کیا ہما را معاملہ دنیا سے نرالاہے؟
برسوں پہلے، انتظار حسین نے قیامِ پاکستان کو دنیا کا ایک منفرد واقعہ قرار دیا تھا۔ان کے بقول دنیا بھر میں ایک ملک ہو تا ہے اور پھر اس کی بنیاد پر قوم بنتی ہے۔پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ قوم پہلے وجود میں آئی اور ملک بعد میں۔تاریخ کی اس تعبیر کے بارے میں دو آرا ہوسکتی ہیں لیکن ہمارے رویے کے بارے میں یہ بات آج بھی سچ ہے ۔دنیا میں پہلے ایک بیانیہ (Narrative) وجود میں آتا ہے اور پھر اس کی روشنی میں حکمت عملی(Policy) بنتی ہے۔یہاں حکمت عملی بن چلی مگر بیانیہ کہیں نہیں ہے۔تو کیا وہ اب وجود میں آئے گا؟
انتظار حسین کی تعبیر اپنی جگہ مگر میں ایک دوسری بات کہہ رہا ہوں۔پاکستان ایک بیانیے کا نتیجہ ہے۔یہ دو قومی نظریہ ہے۔ پہلے یہ بیانیہ وجود میں آیا اور پھرپاکستان۔اس بیانیے نے متحدہ ہندوستان کے پس منظر میں ظہور کیا۔یہ اصلاً اقلیتوں کے حقوق کا معاملہ تھا۔ایسی اقلیت جس کا اصرار تھا کہ وہ ایک تہذیبی شناخت بھی رکھتی ہے۔پاکستان بن گیا تو ہمارا تناظر بھی تبدیل ہو گیا۔یہ متحدہ ہندوستان کا نہیں،پاکستان کا تناظر تھا۔ایک خود مختار ملک جہاں اکثریت کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ اسے ایک آزاد ملک کے طور پر کیسے آگے بڑھنا ہے۔دوسرے الفاظ میں ہمیں ایک نئے بیانیے کی ضرورت تھی۔مسلم لیگ کی قیادت اس آزمائش پر پورا نہیں اتری۔اس کے پاس ایک آزاد مسلم اکثریتی ملک کے لیے کوئی بیانیہ مو جود نہیں تھا۔اس خلا کو جماعت اسلامی نے پُر کیا۔1948ء میں اس نے ایک بیانیہ مرتب کیا جسے اس نے 'مطالبہ دستورِ اسلامی‘ کا نام دیا۔فکری طور پرتوانا اور عملی طور پرمتحرک ایک اقلیتی گروہ نے اس بیانیے کے حق میں ایک منظم مہم چلا ئی۔مسلم لیگ کی کمزوری جماعت اسلامی کی قوت بن گئی اور لیگی حکومت نے اس بیانیے کو ریاستی بیانیے کے طور پر قبول کر لیا۔
جماعت اسلامی کی تنظیم اور فکری قوت نے اس بیانیے کے خدوخال واضح کیے۔ اس میں تاریخ اور تحریکِ پاکستان کی ایک نئی تعبیر سامنے آئی۔آج جماعت کے زیر ِ اثر پیدا ہونے والے لٹریچر کو پڑھیے تو معلوم ہو تا ہے کہ قائد اعظم اصلاً جماعت اسلامی ہی کے رکن تھے۔اسی طرح علامہ اقبال اور مو لا نا مو دودی میں کوئی بڑا فکری اختلاف نہیں ہے۔یہی تعبیر اب مستعمل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ جماعت اسلامی کی قیادت نے کوشش کی کہ دوسرے مذہبی بیانیوں کو بھی جماعت اسلامی کے اس بیانیے کا حصہ بنا دیا جائے۔ محترم قاضی حسین احمدتو اس معاملے میں اتنے فراخ دل تھے کہ مو لانا مو دودی کی ان تحریروں سے بطور جماعت دستبرداری پر آ مادہ تھے جن پر دیوبندی اور روایتی علما کو اعتراضات تھے۔ سراج الحق صاحب نے تمام نقاب اٹھا دیے۔ان کا فرمان ہے کہ وہ مو لا نا مودودی کے ساتھ مو لا نا حسین احمد مدنی کے بھی وارث ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ جنرل ضیاالحق مر حوم بھی اسے بیانیے کے قائل تھے۔ ''سٹریٹیجک ڈیپتھ‘‘ اس بیانیے کی سیاسی و عسکری تشکیل ہے۔آج اس ملک کا نظامِ تعلیم بھی اسی بیانیے پر کھڑا ہے۔تاریخی حوالے سے دینی مدارس کا بیانیہ یہ نہیں تھا۔1979ء کے بعد وہ بھی اب اسی بیانیے سے ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔دلچسپ بات یہ کہ مو لا نا حسین احمد مدنی کے پیروکار آج فکرِ اقبال کی روشنی میں ریاست کی تشکیل چاہتے ہیں۔یہ تحقیق کا الگ مو ضوع ہے کہ سیاسی اسلام(Political Islam) کا بیانیہ،ہمارے ہاں کیسے عسکری اسلام(Militant Islam) کے بیانیے میں تبدیل ہو گیا۔
ایک اور بیانیہ بھی یہاں ہے جسے ہم لبرل یا سیکولر کہہ سکتے ہیں۔اس نے ترقی پسند تحریک، پیپلزپارٹی اور اب سیکولر سول سوسائٹی کی صورت میں ظہور کیا۔اسے عوامی سطح پر کبھی پزیرائی نہ مل سکی۔پیپلزپارٹی کو اگر مقبولیت ملی تو اس کی وجہ عوامی مسائل کے حل پر اس کا اصرار تھا۔بھٹو صاحب کا دورِ اقتدار اس کا گواہ تھاکہ اس نظری بیانیے سے ان کا کوئی عملی تعلق نہیں تھا۔حکومتی سطح پر وہ اسی بیانیے کے پابند رہے جس کا تعین 1949ء میں کر دیاگیا تھا۔یہ بیانیہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ ریاست کسی گروہ کی مذہبی شناخت کا فیصلہ کرے لیکن بھٹو صاحب کے دور میں یہ ہوا اور وہ اس کا کریڈٹ بھی لیتے تھے۔یوں یہ بیانیہ بالفعل مو جود نہیں رہا۔
پاکستان کوآج ایک نئے بیانیے کی ضرورت ہے۔یہ بیانیہ وہی ہے جس کا تاریخی پس منظر علامہ اقبال اور قائد اعظم کے افکار میں تلاش کر نا چاہیے اورجسے مو جود اجتماعی دانش کی روشنی میں آگے بڑھا نا چا ہیے۔اس بیانیے کے میرے نزدیک تین بنیادی نکات ہیں۔ایک یہ کہ ریاست، اسلامی ہو یا سیکولر،اس کا بنیادی وظیفہ عوام کی فلاح و بہبود ہے۔لازم ہے کہ ریاست کے تمام اداروں کی تشکیل میں،اس نکتے کی اہمیت بنیادی ہو۔دوسرا یہ کہ ہمیں ریاست کا ایک جدید ماڈل تشکیل دینا ہے جومسلم اکثریتی آبادی کی ترجمانی کرتے ہوئے، جدید ریاست کے مطالبات پورا کر نے کی صلاحیت رکھتا ہو۔اس کی بنیادیں اقبال نے فراہم کر دی ہیں اور معاصر ترکی، ملائشیا اور تونس جیسے ممالک میں،ان دو باتوں کو جمع کر نے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ اس میںلازم ہے کہ موجود عمومی تعلیم اور دینی تعلیم و تربیت کا نظام تشکیلِ نو کے مرحلے سے گزرے۔ سماجی ادارے نئے سرے سے وجود میں آئیں۔ تیسرا یہ کہ پاکستان کو ایک جمہوری معاشرہ بنایا جائے۔جمہوریت محض
ووٹ دینے کا نام نہیں، ایک ایسی قدر کا نام ہے جہاں اختلافِ رائے کو گوارا کیا جاتا ہے اور استدلال کو پنپنے کا موقع دیا جا تا ہے۔
اس وقت حکومت نے پالیسی ترتیب دی ہے، اس کا بیانیہ مرتب نہیںکیا۔ جب بیانیہ سامنے ہوتا ہے تو یہ معلوم کر نا آ سان ہو تا ہے کہ کس شعبے میں کیا تبدیلی ضروری ہے۔یہ کام حکمتِ عملی سے مختلف ہے۔ اس کے لیے ایک فکری مشق کی ضرورت ہے۔اس کی روشنی میں اداروں کے کام متعین ہو ں گے۔یہ ادارے سماجی ہیں اور ریاستی بھی۔مو لانا فضل الرحمٰن صاحب کی گفتگو سے واضح ہو رہا ہے کہ وہ ابھی گروہی مفادات کے تناظر میں سوچ رہے ہیں۔انہیں مدرسوں کی فکر ہے۔لبرل طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ کسی طرح مو لانا عبدالعزیز گرفتار ہو جائیں۔اگر ہم ان دونوں گروہوں سے پو چھیں تو دونوں کا کہنا یہی ہے کہ وہ ملک سے دہشت گردی کو ختم کر نا چاہتے ہیں۔جب کوئی قومی بیانیہ سامنے نہ ہو تو سماج اسی فکری پراگندگی کی نذر ہو جا تا ہے۔پاکستان کا بڑا مسئلہ یہی نظری انتشار ہے۔
پاکستان میں فکری یک سوئی کی شدید ضرورت ہے۔ مو جود ہ حالات سے سب تنگ ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ ان سے کیسے نکلا جا ئے۔جو تبدیلی کی بات کر تا ہے، وہ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں، یہ دیکھے بغیر کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔ یوں عوام جذباتی استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔آج قوم کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ایک طویل سفر ہمیں طے کر نا ہے۔تاہم اگر منزل کا تعین کر لیا جائے تو کامیابی یقینی ہے، چاہے دیر سے ہی کیوں نہ ہو۔قومی بیانیہ اسی یک سوئی کا سبب بنے گا۔