کیا پیپلز پارٹی عصری سیاست کا بارہواں کھلاڑی ہے؟ کیا وہ منتظر ہے ایک ایسے لمحے کی 'جس میں سانحہ ہو جائے... پھر وہ کھیلنے نکلے... تالیوں کے جھرمٹ میں... ایک جملۂ خوش کُن، ایک نعرۂ تحسین اس کے نام ہو جائے... سب کھلاڑیوں کے ساتھ وہ بھی معتبر ہو جائے‘؟
پیپلز پارٹی کی سیاست اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ بلاول بھٹو کی رونمائی اور تقریر سے یہ تاثر قائم ہوا کہ اس جماعت کا بھی ایک بیانیہ ہے۔ ایسا بیانیہ جس کا کوئی دوسرا سیاسی ترجمان نہیں۔ خیال یہی تھا کہ وہ اس کے ساتھ آگے بڑھے گی‘ تو ان لوگوں کے لیے باعثِ کشش بن جائے گی‘ جو اس بیانیے سے اتفاق رکھتے ہیں۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں‘ جنہوں نے مجبوری میں تحریکِ انصاف کی طرف رُخ کر لیا ہے۔ یوں یہ امکان پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ لوٹ آئیں۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیانیہ تقریر ہی کی حد تک تھا‘ اور اگر اس کی کوئی حقیقی اساس تھی بھی تو کم از کم زرداری صاحب اس کو لے کر چلنے کے لیے آ مادہ نہیں ہیں۔ اس وقت باپ اور بیٹے میں بڑھتے فاصلے شاید اسی کا شاخسانہ ہیں۔ زرداری صاحب ماضی کی کوتاہیوں کا تدارک کیے بغیر چاہتے ہیں کہ تیتر اور بٹیر کی لڑائی میں، اگر کسی کی چونچ یا دم گم ہو جائے تو وہ اس کی جگہ لے لیں۔ وہی ایک حادثے کی خواہش۔ اس لمحے کا انتظار جس میں حادثہ ہو جائے۔
تاریخی ارتقا کے ساتھ پیپلز پارٹی کا جو بیانیہ مرتب ہوتا ہے، اس کے دو اجزا ہیں۔ ایک جزو نظری اور فکری ہے۔ یہ جماعت پاکستان میں سیکولر اور لبرل رجحانات اور رویوں کی علمبردار رہی ہے۔ سیاسی مصلحتوں کے تحت پارٹی نے اپنے اس بیانیے سے انحراف کیا۔
اس کا آغاز بھٹو صاحب کے عہد ہی میں ہو گیا تھا‘ لیکن اُن کی بھاری بھرکم شخصیت نے اسے منصۂ شہود پر نہ آنے دیا۔ معراج محمد خان جیسے لوگوں نے اس انحراف کو جان لیا تھا‘ لیکن ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ بعد کے ادوار میں یہ انحرافات نمایاں تر ہوتے گئے۔ اب انہیں چھپانا ممکن نہیں رہا۔ یوں اِس طرز عمل نے عام کارکنوں میں مایوسی کو جنم دیا۔ وہ پارٹی سے لاتعلق ہوتے گئے۔ جو باقی رہے وہ سیاسی مفادات کی وجہ سے۔ جانتے وہ بھی تھے کہ نظریاتی تشخص اب قصۂ پارینہ ہے۔
اس بیانیے کا دوسرا جزو تاریخی ہے۔ جنرل ضیاء الحق صاحب کی آمد سے پہلے، پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔ ضیاء الحق مرحوم نے اس جماعت کی مخالف قوتوں کو نواز شریف صاحب کی قیادت میں متحد کر دیا۔ پہلے ان کی سربراہی میں ایک انتخابی اتحاد وجود میں آیا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، وہ تنہا پیپلز پارٹی مخالف قوت کی علامت بن گئے۔ 1993ء کے انتخابات نے اس ارتقائی عمل کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا۔ اس سے پہلے جماعت اسلامی نظریاتی بنیادوں پر پیپلز پارٹی کے مخالف نقطہ نظر کی علامت تھی۔ نواز شریف صاحب کی قیادت میں قائم ہونے والے اتحادوں کا حصہ بن کر جماعت اسلامی اپنے اس امتیاز سے محروم ہو گئی۔ یہ عصبیت اب نواز شریف صاحب کو منتقل ہو چکی تھی۔ 1993ء کے انتخابات میں جب قاضی حسین احمد صاحب نے چاہا کہ اینٹی پیپلز پارٹی سیاست کی علامت بنیں تو وہ کامیاب نہیں ہوئے، یہاں تک کہ جماعت کے ہمدرد حلقے نے بھی ان سے اتفاق نہیں کیا۔ اس کے خیال میں بھی اینٹی پیپلز پارٹی سیاست کی علامت نواز شریف ہی تھے۔
نواز شریف صاحب کے اس طرح ابھرنے کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی سیاسی حیثیت کھو بیٹھی۔ ایک کمزور اقتدار اسے ملا‘ اور وہ ملک کی سب سے بڑی جماعت نہیں رہی۔ پیپلز پارٹی سے جذباتی اور رومانوی تعلق رکھنے والا، اس کا ذمہ دارضیاء الحق کو سمجھتا اور اُن سے نفرت کرتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ وہی تھے جنہوں نے بھٹو کو پھانسی لگوایا اور نواز شریف کو ایک بڑا چیلنج بنا کر کھڑا کر دیا۔ ضیاء الحق تو اب اس دنیا میں نہیں‘ لیکن نواز شریف تو ہیں۔ اس جذباتی طبقے کی نفرت کا ہدف اب وہی ہیں۔ پیپلز پارٹی اس قوت سے محروم ہو چکی‘ جو نواز شریف صاحب کو شکست دے اور یوں اس طبقے کی نفرت کے لیے تسکین کا باعث ہو۔ یہ کام عمران خان نے کر دیا۔ انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ نفرت کو ایک سیاسی قدر بنا دیا۔ اس سے پیپلز پارٹی کے اس جذباتی طبقے کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ اسے محسوس ہوا کہ ایک لبرل اور سیکولر پاکستان نہ سہی، کم ازکم نواز شریف کو شکست دینے کا ارمان تو پورا ہو سکتا ہے۔ یوں ایک منفی جذبہ اسے تحریک انصاف میں لے آیا۔ اس طرح پیپلز پارٹی کے بیانیے کا دوسرے جزو کی تکمیل کا بالواسطہ سامان پیدا ہو گیا۔
پیپلز پارٹی جب اپنے سیاسی بیانیے کے ان دونوں اجزا سے محروم ہو گئی تو اس کے پاس کچھ بچا نہیں‘ جسے وہ بازارِ سیاست میں بیچ سکے۔ یوں اس کی دکان موجود ہے لیکن گاہکوں کا رش دوسری دکانوں پر ہے۔ کہاں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور کہاں بارہواں کھلاڑی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب کوئی حادثہ ممکن ہے جو اسے کھیل کے میدان میں اتار سکے؟ کیا حادثوں کی منتظر کوئی جماعت اس قابل ہو سکتی ہے کہ وہ ملک کی پہلی یا دوسری بڑی جماعت بن جائے؟ میرا خیال ہے ایسا نہیں ہو سکتا۔ بارہواں کھلاڑی، اگر کسی حادثے کے باعث میدان میں اتر بھی آئے تو قانون یہی ہے کہ وہ بیٹنگ کر سکتا ہے نہ باؤلنگ، وہ صرف فیلڈنگ کر سکتا ہے۔ ہاں اچھا کیچ پکڑ کر وہ کسی حد تک کھیل پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور بس۔
پیپلز پارٹی کو اگر کھیل میں موثر طور پر واپس آنا ہے‘ تو اسے بارہویں کھلاڑی کی نفسیات سے نکلنا ہو گا۔ انتخابی دھاندلی کا واویلا اسے فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ یہ بات جتنی مستحکم ہو گی، اس کا فائدہ صرف تحریکِ انصاف کو پہنچے گا۔ یہی نہیں، اس موقف نے پارٹی کو ایک مضحکہ خیز صورتِ حال سے دوچار کر دیا۔ اعتزاز احسن پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر دھاندلی کا علم بلند کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ جس شاخ کو کاٹ رہے ہیں، وہ خود اسی پر تشریف فرما ہیں۔ پرویز اشرف صاحب جب عمران خان کے بیانات کی جگالی کرتے ہیں تو یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ بازارِِ سیاست لنڈا بازار نہیں۔ آپ دوسروں کی اترن بیچیں گے تو گاہک نہیں ملے گا۔ جب پیپلز پارٹی کے پاس اپنا مال ہے تو وہ اسے سٹور میں چھپا کر کیوں رکھے ہوئے ہے؟ وہ عمران خان کی اترن کیوں بیچنا چاہتی ہے؟
یہ مال پیپلز پارٹی کا وہی بیانیہ ہے جس کی جھلک بلاول بھٹو کی تقریر میں نظر آئی تھی۔ اس مال کے خریدار موجود ہیں کیونکہ یہ کسی اور دکان پر نہیں ملتا۔ پیپلز پارٹی اگر اس پر توجہ دے تو میرا خیال ہے کہ اسے 'گاہک‘ مل سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس بیانیے کے دوسرے جزو پر اصرار کرنے والے بھی لوٹ آئیں کہ منفی جذبہ دیرپا نہیں ہوتا۔ کامیابی خود ایک مرہم ہے۔ زخم بھر جائیں تو پھر ٹیس بھی کم اٹھتی ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ پارٹی کی باگ اب بلاول کے ہاتھ میں تھما دی جائے۔ پارٹی کو اکابرین کی ایک مجلس (Council of Elders) بنا دینی چاہیے جو 'شورائے نگہبان‘ کا کردار ادا کرے لیکن قیادت بلاول کے ہاتھ میں رہے۔ کیا زرداری صاحب اس کے لیے آ مادہ ہوں گے؟ اس کے آثار تو مو جود نہیں ہیں، شاید یہی باپ اور بیٹے میں فاصلے کا باعث ہو۔
سیاست میں جارحانہ اسلوب اپنانا لازم ہے۔ یہی انداز کسی کھلاڑی کے لیے کامیابی کا دروازہ کھولتا ہے۔ بارہویں کھلاڑی کی نفسیات حادثوں کی منتظر رہتی ہے۔ اب کوئی حادثہ نہیں ہو نے والا۔ پیپلز پارٹی کو اپنے اصل بیانیے کی طرف لوٹنا ہو گا۔ سیاست میں ابہام سے بڑھ کر کوئی چیز مضر نہیں ہوتی۔ واضح موقف اور حکمتِ عملی! یہی ہے رختِ سفر میرِ کاروں کے لیے۔