اس میں مذہبی اسباق کو شامل کیا جائے۔ہم اردوکا مضمون کسی مذہبی حوالے کے بغیربھی پڑھا سکتے ہیں۔جہاں تک مذہبی تعلیم کا معاملہ ہے تومسلمان طالب علموں کے لیے اسلامیات کا مضمون نصاب کا حصہ ہے۔وہ اس سے اپنے مذہب سے واقف ہو سکتے ہیں۔ غیر مسلم طلبا و طالبات کے لیے 'اخلاقیات‘ کا مضمون شامل کیا جا سکتاہے۔ اسی طرح مسلکی تفریق سے بچنے کے لیے اسلامیات کی تعلیم کو قرآن مجید کی تعلیم سے بدل دیا جائے۔اگر پہلی جماعت سے یہ نصاب اس طرح ترتیب دیا جائے کہ عربی زبان کی تدریس سے اس کا آ غاز ہو یہاں تک کہ بارہ سال کی تعلیم کے بعد ایک طالب علم میں یہ استطاعت پیدا ہو جائے کہ وہ قرآن مجید کے متن سے براہ راست وابستہ ہو سکے۔اس میں قرآن مجیدکی آیات کو بچے کی صلاحیت اور ضرورت کے مطابق شاملِ نصاب کیا جائے۔ جیسے پانچویں جماعت تک بنیادی اخلاقیات، اس کے بعد سماج اور باہمی تعلقات۔ میٹرک میں ریاست و سیاست سے متعلق تعلیمات۔ اسی طرح تاریخ کو بھی دوحصوں میں پڑھایا جا سکتاہے۔ایک قبل از اسلام اور ایک اسلام کی آ مد کے بعد۔اگر اسلام کے آنے سے پہلے مو جود حکمرانوں میں کوئی خوبی تھی تو اس کے بیان میں کیا حرج ہے یا کسی مسلمان حکمران میں کوئی کمزوری تھی تو اس کا اسلام سے کیا تعلق؟تاریخ تو افراد کا نامۂ اعمال ہے۔ اس کی ذمہ داری مذہب پر نہیں ہے۔
یہ معاملہ،تاہم اتنا سادہ نہیں ہے۔اس کے لیے قومی سطح پر مشاورت ہونی چاہیے۔ علما، ماہرینِ تعلیم،سیاسی راہنما،پالیسی ساز، سول سوسائٹی، سب کو مل کراتفاقِ رائے تلاش کر نا چاہیے۔ میرا مشورہ ہو گا کہ وزیر اعظم تعلیم کو اس کے وسیع تر تناظر میں دیکھیں۔اس میں نصاب ہائے تعلیم کا تنوع اور مذہبی تعلیم کو بھی شامل کرتے ہوئے ایک اصلاح کی حکمتِ عملی ترتیب دینی چاہیے۔ اس کاآغاز نصاب کی تشکیلِ نو سے ہو سکتا ہے۔یہ کام مگر عجلت کا نہیں۔تعلیم میٹروبس کی طرح کا منصوبہ نہیں جو دس ماہ کی'ریکارڈ مدت‘ میں مکمل ہو جائے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں