پوپ فرانسس کے بیان کا خیر مقدم کرنا چاہیے کہ انہوں نے بروقت اپنی ذمہ داری پوری کی۔ وہ روایتی کلیسا کے کردار میں اصلاحات کے علمبردار ہیں۔ ایک نیا میدان اب ان کا منتظر ہے۔ یہ بین المذاہب ہم آہنگی کا میدان ہے۔
مغربی تہذیب اپنے پس منظر میں یہودی مسیحی روایت سے وابستہ ہے۔ مسیحیت آج دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ یہودیوں اور مسیحیوں کے خیالات میں زمین آسمان کا فرق ہونے کے باوجود، یہ بنی اسرائیل کی روایت ہے، سیدنا مسیح ؑ جس کے آخری رسول ہیں۔ مسیحیت چونکہ اس ساری روایت کو قبول کرتی ہے، اس لیے یہ یہودی مسیحی تہذیب (Judeo-Christian Civilization) کہلاتی ہے۔ پانچ صدیاں پہلے اہل کلیسا نے جو سیاسی و سماجی کردار ادا کیا، اس نے مسیحی مذہب کے خلاف ایک رد عمل کو جنم دیا۔ رد عمل فکر و نظر کی کئی تحریکوں میں ڈھلا اور بالآخر مغرب نے اقدار کے ایک نظام پر فی الجملہ اتفاق کر لیا۔ اس نظام اقدار نے مذہب کے کردار کو عبادت گاہ اور فرد تک محدود کر دیا۔ مذہب کا سماجی و سیاسی کردار ختم ہوا لیکن اس کے ساتھ تقدس وابستہ رہا۔
فکر و نظر کا معاملہ جب الہامی روایت سے بے نیاز ہو کر آگے بڑھا تو لبرل ازم کے نئے مظاہر سامنے آئے۔ پس جدیدیت (Post Modernism) بھی اسی کا مظہر ہے۔ اب ہر خیال اور ہر نظریہ بے وقعت ٹھہرا۔ خیال ہوں یا حکمت عملی، اب افادیت کے حوالے سے پرکھا جانے لگا۔ یہ بات کہ کوئی الہام ہوتا ہے اور یہ کہ اس کا کوئی تقدس ہے، ایک ناقابل قبول تصور بن گیا ہے۔ اب کسی نظریے کی تائید میں مذہب سے کوئی دلیل نہیں لائی جا سکتی۔ یوں مذہب فرد کے لیے بھی بے معنی ہو گیا۔ جو مذہب اس سے، سب سے زیادہ متاثر ہوا، وہ مسیحیت تھا۔ نظریہ تخلیق ( Theory of Creation) سے لے کر نکاح کے ادارے تک، سماج نے ہر اس تصور کو عملاً مسترد کر دیا، مسیحیت بطور مذہب جس کا علم بردار تھا۔ اب لبرل اقدار محترم اور مقدس ہو گئیں۔
ماضی میں جب سپین وغیرہ میں مسلمانوں کی ریاست وجود میں آئی تو اس وقت بھی مسیحیت کو ایک چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اسلام کا چیلنج تھا۔ اپنے عہد کا روشن خیال مذہب، جس کے ماننے والوں کے پاس سیاسی اقتدار بھی تھا۔ اس صورت حال میں اہل کلیسا نے اپنے وجود کی بقا کے لیے مذہبی بنیادوں پر ایک معرکہ لڑنا چاہا۔ اس کے مذہبی لوگوں نے اسلامی شعائر اور شخصیات کی توہین کو وظیفہ بنا لیا ہے۔ یہ دراصل خود کش حملہ تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کے نتیجے میں وہ موت کے مستحق ٹھہریں گے۔ اس میں اگرچہ انہیں کامیابی نہیں ہوئی لیکن مزاحمت کا ایک عمل شروع ہوا‘ جسے مسلمانوں کے سیاسی زوال نے مہمیز دے دی۔ یہ جنگ مسلمانوں کی سیاسی و تہذیبی غلامی پر منتج ہوئی۔ یہ اس کشمکش کا پہلا دور تھا۔
دوسرا دور جسے میں لبرل ازم کا عہد کہتا ہوں، اب جاری ہے۔ اسلام بطور خاص اس کا ہدف نہیں، بلکہ یہ مذہبی و الہامی روایت ہے جو لبرل ازم کے لیے قابل قبول نہیں۔ یہ لبرل ازم سیدنا مسیحؑ کے تقدس کا بھی قائل نہیں۔ اگر یہ مقدمہ درست ہے تو لازم ہے کہ اس رجحان کے خلاف وہ لوگ مجتمع ہوں جو الہامی روایت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے رسالت مآبﷺ کے خاکے ایک خاص فرد کے خلاف نہیں، اس الہامی روایت کے خلاف ہیں، آپ جس کی مستند ترین اور روشن ترین نمائندہ شخصیت ہیں۔ سیدنا مسیح کے روایت کردہ مذہب کی تاریخی حیثیت، خود اہل مغرب میں مختلف فیہ ہے۔ اس کے برخلاف، کوئی اسلام کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو، وہ اس بات سے بہرحال اختلاف نہیں کر سکتا کہ رسالت مآبﷺ تاریخ کی ایک مسلمہ شخصیت ہیں اور انہوں نے جو دین پیش کیا اس کی سند میں کوئی اشکال ہے نہ ثبوت میں۔
رسالت مآبﷺ کے تقدس کا دفاع دراصل الہامی روایت کے تقدس کا دفاع ہے۔ یہ بات ہر اس آدمی کو سمجھنی چاہیے جو مذہب کی روایت پر یقین رکھتا ہے۔ پوپ فرانسس اگر اس کے لیے آواز اٹھائیں گے تو وہ دراصل اپنی روایت ہی کا دفاع کریں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ انہیں اس بات کا احساس ہوا ہے۔ پیرس کے حادثے پر ان کا ابتدائی رد عمل ناکافی تھا۔ اب انہوں نے جو کچھ کہا، وہ بہت واضح ہے۔ انہوں نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ مذہبی شخصیات کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے اور پھر یہ کہ ''اگر کوئی میری ماں کو گالی دے گا تو اسے میرے گھونسے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘‘۔ میرا احساس ہے کہ یہ بیان مسیحیت اور اسلام کے مابین مکالمے کی ایک بنیاد بن سکتا ہے۔ اس میں یہودیوں اور دوسرے مذاہب کے افراد کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یقیناً ان لوگوں کو شکست ہو گی جو مسلمانوں کو مشتعل کر کے، اسلام کو ایک پُرتشدد مذہب ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
اگر یہ مقدمہ درست ہے تو آج مسلمانوں کو کسی صلاح الدین ایوبی کی نہیں، اہل فکر و نظر کی ضرورت ہے۔ وہ صاحبان فکر جو قرآن مجید اور رسالت مآبﷺ کی سنت کو بنیاد بنا کر، عالم مسیحیت کے ساتھ مکالمہ کریں۔ اس سے یہ تاثر بھی ختم ہو گا کہ دنیا میں کوئی نئی صلیبی جنگ شروع ہو رہی ہے۔ صدر بش کے ایک احمقانہ بیان پر اربوں افراد کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ مسلمانوں کو ان دانشوروں سے بھی محتاط رہنا ہو گا جو ہر واقعے سے ایک مذہبی جنگ برآمد کرنا چاہتے ہیں اور غیر مصدقہ روایات سے جنگ کو مذہبی جواز فراہم کرتے اور دنیا کو انتشار میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔
مذاہب کے مابین مکالمے کا مطلب مناظرہ ہے نہ دوسرے مذہب کا خاتمہ۔ یہ پُرامن بقائے باہمی کا واحد راستہ ہے۔ انسانوں کے مابین اختلاف رائے، الٰہی سکیم کے مطابق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک سے زیادہ مواقع پر یہ بتایا ہے کہ اگر اﷲ چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک امت بنا سکتا تھا۔ اس نے دانستہ ایسا نہیں کیا۔ اﷲ کے قانون آزمائش کا ناگزیر تقاضا تھا کہ لوگوں کو اختلاف کا حق دیا جاتا۔ جب تک یہ حق باقی ہے، اس کے مظاہر بھی سامنے آتے رہیں گے۔ ہم لوگوں کو دعوت دے سکتے ہیں، ہدایت نہیں۔ جس مذہبی آزادی کا حق عالم کے پروردگار نے انسانوں کو دیا ہے، ہم ان سے چھین نہیں سکتے۔ ہمیں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ علمی سطح پر مذاہب کے مابین اختلاف ایک مختلف بات ہے۔ اہل علم کے مابین یہ مباحث جاری رہتے ہیں۔ مذاہب کی صداقت اور تاریخی مواد کی چھان بین بھی ایک علمی سرگرمی ہے جو ہر دور میں جاری رہتی ہے۔ اس کا توہین سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمیں اس سارے عمل کو بھی سمجھنا ہو گا اور ہر بات کا درست محل واضح کرنا ہو گا۔
میرا پختہ یقین ہے کہ مکالمے کا فائدہ مسلمانوں کو پہنچے گا۔ رسالت مآبﷺ کی شخصیت ایسی اجلی‘ دل آویز اور مسحور کن ہے کہ سبحان اﷲ! فطرت سلیم ہو تو ممکن نہیں کہ دل اعترافِ عظمت کے ساتھ جھک نہ جائیں۔ یہی معاملہ اسلام کا بھی ہے۔ رہی بات ہدایت کی تو یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔ اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت کرے گا۔ ہم تو بات کہنے کے مکلف ہیں۔ مکالمہ پُرامن فضا ہی میں ممکن ہے‘ اس لیے ہمیں جہاں قتل و غارت گری کی مخالفت کرنی ہے‘ وہاں اہل مذہب کو باور کرانا ہے کہ وہ رسالت مآبﷺ کے دفاع کے لیے مجتمع ہوں۔ ان کا دفاع دراصل الہامی روایت کا دفاع ہے۔