یہ مان لینا چاہیے کہ سماج کی سطح پر دو بیانیے ہیں۔ ہم جس اتفاق رائے کی تلاش میں ہیں، وہ موجود نہیں۔
طالبان ایک گروہ ہیں اور اُس کے ساتھ ایک بیانیہ بھی۔ ساری بحث یہ ہے کہ اس گروہ کا خاتمہ کیا جائے۔ بیانیے کی بات کوئی نہیں کر رہا، وزیر داخلہ بھی نہیں۔ لبرل طبقہ بھی پر جوش ہے کہ مولانا عبد العزیزکے خلاف ریاستی قوت بروئے کار آئے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ ایک فرد کا معاملہ نہیں ہے۔ غازی عبدالرشید کو مظلومانہ مار ڈالا گیا تو غازی بریگیڈ نے جنم لیا۔ بیانیہ موجود ہو تو افراد غیر اہم ہو جاتے ہیں۔ ایک رخصت ہوتا ہے تو کوئی دوسرا علم اٹھا لیتا ہے۔ پھر ام حسان تو ابو بکر بغدادی کو خلیفہ مان چکیں۔ اس بیانیے کے حق میں قومی اخبارات میں کالم اور مضامین مسلسل اور بالاہتمام شائع ہو رہے ہیں۔ ٹی وی مباحثوں میں بھی یہ بیانیہ شد و مد سے پیش کیا جاتا ہے۔کہیں جمہوریت کی مخالفت کے نام پر۔ کہیں داعش کی خلافت کے حق میں۔اس لیے یہ خیال، خام خیالی ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف کوئی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
ریاست کی ایک مجبوری کو بہرحال سمجھنا چاہیے۔ جب کسی نقطہ نظریا گروہ کو سماج میں قابل ذکر عوامی عصبیت حاصل ہو جائے تو اُسے محض ریاستی طاقت سے یا بزورختم نہیںکیا جا سکتا۔ اس کے لیے کوئی دوسری حکمت عملی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ کراچی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں جرم اور سیاسی عصبیت جمع ہو گئے۔ کوئی حکومت اس کے خلاف فیصلہ کن اقدام نہیں کر سکی۔جی ایم سید جیسی شخصیت اگر کہہ دے کہ '' اب پاکستان کو ٹوٹ جانا چاہیے‘‘ تو ریاست صرف گلدستہ بھیج سکتی ہے ۔آج یہی صورت حال طالبان کے معاملے میں بھی ہے۔ یہ ایک بیانیہ ہے جس کے حامی ملک کے شرق و غرب میں موجود ہیں۔ ریاستی اداروں سمیت ،ہم سب دل کے بہلانے کو، انہیں گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ محض ایک مصنوعی تقسیم ہے۔ اصل بیانیہ ایک ہے اور وہ یہ کہ اسلام کو ایک جنگ درپیش ہے اورمسلمانوں کے دشمنوں سے ہمیں میدان جنگ میں نبرد آزما ہونا ہے۔ مسلمان اس وقت حالت جنگ میں ہیں۔ مسلمانوں پر جہاد فرض ہو چکا۔ وہ مسلمان حکومتیں ارتداد کا ارتکاب کر رہی ہیں جو مسلم دشمن قوتوں کی ساتھی ہیں۔ امریکہ، بھارت، اسرائیل بالخصوص اور یورپ بالعموم اسلام دشمن ہیں۔ ان سے جہاد کرنا ہے۔ یہ بیانیہ ایک ہے جو سب بیان کر رہے ہیں۔ اختلاف محض جزئیات یا حکمت عملی میں ہے۔ کچھ پاکستان کی حکومت اور ریاست کا استثنا کرتے ہیں۔ معلوم نہیں اس بیانیے کو قبول کر لینے کے بعد،ان کے پاس اس استثنا کی دلیل کیا ہے؟ یہ بیانیہ موجود ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ چند مسلح افراد کو مار ڈالیں گے اور پھر پاکستان میں امن آ جائے گا۔ اس لیے میں عرض کرتا ہوں کہ یہ ایک خام خیالی ہے۔
ریاست نے جب داخلی قومی پالیسی کا اعلان کیا تو اس بات کا اعتراف کیا تھا۔ اس لیے ایک ''قومی بیانیے‘‘ کی ضرورت کو بیان کیا گیا۔ اس کے تحت،عمومی نظام تعلیم، مذہبی تعلیم اور دوسرے شعبوں کی تشکیل نو کی بات کی گئی تھی۔ اس سمت میں ایک قدم نہیں اٹھ سکا۔ وزیر داخلہ کے خیالات، اس باب میں پہلے دن سے ابہام کا شکار ہیں۔وہ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان مدارس کے طلبا کو کہتے ہیں۔یہ لفظ لغت سے اٹھ کر ایک اصطلاح بن چکا ہے۔طالبان اب مدارس میں کم اور جدید تعلیمی اداروں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔
حکومتی سطح پر کوئی ایسا نظام موجود نہیں جو ایک قومی بیانیہ تشکیل دے سکے۔ سیاسی جماعتوں کی اپنی ترجیحات ہیں۔ اس کا اظہار سات روزہ مشاورت کے نتائج سے ہو رہا ہے۔ جماعت اسلامی آج جمعیت علماء اسلام سے بڑھ کر دینی مدارس کی وکیل ہے۔ اس پس منظر میں میرے لیے تو ممکن نہیں کہ میں اس خوش فہمی کا شکار ہوجاؤں کہ دہشت گردی کے خلاف قوم میں اتفاق رائے پایا جا تا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر کیا کیا جائے؟
اب دو کام ایک ساتھ ہونے چاہئیں۔ ایک یہ کہ ریاست ان عناصر کا خاتمہ کرے جو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتے اور اس کی حاکمیت کو قبول نہیں کرتے۔ حکومت اس باب میں یک سو لگتی ہے۔ دوسرا کام یہ ہے کہ اس بیانیے کو موضوع بنایا جائے اور اس کے دینی اور سیاسی استدلال کو ردکیا جائے۔ یہ کام ایک بڑی سماجی تحریک کا متقاضی ہے۔ اس کے لیے دینی مدارس ہی کونہیں، جدید تعلیمی اداروں کے ماحول اور نصاب کو بدلنا بھی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ دینی دعوت و تبلیغ کے مراکز اور مساجد کو بھی ایک ریاستی نظام کے تابع کرنا لازم ہے۔ شعور و آگہی کی ایک مکمل مہم کے بغیر یہ دوسرا کام نہیں ہو سکتا۔
یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ بیانیہ کسی استدلال پر کھڑا ہوتا ہے۔ اس استدلال کو غلط ثابت کیے بغیر ، اس کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ یہ دلیل اور مکالمے کا میدان ہے۔ یہ کام تعلیم اور تربیت سے متعلق ہے۔ جب ہزاروں یا لاکھوں افراد کسی موقف کو درست سمجھ رہے ہوں تو اسے بزور ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ہزاروں افراد کا قتل نہ ممکن ہے نہ اس کی اجازت ہونی چاہیے۔اس لیے لازم ہے کہ اس جنگ کو دلیل اور استدلال کے میدان میں لڑا جائے۔ جو لوگ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں اور شہریوں کا قتل عام کرتے ہیں، ان کے لیے تو لازم ہے کہ ریاستی قوت استعمال میں لائی جائے۔ رہے ان کے نظری اور فکری معاون اور ان کے ہمدرد تو انہیں دلیل کے ساتھ قائل کرنا چاہیے۔ انہیں سمجھانا چاہیے ۔ یہاں تک کہ یہ بیانیہ دلیل کے میدان میں شکست کھا جائے۔
رسالت مآبﷺ نے جب شرک کے سرداروں کا خاتمہ کر دیا اور اس بیانیے کو استدلال کی میدان میں شکست دے دی تو پھر عام معافی کا اعلان ہو گیا۔ ریاست انتقام نہیں، اصلاح کی نفسیات میں آگے بڑھتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جہاں ریاست اسلحہ برداروں کے خلاف اقدام کر رہی ہے، وہاں اس بیانیے کو بھی مخاطب بنائے۔ علماء کو اس بحث کا حصہ بنایا جائے۔میڈیا کو اس جانب متوجہ کیا جائے۔ اگر اس پہلو کو نظر انداز کیا گیا تو طاقت کا استعمال صرف انتقام کو جنم دے گا۔ لال مسجد کے حادثے کو پھر یاد کر لیجیے!
مذہبی طبقات ، بصد افسوس ابھی تک گروہی نفسیات سے نہیں نکل سکے۔ ایک گروہ اصرار کر رہا ہے کہ ''دہشت گردوں ‘‘کو نیست و نابود کر دیا جائے۔ یہ اصرار اس لیے ہے کہ ان کا فی الجملہ تعلق دوسرے مسلک سے ہے۔ دوسرا اس لیے لیت و لعل سے کام لے رہا ہے کہ '' عسکریت پسند ‘‘ اس کے حلقے کے ہیں۔ اس لیے سماج اب ان طبقات پر زیادہ انحصار نہیں کر سکتا۔ لازم ہے کہ یہ بیانیہ کہیںاور سے اٹھے اور یہ فورم ریاست ہی ہو سکتا ہے۔ ان طبقات کو البتہ مکالمے میں شریک کرنا چاہیے اور ان پر سماجی دباؤ بڑھنا چاہیے تاکہ وہ اپنی رائے پہ نظرثانی کے لیے آمادہ ہوں یا سماج انہیں مسترد کر دے۔
یہ حکمت عملی اس وقت اختیار کی جا سکتی جب ہم پر واضح ہو کہ اس وقت ملک میں دو بیانیے موجود ہیں۔ جب کوئی گروہ یا نقطہ نظر عوامی عصبیت رکھتا ہو تو اسے صرف ریاستی قوت سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔اتفاق رائے آج محض ایک خواہش ہے، واقعہ نہیں۔