میرا احساس ہے کہ یہ گزشتہ پینتیس سال میں آنے والی سب سے بڑی تبدیلی ہوگی۔
وزیر اعظم نے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کی۔ حادثہ ہوا تو ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر وہ پشاور پہنچے۔کہا، یہ بچے میرے بچے ہیں ، ان کے ایک ایک قطرۂ لہو کا حساب لیا جا ئے گا۔ ایک عزمِ صمیم کا اظہارہوا۔ عالمی دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے سزائے موت کو بحال کر دیا گیا۔ قومی قیادت کو جمع کیا گیا۔ سب نے لبیک کہا۔ عمران خان نے دھرنا ختم کیا۔ فوج ، حکومت اور قومی سیاسی قیادت ایک صفحے پر دکھائی دیے۔کمیٹی قائم ہوئی اور بات سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ اللہ کرے، اس سنجیدگی کو کسی کی نظر نہ لگے اور پاکستان میں لوگوں کو جان و مال کا تحفظ ملے۔ اس کو بھی ہم تبدیلی کہہ سکتے ہیں مگر سب سے بڑی تبدیلی ایک اور ہے۔ یہ بطور سپہ سالار، جنرل راحیل شریف کا تقرر ہے۔
پاکستان آج جس عذاب میں مبتلا ہے، یہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کی دَین ہے۔ یہ 'سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ کی وہ پالیسی ہے جس نے انڈے بچے دیے اور اس سماج کو برباد کردیا۔ اس حکمتِ عملی کے تحت تین بنیادی کام ہوئے :
1۔ افغانستان میں براہ راست لڑنے کا فیصلہ ہوا اور اس کے لیے پاک فوج کوایک قومی فوج کے تشخص سے محروم کرکے اسلام کی نظریاتی فوج کا تشخص دیاگیا۔ پاکستان ایک نظریہ ہے اور اس کے ساتھ جغرافیہ بھی۔ قومی فوج ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک نظریاتی وابستگی کے ساتھ، فوج اس بات کا بھی ادراک رکھتی ہے کہ وہ ایک ملک کی فوج ہے اوراس کی سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہے۔ اسلام کی فوج ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام چونکہ ایک نظریہ ہے جس کی کوئی سرحد نہیں، اس لیے فوج بھی کسی سرحد کی پابند نہیں۔ اس
لیے ایک دوسرے اسلامی ملک کی حفاظت بھی اس کے فرائض میں شامل ہے۔ اس نظریے کے تحت سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی حفاظت بھی اس کا فرض ٹھہرا۔ یوں پاک فوج کے لوگوں نے اس جنگ کو ایک نظریاتی یک سوئی کے ساتھ اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے لڑا۔ جب تک یہ جنگ سوویت یونین کے خلاف تھی،کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔کچھ سالوں بعدجب حالات نے پلٹا کھایا، امریکہ نے سوویت یونین کی جگہ لے لی اور فوج کو طالبان کے خلاف نبرآ زما ہونا پڑا تو اسے مشکل پیش آئی کہ وہ ان لوگوں کے خلاف کیسے لڑے جو ان کی طرح کلمہ گو ہیں۔ فوج میں نظریاتی ابہام ایک المیے سے کم نہیں ہوتا اور ہم اس کا شکار ہوئے۔ پھرفوج کی صفوں سے ڈاکٹر عثمان جیسے لوگ نمودار ہونے لگے۔
2۔اس حکمت ِ عملی کے ساتھ دوسرا کام یہ ہوا کہ مذہبی جماعتوں کی معاونت سے، جہاد(قتال)کوایک کلچر بنا دیا گیا۔ نجی سطح پر جہاد کے نام پر لوگوں کو مسلح کیا گیا اور انہیں تربیت بھی دی گئی۔اس کے لیے ذہن سازی کی گئی اور اس کام کے لیے بعض مدارس نے اہم کردار ادا کیا۔ ان مدارس نے بالعموم عسکری تربیت نہیں دی ،انہوں نے اس کام کے لیے ذہن سازی کی۔ ان تیار ذہنوں کو دوسرے لوگوں نے تنظیموں کی صورت میں منظم کیا، انہیں تربیت دی اور ان کے ہاتھ میں اسلحہ بھی دیا۔ مذہبی سیاسی جماعتوں نے بھی حسبِ توفیق ان تنظیموںکوافرادی قوت فراہم کی۔ یوں ملک میں ایک جہادی کلچر پھیل گیا۔ جہاد جب نجی شعبے کے حوالے کیا گیا تواس کے بعد اس کی باگ ریاست کے ہاتھ سے نکل گئی۔ اب جس کا جی چاہا،اس نے
اپنے لیے جہاد کا ایک ہدف اور پھر اس کی حکمت عملی ترتیب دی۔ اب وہ گروہ بھی وجود میں آگئے جن کا ہدف افواجِ پاکستان ٹھہریں۔
3۔افغانستان میں بد امنی کے باعث لاکھوں افغان مہاجرین کا قیام طویل سے طویل تر ہوتا گیا۔ اسی تصورِ جہاد کے تحت ان کی میزبانی کو مواخات سے تعبیرکیا گیا اور اسے ریاست سے زیادہ سماج کی ذمہ داری قرار دیا گیا۔ یوں وہ کیمپوں تک محدود نہیں رہے۔ مذہبی جماعتوں نے ریاست کی سرپرستی میں لوگوں کے جذبۂ ایمان کو ابھارا۔ روایات سنائی گئیں کہ کیسے انصارمدینہ نے مہاجرین کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھولے۔ اگر کسی کی دوبیویاں تھیں تو اس نے ایک کو طلاق دے دی کہ دوسرے مسلمان بھائی کا گھر بس جائے۔ ان روایات کا افغان مہاجرین پر اطلاق کیا گیا۔ سادہ مسلمان اس سے متاثر ہوا۔ افغانستان میں لڑنے والے کوان لوگوں نے اپنے گھروں میں بسا یا۔ ان کے نکاح مقامی خاندانوں میں ہونے لگے۔اس باب میں سب سے زیادہ ایثارقبائلی علاقوں کے عوام نے کیا۔ یوں افغان مہاجر پورے ملک میں پھیل گئے۔ ظاہر ہے کہ ان میں ہر طرح کے لوگ تھے۔ ان کا قیام طویل ہوا اور اب ایک پوری نسل جوان ہوگئی جس نے پاکستان میں جنم لیا۔ ان کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ ہیں اور وہ یہاں املاک کے مالک ہیں۔ بعض علاقے تو ایسے ہیں جن میں صرف افغان بستے ہیں اور پاکستانی وہاں اقلیت ہیں۔ ایسے علاقے دارالحکومت سے چند کلو میٹرکے فاصلے پر ہیں۔ ملک میں پھیلنے والی جرائم کی ایک لہر یہیں سے اُٹھ رہی ہے۔
ضیاء الحق صاحب تو اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن 'سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ کی حکمت عملی انڈے بچے دیتی رہی اور پاکستان فساد سے بھرگیا۔ اس دوران میں بر سرِحکومت آنے والی ہر سیاسی قیادت اقتدارکے مراکز سے دور رہی۔ اہلِ سیاست نے ایک ڈیڑھ سال اپنے اپنے حصے کی بدنامیاں سمیٹیں اورتاریخ کے حوالے ہوگئے۔ جن کے ہاتھ میں اقتدار تھا،انہوں نے اس سوال پرکبھی غور نہیں کیاکہ اس فساد کی جڑ ضیاء الحق صاحب کی حکمت ِعملی ہے۔اس سے نجات کے سوا بقاکی کوئی صورت مو جود نہیں۔ پاکستان کو شدت سے ایک ایسی عسکری قیادت کی ضرورت تھی جو اس بات کا ادراک کرتی۔ یہ کام کوئی سیاسی قیادت نہیں کر سکتی تھی۔ اس کی وجہ سے ہم سب واقف ہیں۔ یہ کام وہی کر سکتا تھا جو ضیاء الحق صاحب کی جگہ مسند نشیں ہو۔گزشتہ پینتیس سال میں جنرل راحیل شریف پہلی شخصیت ہیں جن کے بارے میں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کا ادراک ہے۔ اس مسند پر فائز ہونے سے پہلے، انہوں نے پاک فوج کی ترجیحات کا جس طرح ازسرِ نو تعین کیا ہے، وہ اسی ادراک کا اظہار ہے۔ اب ان کے پاس قوتِ نافذہ بھی ہے۔اس لیے مجھے خیال ہو تا ہے کہ وہ تبدیلی آ چکی، جس کی اس ملک کو ضرورت تھی۔ اگر میرا یہ تاثر درست ہے تو یہ گزشتہ پینتیس سالوں میں آنے والی سب سے بڑی تبدیلی ہوگی۔
جب قومی داخلی سلامتی پالیسی کی بات ہوئی تو کہا گیا کہ قوم کو ایک نئے بیانیے کی ضرورت ہے۔ حکومت یہ بیانیہ نہیں دے سکی۔ اللہ کرے کہ اب فوج جنرل راحیل شریف کی قیادت میں یہ کام کر گزرے۔ میرا خیال ہے کہ اس ضمن میںچند کام ناگزیر ہیں :
1۔ پاک فوج کو نظرتی طور پر ایک قومی فوج بنایا جائے۔
2۔قومی مفاد کے لیے جن عسکری سرگرمیوں کی ضرورت ہے، ان کا دائرہ فوج اور قومی سلامتی کے اداروں تک محدود کیا جائے۔
3۔ نجی سطح پر تمام عسکری سرگرمیوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔کسی دوسرے ملک کے خلاف اگر جہاد کی ضرورت ہے تو اسے قومی پالیسی کا حصہ بنا یا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو نجی سطح پر دوسرے ممالک کے خلاف ہر طرح کی عسکری سرگرمیوں کو، وہ ذہن سازی سے متعلق ہوں یاعملی جدو جہد سے انہیں ختم کیا جائے۔
4 ۔ اسلامی تعلیمات کے اس پہلوکو بطور مہم فروغ دیا جائے کہ جہاد صرف ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اسلام میں غیر ریاستی جہاد کا کوئی تصور نہیں۔ اس کے لیے علما سے مدد لی جائے۔
5 ۔ جو لوگ نجی سطح پر جہاد میں مصروف ہیں،انہیں واپسی کی دعوت دی جائے اور لوٹ آنے والوں کے لیے مکمل معافی کا اعلان کیا جائے۔
6۔ افغانستان، بھارت اور ایران کے ساتھ یہ معاہدہ کیا جائے کہ وہ اپنے اپنے قومی مفادات کے لیے دوسرے ملکوں کے سماج اورعوام کو نشانہ نہیں بنائیں گے اورکسی طرح کی دہشت گردی کی پشت پناہی نہیںکریں گے۔
اس باب میں خوش قسمتی سے، حکومت اور فوج کا نقطہ نظر ایک ہے۔ دونوںبسم اللہ کریں اورآگے بڑھیں۔ جو پاکستان کو امن لوٹا دے گا، وہ قائد اعظم کے بعد، اس قوم کا سب سے بڑا محسن ہوگا۔