یہ خبر حسبِ توقع میڈیا کو اپنی جانب متوجہ نہیں کر سکی۔
میڈیا کی ترجیحات اپنی ہیں اور ان میں سرِ فہرست سیاستِ دوراں ہے۔ سنسنی، ہیجان، سطحیت، بلند آہنگی اور مناظرہ۔ ان ارکانِ خمسہ سے حالاتِ حاضرہ کے پروگرام ترتیب پاتے ہیں، الا ماشاء اﷲ۔ موضوعات میں سیاست کا غیر ضروری غلبہ۔ گیلپ سروے نے ٹی وی چینلز کے آٹھ مقبول ٹاک شوز کا جائزہ لیا ہے۔ اگست میں 71 فیصد پروگرام ایسے تھے‘ جن میں سیاست زیرِ بحث رہی۔ شرکا میں 68 فیصد سیاست دان تھے۔ ستمبر میں 31 فیصد پروگرام ایسے تھے‘ جن میں صرف دھرنا سیاست پر گفتگو ہوئی۔ جو لوگ مدعو تھے ان میں 68 فیصد کا تعلق سیاست سے تھا۔ اکتوبر میں 33 فیصد شوز دھرنوں اور جلسوں سے متعلق تھے۔ جو لوگ شریک ہوئے، ان میں 52 فیصد سیاست دان تھے۔ اس ماحول میں اگر یہ خبر میڈیا سے اوجھل رہی تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔
خبر یہ ہے کہ قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ صاحب نے وزیرِ اعظم کو ایک خط لکھا۔ 25 ستمبر کو لکھے گئے اس مکتوب میں اُن سے کہا گیا کہ 'میثاقِ جمہوریت‘ کی طرز پر سیاسی جماعتوں کو ایک 'میثاقِ تعلیم و صحت‘ پر بھی اتفاقِ رائے پیدا کرنا چاہیے۔ وزیرِ اعظم نے اس تجویزکو قبول کیا اورجواباً شاہ صاحب کو لکھا کہ وہ اس معاملے میں پیش رفت کریں اور دوسری پارلیمانی جماعتوں سے بھی کہیں کہ وہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں درپیش مشکلات کے حل کے لیے تجاویز دیں۔ یوں اس باب میں قومی سطح پر ایک اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔
تعلیم اور صحت کے مسائل ایسے نہیں کہ ان کی شدت کے بیان کے لیے دلائل تراشے جائیں۔ یہ ہر آدمی کا تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ معیاری تعلیم اور علاج دونوں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں اعلیٰ ترین تعلیم اور علاج میسر ہیں، لیکن صرف ان کے لیے جو انہیں خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ عام آدمی کا معاملہ تو یہ ہے کہ اچھی تعلیم اور صحت کے مواقع اس کے لیے ایک خواب ہیں۔ چند روز پیشتر تھر اور سرگودھا میں جو کچھ ہوا، وہ اسی المیے کی ایک داستان ہے۔ صحت کی بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث سرگودھا میں بہت سے بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تھر تو ایک نہ ختم ہونے والا المیہ ہے۔ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم اور صحت حکومتی و سیاسی ترجیحات میں کہاں ہیں۔
دنیا میں ترقی کے بالعموم دو ماڈل مستعمل ہیں۔ ایک یہ کہ بڑے انفراسٹرکچر تعمیر کیے جائیں اور یوں بڑے سرمایہ کاروں کے لیے آسانیاں اور آسائشیں فراہم کی جائیں تاکہ وہ سرمایہ کاری کے لیے کشش محسوس کریں۔ ن لیگ اس ماڈل کی قائل ہے۔ دوسرا ماڈل یہ ہے کہ عام آدمی کے حالات زندگی کی بہتری کے لیے، آسانیوں کی فراہمی پہلی ترجیح ہو۔ اس سے عام آدمی کی جسمانی اور ذہنی صلاحیت میں اضافہ ہو گا اور یوں وہ قومی ترقی میں کردار ادا کرے گا۔ پہلے ماڈل میں سماجی ترقی، صنعتی ترقی کے نتیجے میں آتی ہے۔ اس میں سرمایے کو 'کیپیٹل‘ کی حیثیت حاصل ہے۔ دوسرے ماڈل میں انسان کی حیثیت 'کیپیٹل‘ کی ہے۔ میرا احساس ہے کہ پاکستان کو دوسرے ماڈل کی زیادہ ضرورت ہے؛ تاہم دونوں کے امتزاج سے بھی کوئی ماڈل تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر بڑی سیاسی جماعتیں یہ اتفاق کر لیں کہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں بجٹ کا کم از کم دس فی صد تعلیم اور صحت پر خرچ ہو گا تو اس سے خاصی بہتری آ سکتی ہے۔ اس وقت ہم دونوں پر تین چار فیصد سے زیادہ خرچ نہیں کر رہے۔
پاکستان میں جمہوری عمل کے ارتقا کے ساتھ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ بعض بنیادی امور پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ جو جماعت برسر اقتدار آئے، عوام کو اس بات کا یقین ہو کہ ان کی تعلیم اور صحت حکومت کی ترجیحات میں اہم تر ہیں۔ میثاق جمہوریت میں ملک کی بڑی جماعتوں نے یہ طے کر دیا ہے کہ وہ فوجی حکومت کی کبھی تائید نہیں کریں گے۔ اس کی وجہ سے اس بات کا امکان کم و بیش ختم ہو گیا ہے کہ کسی غیر آئینی اقدام کو کسی بڑی سیاسی جماعت کی تائید میسر آئے۔ حال ہی میں پارلیمنٹ میں جس یک جہتی کا مظاہرہ ہوا، وہ اس کی بہت شاندار مثال ہے۔ اگر اتفاق رائے کے اس دائرے کو تعلیم اور صحت تک پھیلا دیا جائے تو یقیناً یہ ایک مثبت پیش رفت ہو گی اور جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں گے۔
یہ محض اتفاق ہے کہ9 اکتوبر 2014 ء کو گجرات یونیورسٹی کی تقریب میں، میں نے یہی بات کہی تھی۔ قمر زمان کائرہ صاحب کی موجودگی میں، میں نے تجویز پیش کی کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو اب 'میثاق جمہوریت‘ کے بعد 'میثاق تعلیم‘ کی جانب پیش قدمی کرنی چاہیے۔ میں نے 11 اکتوبر کے کالم میں اس کا ذکر بھی کیا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ قائد حزب اختلاف نے بھی ان خطوط پر سوچا اور جواباً وزیر اعظم نے بھی اس سوچ کو قبول کیا اور اس کا دائرہ صحت تک پھیلا دیا۔ یہ تجویز بہت صائب ہے کہ دوسری پارلیمانی جماعتوں کو بھی دعوت دی جائے کہ وہ مسائل کے بارے میں اپنی تجاویز سامنے لائیں۔ یوں قومی اتفاق رائے کا یہ عمل صحت اور تعلیم پر محیط ہو۔
پاکستان کی جمہوریت میں جو نقائص ابھی تک موجود ہیں، ان میں سے ایک مخالفت برائے مخالفت ہے۔ ایسے نکات بہت کم ہیں جن میں جماعتی و گروہی وابستگی سے بالاتر ہو کر دیکھا جاتا ہو۔ جہاں اس کا اہتمام کرنا پڑتا ہے، وہاں اتفاق موجود ہے۔ مثال کے طور پر دفاعی بجٹ میں سب کی ایک رائے ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کو سود کی ادائیگی میں بھی کوئی اختلاف نہیں۔ حکومت جس جماعت کی بھی ہو، یہ طے ہے کہ بجٹ کا بڑا حصہ ان امور کے لیے مختص ہے۔ دوسرے امور میں ایسا نہیں۔ اگر موٹر وے کا منصوبہ ایک حکومت کا شروع کردہ ہے تو دوسری حکومت بلا سوچے سمجھے، اسے تبدیل کر دے گی۔ اب میٹرو بس کے بارے میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ہمیں بطور قوم اس اندازِ فکر سے بلند ہونا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو قومی تعمیر کے منصوبوں میں زیادہ سے زیادہ اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے معلوم ہوتا ہے کہ ایک حد تک سیکھا ہے۔ ضروری ہے کہ اس کا دائرہ دوسری جماعتوں تک وسیع ہو۔
میڈیا ان امور میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کر سکتا ہے‘ لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ اس کی ترجیحات تبدیل ہوں۔ جب روزمرہ کی بے فیض سیاست ہی مو ضوع بنے اور اہلِ سیاست ہی کے چہرے سکرین پر چھائے رہیں تو پھر یہ تبدیلی نہیں آ سکتی۔ 7/24 چلنے والے چینلز اگر ہفتے میں ایک دو گھنٹے سنجیدہ پروگراموں کے لیے وقف کرنے پر آمادہ نہ ہو ں تو پھر مشکل ہے کہ اہلِ سیاست کا رویہ تبدیل ہو۔ میڈیا کو اس وقت یہ حیثیت حاصل ہے کہ وہ رجحان ساز ہے۔ سیاسی تبدیلی سماجی تبدیلی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ اگر تعلیم اور صحت جیسے مسائل بھی جمہوریت کی طرح متفق علیہ قرار پائیں تو جمہوریت کو نقائص سے پاس کیا جا سکتا ہے۔ صحت اور تعلیم کے باب میں، دو بڑی جماعتوں کی طرف سے اس پیش رفت کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔ اگر ان خطوط پر بات آگے بڑھتی ہے تو امکان ہے کہ تھر اور سرگودھا جیسے حادثات کم ہو جائیں گے۔