اقبال اب ہماری قومی یادداشت کا ناگزیر حصہ ہیں۔نومبر میں، سرما کی خنک رت کے ساتھ یہاں یادِ اقبال کا موسم بھی اتر تا ہے ۔فکرِ اقبال کی مجالس برپا ہوتی ہیں اورہم ان کے افکار سے دل ودماغ کو منورکرتے ہیں۔نومبر گزرتاہے توخنکی میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔جیسے جیسے سردی بڑھتی ہے،اقبال کی یاد بھی سرد پڑنے لگتی ہے۔فکرِاقبال سے بیگانگی ہمیں گھیر لیتی ہے۔ پروفیسر فتح محمدملک ا سے 'اقبال فراموشی‘ کہتے ہیں۔اس بار مگر یادِ اقبال کا ایک چراغ، میرا احساس ہے کہ نہ بجھنے کے لیے روشن ہوا ہے۔
ڈاکٹر شاہد صدیقی نے علامہ اقبال اوپن یونیور سٹی میں ایک مجلس ِاقبال برپا کی۔کم و بیش ایک ماہ پہلے،انہیں اس ادارے کی سر براہی سونپی گئی ہے۔اُن کے ساتھ میرا دیرینہ تعلق ہے۔محض تعلق نہیں ، تعلقِ ِخاطر۔دیگر اسباب کے ساتھ، اس میں بڑا دخل ان کے علم اور حسنِ خلق کا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ یہی دو اوصاف انسان کو حیوانی سطح سے بلند کرتے ہیں۔امکانات کی دنیا وسیع ہونے سے انسانوں کے مابین، اب رابطوں میں تسلسل ممکن نہیں رہا۔یادیں نہاں خانۂ دل میں محشر برپا کیے رکھتی ہیں لیکن زمان و مکان ملاقات میں حائل ہوتے ہیں۔جب یہ خبر سنی کہ وہ اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن گئے ہیں تو خوشی ہوئی کہ اب ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ملاقات کا ارادہ باندھ لیا تھا کہ ان کا فون آیا کہ یونیورسٹی نے اقبال کی یاد میں ایک سیمینارکا اہتمام کیا ہے اور میں بھی اس میں مدعو ہوں۔ارادے کی تکمیل کا اس سے اچھا مو قع کیا ہو سکتا تھا۔پہنچا تو معلوم ہوا کہ محترم راجہ ظفرالحق صاحب کے علاوہ ڈاکٹر معین الدین نظامی بھی شریکِ مجلس ہیں۔ان حضرات کی صحبت سے فکرِ اقبال کے جو نئے گوشے سامنے آئے، ان کا تذکرہ پھر کبھی،اس وقت تو مجھے اس پُرامیدی کو بیان کر نا ہے کہ یادِ اقبال کے اس چراغ میں باقی رہنے کی صلاحیت کیوں ہے؟
ملک کی یہ واحد اوپن یونیورسٹی اقبال سے منسوب ہے۔لازم تھا کہ فکرِ اقبال کے فروغ اور سماج کی علمی روایت میں،اقبال کو ایک قوتِ متحرکہ بنانے میں،اس کا کردارقائدانہ ہوتا۔اس باب میں بعض اہم پیش قدمیوں کے با وجود، یہ امرِ واقعہ ہے کہ اقبال کو اس جامعہ کے تعارف میں مرکزیت حاصل نہیں ہوسکی۔یہاں اقبالیات کا مضمون پڑھایا جا تا ہے۔معتبر اقبال شناس اس سے وابستہ ہیں۔اس مضمون میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگریاں بھی دی جا تی ہیں۔یہ ایک قابلِ قدر کام ہے،لیکن یونیورسٹی کے بہت سے کاموں کا ایک‘ محض ایک جزو۔یونیورسٹی کے ذمہ داران کے ہاں، شایدکبھی یہ بات پیشِ نظر نہیں رہی کہ بطور یونیورسٹی اپنا کرادر نبھاتے ہوئے، یہ ادارہ سماج میں فکرِ اقبال کے فروغ میں بھی کو ئی کردارادا کرے۔ڈاکٹر شاہد صدیقی‘ مجھے احساس ہواکہ‘ اپنے ذہن میں یونیورسٹی کا جو وژن رکھتے ہیں ،اس میں فکرِ اقبال کو مرکزیت حاصل ہیں۔یہ سیمینار تو ایک بہانہ تھا۔چاہتے وہ یہ تھے
کہ اقبال شناسوں اور اہلِ علم کے ساتھ مشاورت کا آغاز کریں اور یوں ایک جامع منصوبے کے تحت، فکر ِ اقبال کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر فروغ دینے کے لیے ایک حکمتِ عملی تشکیل دیں۔یوں اس سیمینار میں شرکت سے مجھے یہ احساس ہوا کہ اقبال کی یہ یاد، آنے والے دنوں میں سرد پڑنے والی نہیں۔
اسی طرح کی ایک اور تقریب میں بھی مجھے شرکت کا مو قع ملا جو واہ کینٹ میں منعقد ہوئی۔پی او ایف انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے یومِ اقبال منایا۔ واہ کی معروف ادبی شخصیت شعیب ہمیش اس کے روح و رواں تھے۔کالج کے پرنسپل نصرت زمان خان کر مانی کا خیال ہے کہ طالب علم کا تعلق جس شعبے سے ہو، لازم ہے کہ فکرِ اقبال سے بھی واقف ہو۔یوں وہ اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ مختلف ٹیکنالوجیز کے طلبا کے لیے بھی ایسی نشستوں کا اہتمام ہو، جن سے ان میں اقبال شناسی پیداہو۔اس بار انہوں نے مجھے 'اقبال... ہر عہد کی آواز‘ کے مو ضوع پر اظہارِ خیال کی دعوت دی۔میں نے مسجدِ قرطبہ کے تناظر میں اقبال کے تصورِ فنا و بقا کا ذکر کیا۔اقبال نے اِس بے مثل نظم میں یہ بتا یا کہ فنا کے عمومی اصول سے اگر کسی کو استثنا مل سکتا ہے توکیسے۔مسجد قرطبہ ایسے ہی استثنا کاایک مظہرہے۔اقبال کا کہنا ہے:
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
اقبال نے اس نظم کا اختتام اس شعرپہ کیا ہے:
نقش ہیں سب ناتمام، خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام، خونِ جگر کے بغیر
اقبال اگر ہر عہدکی آواز بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا فکری کام،ان کے اپنے قائم کردہ پیمانے پر پورا اترتا ہے۔
امرِ واقعہ یہ ہے کہ ہم اقبال کے ساتھ ایک زندہ تعلق قائم نہیں کر سکے۔اس کے دوبنیادی اسباب ہیں ۔ایک یہ کہ فہم ِ اقبال کی کوئی آزادانہ روایت ہمارے ہاں آگے نہیں بڑھ سکی۔چند انفرادی کوششوں کے سوا، ہم نے اقبال سے وہی سلوک کیا جو اس سے پہلے ہم دین کے ماخذات کے ساتھ کر چکے ہیں۔ لوگوں نے پہلے سے قائم شدہ اپنے تصورات کے لیے اقبال سے دلیل لانا چاہی۔یوں اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ کوئی انہیں جمہوریت کا دشمن ثابت کرتا ہے اور کوئی خلافت کا علم بردار ثابت کر نا چاہتا ہے۔یوں فکرِ اقبال کو ایک چیستان بنا دیا گیا۔ دوسراسبب یہ ہوا کہ ریاست کی سطح پر اداروں کی صورت گری میں کہیں اقبال کو راہنما نہیں بنا یا گیا۔مثال کے طور پر اگر حکومتیں فکرِ اقبال کی روشنی میں اسلامی نظریاتی کونسل کی صورت گری کر تی تو اس کی نوعیت بالکل مختلف ہوتی۔پارلیمنٹ آج کچھ اور کر رہی ہوتی۔
اقبال کے بارے میں یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ وہ فقیہ نہیں، مفکر تھے۔ انہوں نے فقہی آرا قائم نہیں کیں کہ لوگ صرف تقلید کریں۔ انہوں نے تو ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ فکر و نظر کی دنیا میں کوئی رائے حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ اپنی آراء کو بھی انہوں نے حرفِ آخرکے طور پر نہیں،غور وفکر کے ایک مر حلے کے طور پر پیش کیا جس کے بعدپیش قدمی ہو سکتی ہے۔گویا فکرِ اقبال سے وابستگی کا تقاضا، ان کی تقلید محض نہیں،ان کی اس سوچ کی آب یاری ہے کہ جہانِ تازہ کی نمود افکارِ تازہ سے ہے۔ہم ان کی قائم شدہ رائے سے انحراف بھی کر سکتے ہیں۔تاہم اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اس سے بہتر رائے پیش کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اس طرح یہ فکرِ اقبال کی خدمت ہو گی اور اس کے ساتھ سماج کی بھی۔
یہ کام کیسے ہوگا؟ڈاکٹر شاہد صدیقی اگر اپنا وژن بروئے کار لاسکے تو ممکن ہے کہ علامہ اقبال اوپن یو نیورسٹی ہی اس کی بنیادیں فراہم کر دے۔میں ان کے لیے دعا گو ہوں ۔ساتھ ہی ایک سوال بھی ان کی خدمت میں رکھنا چاہتا ہوں۔ اس ملک کی روایتی مذہبیت اور سیاست، کیا فکرِ اقبال کی متحمل ہو سکے گی؟کیا فرماتے ہیں، علمائے اقبال بیچ اس مسئلے کے؟