کیا قابلِ رشک موت ہے جو ڈاکٹر خالد سو مرو کے نصیب میں لکھی گئی۔ شہادت ، وقتِ فجر اور حالتِ نماز! خبر سنی تو خلیفۂ راشد سیدنا عمرؓ کو یاد کیا۔ انہیں شہادت کی تمنا تھی اور وہ بھی مدینہ میں۔ شہادت اور مدینہ میں؟ لوگ اس خواہش پہ حیران ہوتے۔ ابھی مسلمانوں پہ وہ وقت نہیں آیا تھا کہ محاذِ جنگ کے علاوہ بھی، وہ کسی محلِ شہادت کے بارے میں سوچ سکتے۔ مسجد میںسیدنا عمرؓ کی شہادت مسلم سماج میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ یہ مسلمانوں کے معاشرے میں اہلِ فتنہ کا پہلا موثر ظہور تھا۔ ڈاکٹر خالد سومرو کی شہادت سے اندازہ ہوا کہ سیدنا عمرؓ کی روایت زندہ ہے اورفیروزابو لولو کی معنوی ذریت بھی باقی ہے :
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
ڈاکٹر خالد سومرو تو سر خرو ہوئے۔ قرآن مجید نے ہمیں متوجہ کیا : '' تمہیں موت نہ آئے مگراس حال میں کہ تم مسلمان ہو‘‘۔ ہم جب کسی مسلمان بھائی کو ہمیشہ کے لیے الوداع کرتے ہیں تو ہماری دعا اس جملے پر تمام ہو تی ہے : '' اے اللہ! ہم میں سے جورخصت ہو، حالتِ ایمان میں رخصت ہو‘‘۔ نماز سے بڑھ کر ایمان کی کوئی ظاہری شہادت نہیں۔ ہم سب کی گواہی یہ ہے کہ وہ حالتِ ایمان میں دنیا سے گئے۔ مسئلہ اب ڈاکٹر سومرو کا نہیں، ہمارا ہے۔کیا یہ سماج یوں ہی رہے گا؟کیا محاذ جنگ کے بجائے، مساجداور شاہراہیں محلِ شہادت بنی رہیں گی؟کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ علما اٹھیں اورشہادتِ حق کا فریضہ ادا کریں؟کیا ہمیں مولانا حسن جان یاد ہیں؟مو لا نا سرفراز نعیمی یاد ہیں؟ ڈاکٹر فاروق خان یاد ہیں؟زبانوں کی لکنت دورکرنے کے لیے اورکتنا انسانی لہو چاہیے؟
ڈاکٹر خالد سومرو کسی فرقہ وارانہ جنگ کے سپاہی نہیں تھے۔ مسلکِ دیوبند سے ان کی وابستگی تھی لیکن مولانا فضل الرحمٰن کی طرح ان کامیدانِ عمل سیاست تھا۔ وہ دینی اور تبلیغی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہتے۔ وہ ایک ہر دل عزیز خطیب تھے۔ لوگ ان کے خطبات سننے کے لیے دور دور سے جمع ہوتے۔ میں نے بار ہا ان کو سنا۔ ان کا اسلوبِ گفتگو علمی تھا۔ وہ عوامی خطیبوں کی طرح جذبات سے نہیں کھیلتے تھے۔ سیاست سے وابستگی جس تَوسُّع کو جنم دیتی ہے، وہ بھی ان میں مو جودتھا۔ اس کے باوجود انہیں مار ڈالا گیا۔ معلوم ہوا کہ اب یہ آگ ان تک محدود نہیں رہی جو اس کو بھڑکانے والے تھے۔ مذہبی تشدد پسند ہی اس کا ایندھن نہیں ، وہ بھی ہیں جو اس جنگ میں براہ راست فریق نہیں تھے۔مولانا فضل الرحمٰن تین بار ہدف بن چکے۔ اللہ نے انہیں محفوظ رکھا لیکن ڈاکٹر سومرو نہیں بچ سکے۔ جب آگ پھیل جا تی ہے تویہی ہوتا ہے۔گناہ گار اور بے گناہ کی تفریق ختم ہو جا تی ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس عالم میں خاموشی بھی گناہ بن جا تی ہے۔ یہ خاموشی کب ٹوٹے گی؟
اس سوال کا مخاطب تمام مذہبی گروہ ہیں لیکن ڈاکٹرسومرو کے ہم مسلک بطور ِ خاص۔ علما نے،الا ما شاء اللہ، ہمارے سماج میں اپنے اصل کام سے انحراف کیا۔ ان کا مقام یہ تھا کہ وہ سماج میں دینی علم اور تربیت کو عام کریں اورانذار کریں۔ معاشرہ تعلق باللہ کی اساس پر کھڑا ہو اورآخرت میں جواب دہی کا شعوررکھتا ہو۔ علما کا اصل کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اس کی یاد دہانی کراتے رہیں۔ سیاست علما کے لیے ممنوع نہیں لیکن یہ ان کا حقیقی میدان نہیں۔ سیاست اس امت کی تاریخ میں کبھی علماکا اصل تعارف نہیں رہا۔ ان کی سیاست بس اتنی تھی کہ حکمرانوں کو انذار کیا جائے، جب اس کی ضرورت ہو۔ ہمارے ہاں جب سیاست علما کی دل چسپی کااصل میدان بنی تو ان کی صفوں سے باصلاحیت لوگ اس طرف کا رخ کرنے لگے۔ یوں مسندِ دعوت وارشاد ان کے حوالے کر دی گئی جو درحقیقت اس کے مستحق نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے ذوق کے مطابق مذہبی اداروں کی تشکیل کی۔ یوں یہ مسلکی اورگروہی مفادات کے تابع ہوگئے۔ ان میں اکثریت ان کی تھی جن کی شہرت رسوخ فی العلم نہیں، شعلہ فشانی تھی۔ انہوں نے مذہبی اداروں کو مسلکی انتہا پسندی کے مراکز میں بدل دیا۔
دوسری طرف افغانستان میں سوویت یونین کا قبضہ ہوا تو ریاست ِ پاکستان نے امریکی تائیدو نصرت کے ساتھ،اس
معرکے کو مذہبی بنیادوں پر لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ریاست کی سرپرستی میں تصورِجہاد کی تفہیم ِ نوسامنے لائی گئی اوراسے نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا۔ یوں جہادی گروہ وجود میں آئے۔ سوویت یونین ختم ہوا تو ریاست نے ان گروہوں کو نیامحاذ دینے کی کوشش کی۔ سب کے لیے یہ اہتمام نہیں ہو سکا۔ یوں ان کے نئے گروہ وجود میں آئے جو ہدف اور حکمتِ عملی، دونوں کے تعین میں خود مختار تھے۔ دوسری طرف امریکہ کا مفاد ختم ہوا تو وہ اس سارے عمل سے لاتعلق ہو گیا، یہاں تک کہ تاریخ نے کروٹ لی اوریہ لوگ خود اس کے لیے چیلنج بن گئے۔ ریاست ِ پاکستان نے پالیسی تبدیل کی اور امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو ان گروہوں نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یوں ریاست پاکستان اور جہادی گروہوں کے مابین ایک نیا معرکہ شروع ہوا۔ اس معرکے میں جہادی گروہوں نے ریاست کے ساتھ پاکستانی سماج کو اپنا ہدف بنا لیا۔ ایک مرحلے پر یہ جہاد اور مسلکی انتہا پسندی ہم آہنگ ہوگئے۔ اب معاملات ریاست کے ہاتھ سے نکل گئے اور مذہبی قیادت بھی بے بس ہوگئی۔ یوں مساجد اور شاہراہیں مقتل بن گئے۔
یہ وہ مر حلہ تھا جب علما کو بروئیِ کار آ نا چاہیے تھا۔ وہ علما جنہوں نے خود کو اس ہنگامہ آرائی سے دور رکھا اور سیاست کو اپنی پہلی ترجیح نہیں بنا یا۔ جنہوں نے اشاعتِ دین کی کوششوں کے ساتھ ،اپنے تئیں نئے فتنوں کے خلاف علمی جہاد کو جاری رکھا۔ انہوں نے جہاد سے متعلق اس نئی تعبیرکو نظرا ندازکیا جس نے جہاد کو ریاست کے بجائے نجی شعبے کے حوالے کردیا۔ جب مختلف لوگوں نے جہادکا فریضہ اپنے ہاتھ میں لیا توہدف کے ساتھ،حکمت عملی کا تعین بھی ان کی صواب دید بن گیا۔ اب کسی کے نزدیک دوسرے مسلک کے لوگوں کومارنا جہاد قرار پایا اورکسی کے اجتہاد میں مو لا نا حسن جان واجب القتل ٹھہرے۔ علما نے اس اہم تبدیلی کو نظر انداز کیا اور یوں پاکستان فسادکاگھر بن گیا۔ اس سے دوسری قوتوں کو مو قع ملا جو پاکستان کی سلامتی کے درپے رہتی ہیں۔ ان کے لیے آسانی ہوگئی کہ وہ اس معاشرے کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کریں اوراسے کمزور کریں۔ پاکستان اس وقت عالمی سیاست کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا بھی مرکز بن چکا۔
ڈاکٹر خالد سومروکا قتل اس صورتِ حال کا بالواسطہ یا بلا واسطہ شاخسانہ ہے۔ ایسے واقعات کی روک تھا م کے لیے ضروری ہے کہ علما، بالخصوص مرحوم کے ہم مسلک، مل بیٹھیں اور سوچیں کہ آنے والے دنوں میں ایسے حادثات سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ کام محض احتجاج سے نہیں ہوگا ، اس کے لیے ریاستی اداروں کو بھی غورکرنا ہے کہ پاکستانی سماج کو افغان جنگ کے اثرات سے کیسے محفوظ بنا یا جا سکتا ہے۔ بنیادی سوال ایک ہی ہے: محلِ شہادت میدان ِ جنگ ہوگا یا مسجد اور شاہراہ ؟ ڈاکٹر خالد سومرو تو سرخرو ہوئے لیکن کیا علما بھی ایسا کر پائیں گے؟اگر علما نے شہادتِ حق کی ذمہ داری ادا نہ کی تو 'شہادت‘ باقی رہ جائے گی اور سماج 'حق‘ سے خالی ہو جائے گا۔