"KNC" (space) message & send to 7575

نفرت کی سیاست

میں اِسی وقت سے ڈرتا تھا۔ 
سچ یہی ہے کہ نفرت کاشت کی جائے تو گلاب نہیں کھلتے۔ یہ حادثہ ایک یونیورسٹی میں پیش آیا۔ ''گو نواز گو‘‘ کا نعرہ بلند ہوا اور پھر علم کے طالب ایک دوسرے سے الجھ پڑے۔ گولی چلی اور ایک طالب علم کو مضروب کر گئی۔ اخبار میں اتنا ہی لکھا ہے۔ اس کے بعد نفرت کا جو الاؤ دہکا ہو گا، خبر میں اس کا ذکر نہیں۔ یہ بات وقائع نگار نہیں، تجزیہ نگار بتا سکتا ہے کہ نفرت کی یہ سیاست سماج کو کہاں لے جائے گی۔
اس میں کچھ کلام نہیں کہ پچھلے کچھ عرصے میں ملک میں انتہا پسندی کی سیاست کو فروغ دیا گیا ہے۔ انتخابات کے دنوں میں جو شدت اور اشتعال پیدا ہوتا ہے وہ عارضی ہوتا ہے۔ تحریکِ انصاف نے اسے ایک مستقل سیاسی قدر بنا دیا ہے۔ سیاسی سطح پر انتہا پسندی کا ایسا مظاہرہ،1970ء کی دہائی میں سامنے آیا۔ اس وقت بھی سماج اسی طرح نفرت کی اساس پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ ان دنوں کی فضا نظریاتی تھی۔ اسلام بمقابلہ سوشلزم۔ دونوں اطراف سے جذبات کا استحصال ہوا۔ گرد چھٹی تو معلوم ہوا کہ بظاہر سب ایک طرح کے مسلمان تھے۔ داخل کا حال تو اﷲ ہی جانتا ہے۔ بھٹو صاحب کا مزاج انتقامی نہ ہوتا تو یہ سیاسی تکدر جلد ختم ہو جاتا، خاص طور پر 'اسلامی آئین‘ کے بعد‘ جو مشترکہ کاوشوں کا ثمر تھا۔ یہ نفرت اتنی پھیلی کہ بھٹو صاحب کی جان لے کر رہی۔
آج نظریات کی سیاست کا باب بند ہو چکا؛ البتہ بیانیے موجود ہیں۔ عمران خان اپنی سیاست کو نظریاتی کہتے ہیں‘ تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔ نظریات؟ کون سے نظریات؟ ملک کی بڑی جماعتوں میں کون سا نظریاتی فرق ہے؟ کیا عمران خان اور شیخ رشید کا 'نظریہ‘ ایک ہے؟ شاہ محمود قریشی اور پیر صابر شاہ کے نظریات میں کیا فرق ہے؟ جہانگیر ترین اور اسحاق ڈار میںکون سا نظریاتی اختلاف ہے؟ اسد عمر اور محمد زبیر میںکون سا نظریاتی تصادم ہے؟ عمران خان چاہیں تو اخلاقی برتری کی بات کر سکتے ہیں۔ یہ ثابت کرنا اگرچہ آسان نہیں، لیکن کم از کم دعوے کی حد تک تو اسے زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ نظریات کا اختلاف تو کبھی قابل فہم نہیں رہا۔ نظری سیاست کا دور اب گزر چکا۔ اب انتہا پسندانہ رویوں کا ہدف نظام ہے اور پھر اس سے وابستہ افراد۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 'نظام‘ اور 'سٹیٹس کو‘ کے کردار یکساں طور پر دونوں اطراف موجود ہیں۔ نظام بھی ایک اور افراد بھی ایک جیسے۔ اس لیے کوشش کی گئی کہ کوئی فرد نفرت کی اس سیاست کا ہدف بن جائے۔ محبت اور نفرت، دونوں اپنے ہدف کو مجسم دیکھنا چاہتے ہیں۔ عمران خان نے نواز شریف کی صورت میں یہ تجسیم کر دی۔
آج عمران خان کی سیاسی منزل یہ ہے کہ نواز شریف کو عوامی نفرت کی علامت بنا دیا جائے۔ یہ انتہا پسندی کی سیاست ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ تشدد کی سیاست ہے۔ تشدد محض یہ نہیں ہوتا کہ کسی کو اینٹ مار دی جائے یا گولی۔ تشدد پہلے ذہن میں جنم لیتا ہے اور پھر اعمال میں اس کا ظہور ہوتا ہے۔ عمران خان پہلا کام کر رہے ہیں۔ ذہنی انتہا پسندی کو ہوا دے رہے ہیں۔ شیخ رشید ان کی بات کو زیادہ سخت زبان میں بیان کرتے ہیں۔ شیخ صاحب کی تقریر کے دوران میں عمران خان کا چہرہ دیکھنا چاہیے۔ اس پر صاف لکھا ہوتا ہے: ''کاش میں بھی ایسی گفتگو کر سکتا۔‘‘ خان صاحب کو جب اِدھر اُدھر سے توجہ دلائی گئی تو کہا: اب انہیں ڈاکو صاحب، چور صاحب کہوں گا۔ یہ اذیت پسندانہ سیاست ہے۔ انہیں بالکل اندازہ نہیں ہو رہا ہے کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔
بیس کروڑ کے اس ملک میں سب لوگ عمران خان کے چاہنے والے نہیں ہیں۔ بہت سے وہ بھی ہیں جو نواز شریف صاحب سے ویسی ہی وابستگی رکھتے ہیں‘ جیسے خان صاحب کے ''ٹائیگرز‘‘ ان سے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے چاہنے والے بھی اسی ملک میں رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کمزور ضرور ہو ئی ہے، ختم نہیں ہوئی۔ جب ہر تقریب میں، ہر مجلس میں، حتیٰ کہ شادی بیاہ کی تقریبات میں 'گو نواز گو‘ کو وتیرہ بنا لیا جائے گا تو لازماً مخالفین کے جذبات مشتعل ہوں گے۔ وہ بھی رد عمل کا اظہار کریں گے۔ نفرت کا رد عمل محبت نہیں ہوتا۔ یوں تصادم ناگزیر ہے۔ لوگوں کو پرویز رشید صاحب اور سعد رفیق صاحب پر اعتراض ہے۔ حیرت ہے کہ رد عمل پر تبصرہ ہے اور عمل پر کسی کی نگاہ نہیں۔ حکومت کے لیے مشورہ ہے کہ وہ صبر کا مظاہرہ کرے۔ حکومت کا صبر یہ ہے کہ وہ پُرتشدد رویوں کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال نہ کرے۔ سب جانتے ہیں کہ اس معاملے میں حکومت نے صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس میں ماڈل ٹاؤن کے حادثے کا استثنا ہے۔ حکومت کو تو صبر ہی کرنا چاہیے لیکن مسلم لیگ ایک سیاسی قوت ہے۔ وہ بھی گوشت پوست کے انسان ہیں۔ جب ہر روز اور ہر طرف 'گو نواز گو‘ کی صدا گونجے گی تو وہ کب تک کانوں میں انگلیاں ڈالے رکھیں گے۔ مجھے اس وقت کا خوف ہے جب یہ انگلیاں کانوں سے باہر آ جائیں گی۔
اس وقت کا انتظار کیے بغیر، اس کی روک تھام کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کوئی ضابطۂ اخلاق، کوئی اخلاقی گرفت، کوئی قدم تو اٹھانا پڑے گا۔ سیاسی کلچر اگر 1970ء کی دہائی کی طرف لوٹ گیا‘ تو پھر سماج ایک نئے عذاب کی لپیٹ میں ہو گا۔ ہم سماجی خلفشار کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ نفرت پھیلے گی تو مزید نفرت کو جنم دے گی۔ اس کا ہدف پھر ایک نہیں، بہت سے ہوں گے۔ دہشت گردی پھیلی ہے تو اب سب اس کے نشانے پر ہیں۔ وہ بھی جن کا حجرہ اس کی جائے پیدائش تھا۔
تنقید اور نظام کی خرابیوں کو بیان کرنا حزب اختلاف کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو یہ قابل اعتراض ہو گا۔ یہ سارا کام شائستگی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ شرک سے بڑھ کر کوئی برائی نہیں اور اﷲ کے پیغمبروں سے بڑھ کر کوئی مصلح نہیں ہو سکتا۔ ان کا اسوہ یہی ہے کہ وہ نفرت کی سیاست نہیں کرتے تھے۔ اﷲ کے آخری رسولﷺ نے کبھی ابو جہل یا ابن اُبی کو ہدف نہیں بنایا۔ سیدنا مسیحؑ کے خطبات آج بھی انجیل میں پڑھے جا سکتے ہیں۔ سارا ابلاغ تمثیلات کی زبان میں ہے۔ آج دنیا میں حضرت مسیحؑ کے نام لیوا سب سے زیادہ ہیں۔ دنیا کا سب سے ہمہ گیر اور عالی شان انقلاب رسالت مآبﷺ نے برپا کیا۔ اس زمین پر کوئی وقت ایسا نہیں گزرتا کہ فضائیں، ان کی رسالت کی شہادت سے معمور نہ ہوئی ہوں۔ پیغمبروں کا اسوہ ہی سب سے اچھا طرز زندگی ہے۔ آج ہم میں کوئی نہیں جو ابو جہل ہو۔ کوئی نہیں جسے ہم ابن اُبی کہنے کی جرأت رکھتے ہوں۔ یہ عام انسانوں کا معاشرہ ہے، جس میں خیر بھی ہے اور شر بھی۔ کہیں خیر زیادہ ہے اور کہیں شر۔ یہ کم نظری ہے کہ اسے خیر و شر میں تقسیم کر دیا جائے۔
تنقید ہو لیکن اصلاح کے لیے۔ نفرت کی سیاست، اس سماج کو برباد کر دے گی۔ یونیورسٹی کے واقعے کو آنے والے خطرے کی گھنٹی سمجھنا چاہیے۔ عمران خان کو متوجہ کرنا چاہیے کہ ان کی تنقید نہیں، رویے سے پاکستانی سماج کو کیا خطرات لا حق ہو چکے ہیں۔ جماعت اسلامی سیاست کو اخلاقیات سے جدا نہیں کرتی۔ کیا سراج الحق صاحب کوئی قدم اٹھائیں گے کہ ہماری سیاست اخلاقیات کے تابع ہو جائے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں