فطرت سے ہم آہنگی ہی میں سلامتی ہے۔فطری مطالبات کے سامنے بند باندھا جا سکتا ہے نہ انہیں بے مہار چھوڑا جا سکتا ہے۔الہام اور عقل دونوں کا فیصلہ یہی ہے۔
مذہب انسان کا فطرتی مطالبہ ہے۔مذہبی تعلیم و تربیت اسی مطالبے کا جواب ہیں۔اس کی ضرورت سے انکارممکن نہیں۔بایں ہمہ اسے ضوابط سے آزاد بھی نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان بننے کے بعد لازم تھا کہ ریاست سماج کے اس فطرتی مطالبے کے لیے کوئی ضابطہ بناتی۔جب ایسانہیں ہوا تو سماج نے اپنے تئیں اس فطرتی مطالبے کا جواب تلاش کیا۔اس نے ان دینی مدارس کو مرنے نہیں دیا جو قیامِ پاکستان سے پہلے اسی فطرتی ضرورت کے تحت وجود میں آئے تھے۔ریاستِ پاکستان نے نہ صرف اپنے کردارسے صرفِ نظر کیا بلکہ 1979ء میں ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ان کے کردار کی تشکیلِ نو کی۔دینی مدارس اصلاً اس کام کے لیے بنے نہیں تھے، ریاست نے انہیں جس کام پر لگا دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا ایک نیا کردار سامنے آیا۔بعد از خرابیٔ بسیار ریاست کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔اب وہ چاہتی ہے کہ مدارس اپنے اصل کردار کی طرف لوٹ جائیں۔ وہ مگرنہیں جانتی کہ یہ کیسے ہوگا۔مدارس کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ واپسی کے اس سفرمیں کہیں ان کا وجود تحلیل ہی نہ ہو جائے۔ یوں بقا کے فطرتی داعیے کے تحت وہ مزاحمت پر آ مادہ ہیں۔ایک غلطی دوسری کو جنم دے رہی ہے۔قومی اتحاد کا تاثر اب خطرات میں گھر چکا ہے۔
اس ملک کی 97فی صد آ بادی مسلمان ہے۔جہاں اس کی مادی ضروریات ہیں، وہاں روحانی بھی ہیں۔ریاست کا کام یہ ہے کہ وہ ان دونوں ضروریات کا خیال رکھے۔اس کا ادراک ایک سیکولر ریاست کو بھی ہوتا ہے۔ ریاست اسلامی ہو یا سیکولر، اس کا اصل
وظیفہ عوامی ضروریات کی تکمیل ہے۔پاکستان کو جہاں سائنس دانوں، انجینئرز،دیگر مادی علوم کے ماہرین کی حاجت تھی وہاں علمائے دین کی بھی ضرورت تھی۔ریاست نے جہاں جہاں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی، وہاں قانونِ فطرت کے تحت ایک متبادل وجود میں آگیا۔عمومی تعلیم، مثال کے طور پر ریاست کی ذمہ داری تھی۔ ریاست جب بڑھتی آبادی کی یہ ضرورت پوری نہ کر سکی تو نجی تعلیمی ادارے وجود میں آئے۔یہی معاملہ دوسرے شعبوں میں بھی رہا۔ تاہم ان امور میں ریاست نے ایک اور طرح سے اپنی ذمہ داری ادا کی۔ اس نے یہ خیال رکھا کہ نجی شعبہ عوامی مفادات سے ہم آہنگ رہے۔اگر ایک سکول قائم ہونا ہے تو اس کے لیے قواعدو ضوابط بنا دیے۔ایک کارخانہ لگنا ہے تو اس کے لیے نگرانی کا ایک نظام وضع کر دیا۔دینی تعلیم کے معاملے میں اس ذمہ داری کو جب ادانہیں کیا گیا تو جس کاجہاں دل چاہا، اس نے مدرسہ قائم کر دیا۔ جس کے جی میں آیا، مسجد کھڑی کر دی۔ریاست اس بات کو نہیں سمجھ سکی کہ جس طرح انسانوں کے جسمانی معاملات کو عطائیوں کے حوالے کر دیا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ بیماریوں کا پھیلنا ہے،اسی طرح جب دین کو نااہل لوگوں کے حوالے کر دیا جائے تو سماج کا روحانی اور نفسیاتی وجود برباد ہو جاتا ہے۔ ہمارے ساتھ یہ حا دثہ ہو گیا۔یہ معاشرہ نفسیاتی مریض بن گیا اور اس کی سب سے بڑی وجہ مذہب کا سوئے استعمال ہے۔اگر یہ معاملہ عطائیوں کے بجائے، دین کے جید علما کے ہاتھ میں رہتا تو آج مذہب سماج میں خیر کی علامت ہو تا۔
ریاست اس مسئلے کو سادہ طریقے سے حل کر سکتی تھی۔ملک میں بنیادی بارہ سالہ تعلیم کا ایک نظام ہوتا۔ اس کے بعدخصوصی تعلیم سے جس طرح ڈاکٹر اور انجینئر بنتے ہیں، اسی طرح پانچ سالہ دینی علوم کی تحصیل سے علما تیار ہوتے۔ جس طرح ڈاکٹر اور دوسرے ماہرین سماج کی مادی ضروریات کو پورا کرتے ہیں،اسی طرح علمادینی ضروریات کو پورا کرتے۔یوں سماج میں طبقات وجود میں آتے نہ گروہی تقسیم ہوتی۔جب اس سادہ طریقے سے صرفِ نظر کیا گیا تو مسائل نے جنم لیا‘ جو اب لا ینحل ہو چکے۔
جب ادراک ہوا تو معاملہ سرکاری افسروں کے حوالے کر دیا گیا۔وہ سماجی حرکیات سے واقف ہیں نہ دینی علوم سے۔یوں ان کے تجویز کردہ حل مسائل کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔جیسے یہ تجویز کیا گیا ہے کہ دینی مدارس میں کمپیوٹرکی تعلیم دی جائے یا انگریزی پڑھائی جائے۔کمپیوٹر یا زبان تو آلات ہیں۔ان کے علم سے مدرسے کا کردار کیسے بدلے گا‘ اگر اس کی سوچ کا زاویہ تبدیل نہیں ہوتا۔یوں ہر حکومتی اقدام'مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ کا مصداق بن گیا۔مو جودہ حکومت بھی اسی کشمکش کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔
سادہ حل کاموقع اب ہاتھ سے نکل چکا۔دینی تعلیم اور ضروریات کوریاستی نگرانی سے آزاد کرنے کے نتیجے میںاربوں روپے کی 'مذہب کی معیشت‘ وجود میں آچکی۔یہ معیشت کیا ہیِ ،اس کو میں ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔مجھے ایک باخبر دوست نے بتا یا کہ کراچی میں مدارس ٹھیکے پر دیے جا تے ہیں۔ایک ٹھیکہ لاکھوں روپے کا ہوتا ہے۔جہاں معاملہ معاشی ہو جائے وہاں مفاداتی گروہ(interest groups) وجود میں آتے ہیں۔جب حکومت اس معیشت کو ختم کر نا چاہتی ہے تو یہ گروہ اپنی بقا کی جنگ لڑتے اور مزاحمت کرتے ہیں۔آج مدارس کے معاملے میں یہی ہو رہاہے۔ان حالات میں،میںاصلاحِ احوال کے لیے چنداقدامات تجویز کرتا ہوں۔
1۔حکومت مو جود دینی مدارس کے نصاب، ماحول، امتحانات کے بارے میں ایک قانون بنائے اور اس پرسختی سے عمل کرایا جائے۔اس قانون سازی کے لیے دینی اداروں کے ذمہ داران سے مشاورت کی جائے۔ مشاورت سے مراد ہدایات لینا نہیں ہے بلکہ ان کے جائز خدشات کو مخاطب بناناہے۔یہ قانون سازی حکومت کااخلاقی اور قانونی استحقاق ہے۔
2۔ مدارس کے فارغ التحصیل لوگوں کے لیے خصوصی تربیتی کورسز کا اہتما م کیا جائے تا کہ وہ سماج میں اجنبی نہ رہیں۔
3۔نئے دینی مدرسے کے قیام کے لیے الگ سے ضابطہ بنا یا جائے۔اس کی بنیاد اس تصور پر ہو کہ بالآخر قوم کو یکساں بنیادی تعلیم کی طرف لے جا نا ہے۔جب ریاست یکساں نظام ِتعلیم قائم کر دے تو نئے مدرسے کے قیام پر پابندی لگادی جائے۔اعلیٰ دینی تعلیم کے ادارے البتہ قائم کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ تاہم اس کے لیے ایسے قوانین بنا دیے جائیں جیسے ایک نئی یونیورسٹی کے چارٹر کے لیے ضروری ہیں۔
4۔ جدید تعلیم کے اداروں کو بھی سختی سے قانون کا پابند بنا یا جائے تاکہ یہ تاثر قائم نہ ہو کہ حکومت مدارس کے بارے میں کسی تعصب کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
5۔ مدارس کے اساتذہ اور مسجد کے خطبا کے لیے ایک تعلیمی معیار مقرر کیا جائے۔اس کے ساتھ ان کے مشاہرے کا بھی تعین کیا جائے۔جو مدرسہ اپنے اساتذہ کو اس معیار سے کم تنخواہ دے اس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔ اسی طرح مساجد کے بارے میں یہ طے کیا جائے کہ ان کا انتظام کس کے پاس ہوگا اور امام وخطیب کو کس طرح تنخواہ ملے گی۔
6۔ یہ طے کیا جائے کہ مدارس کا معاملہ کس وزارت کی ذمہ داری ہے۔ اصولاً تو اسے وزارتِ تعلیم کے حوالے کیا جا نا چاہیے۔
اصل مسئلہ ریاست کا ذمہ داراور انتظامیہ کا فعال ہو نا ہے۔ اسلام آباد جیسے شہر میںغیر قانونی طور پر، سرکاری جگہ پہ مسجد تعمیر ہو جاتی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ کام ایک دن میں نہیں ہوتا۔اس سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے یہاں تک کہ مسجد کی تعمیرمکمل ہو جا تی ہے۔ اگر اب بھی اس تساہل اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ہوا توحکومت کونوشتہ دیوار ابھی پڑھ لینا چاہیے۔
( مدارس کے مو جودہ نظام کے دفاع میںمو لا نا فضل الرحمن کامتحرک ہوناقابلِ فہم ہے،جماعت اسلامی مگر کیوں ہمیشہ ان کی باراتی بن جاتی ہے، یہ میری سمجھ میں کبھی نہیں آ سکا۔ 'بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘ کا محاورہ شاید کسی ایسے موقع ہی پر بولا جاتا ہے۔)