آپ کتابیں نذرِ آتش کرنے چلے ہیں لیکن ذرا توقف فرمائیے!
یہ فیصلہ آ پ نے کس بنیاد پر کیا کہ فلاں کتاب جلا نے کے لائق ہے اور فلاں نہیں؟وزارتِ داخلہ نے اگر کوئی فہرست مرتب کی ہے تو کس اصول پر؟آپ کو معلوم ہے کہ ان کتابوں میں استدلال تو قرآن مجید کی آیات اور رسالت مآب ﷺ سے منسوب روایات سے کیا گیا ہے۔آپ پہلے ان صفحات کو الگ کریں گے یا ان کے ساتھ جلا ڈالیں گے؟ کیا اس پر توہین کا اطلاق نہیں ہو گا؟کیا آپ جا نتے ہیں کہ اس ملک میں کن بنیادوں پر کتابوں پر پابندی لگائی جاتی رہی ہے؟کیا آپ علمی تنقید اورتنقیص کے فرق سے واقف ہیں؟کیا آپ کو یقین ہے کہ یہاں کے مسلمانوں میں توحید، رسالت اور صحابہ کے باب میں ایک رائے پائی جا تی ہے؟ اگر آپ کے پاس ان سوالات کے شافی جواب ہیں تو بسم اللہ کیجیے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر ٹھہر جائیے اور کچھ غور کر لیجیے!
23جنوری کو مذہبی جماعتوں نے رسالت مآب ﷺ کے ساتھ اظہارِ محبت کیا۔جماعت اسلامی سے لے کر شیرانِ اسلام تک، ان گنت جماعتوں کے کارکن نکلے مگر کسی ایک جھنڈے تلے نہیں۔ہر ایک کا اپنا جھنڈا،اپنی قیادت اوراپنا جلوس۔جب محبت کا محور ایک اور مذمت کا ہدف بھی ایک تو پھراحتجاج ایک کیوں نہیں؟فرض کیجیے، کچھ دیر کے لیے، مصنوعی طور پر ایسا ہو بھی جائے تو پھر ایک دوسرے کے بارے میں ان شدید خیالات کا کیا بنے گا جو ان سب کے اکابر لکھ کر بیان کر چکے؟کیا وہ سب کتابیں بھی نذرِ آتش ہو ںگی؟آگ لگانے کا یہ کا م کہاں سے شروع ہوگا؟حرفِ مطبوعہ کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔فرقہ وارانہ کشمکش میں بہت سے حوالے ماضی سے لائے جاتے ہیں۔ کیا ان پر بھی پابندی ہوگی؟میرے ممدوح امین الحسنات صاحب کا کہنا ہے کہ ایسے معیارات بنائے جارہے ہیں کہ ہمارا کلاسیکی لٹریچر محفوظ رہ جائے۔گویا ماضی میں کوئی بات روایت ہوئی تو اسے گوارا کیا جائے گا لیکن اسے نقل کرنا ممنوع ہوگا۔کیا اس طرح کی پابندیاں نتیجہ خیز ہو سکیں گی؟
میرا خیال ہے کہ ریاست اور حکومت اس وقت ردِ عمل کی نفسیات میں ہیں۔یہی نہیں،جن لوگوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے، وہ اس معاملے کی نزاکت سے بھی واقف نہیں۔ایک بیوروکریٹ انتظامی امور میں طاق ہو سکتا ہے لیکن اسے کیا معلوم کہ کس کتاب پر پابندی لگنی چاہیے اور کیوں؟حکومتی حکمتِ عملی میں سقم ہی یہی ہے کہ ان لوگوں کو ایک کام سونپ دیا جاتا ہے،جس کے وہ اہل نہیں ہوتے۔پٹرول، بجلی، پانی اور دینی کتب پر پابندی، ہر معاملے میں خرابی کا بنیادی سبب یہی ہے۔اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے:امانتیں ان ہاتھوں کو سپرد کرو جو اہلیت رکھتے ہیں۔جب ہم ایسا نہیں کرتے تو وہی ہو تا ہے جو ہو رہا ہے۔
جن کتب پر پابندی کی بات ہو رہی ہے،ان میں زیادہ تر وہ ہیں جن کی ا ساس فرقہ واریت پر ہے۔یہ فرقہ واریت کیاہے اور مسلمانوں میں کیسے آئی؟ علمی اختلاف اور فرقہ واریت میں کیا فرق ہے؟ان سوالات پر سنجیدہ غور کے لیے کوئی تیار نہیں۔عام آدمی سے کیا گلہ کیجیے کہ خواص کو بھی ادراک نہیں۔چند دن پہلے اسلامی یونیورسٹی کی ایک کانفرنس میں ، میں نے جب اس موضوع پر کلام کیا تو ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔معلوم ہوا کہ یہ بات توعلمائے دین کی مجلس میں بھی ابھی قابلِ فہم نہیں۔ہم تو یہ نکتہ بھی نہیں سمجھ سکے کہ فرقہ واریت کا تعلق فکر ونظر سے نہیں، انسانی رویے سے ہے۔ اس لیے یہ ایک مذہبی نہیں، سماجی مسئلہ ہے۔ہم اسے مذہبی مسئلہ سمجھتے اور یوں علما ہی سے حل مانگتے ہیں۔
کتابوں پر پابندی میرے نزدیک ایک لاحاصل کام ہے۔ ایسی کوششیں ماضی میں بار ہا ہوئیں اور ہمیشہ بے نتیجہ رہیں۔ اس کے چند اسباب ہیں۔
1۔ اس عہد میں ابلاغ کے ایسے ذرائع وجود میں آگئے ہیںجن کے باعث کتابوں تک رسائی کے لیے کسی کتب فروش تک جا نا ضروری نہیں۔رات میں نے کچھ وقت گوگل کے ساتھ گزارا۔ معلوم ہوا کہ شاید ہی کوئی مذہبی کتاب ہے جو میسر نہ ہو۔القاعدہ سے لے کر طالبان تک، سب کا موقف ان کے دلائل کے ساتھ موجود ہے۔کتاب ابلاغ کا ایک ذریعہ ہے۔اگر ایک نقطہ نظر موجود ہے اور اسے ابلاغ کے دوسرے ذرائع میسر ہیں تو ایسی پابندیاں بے معنی ہیں۔
2۔علمی اختلاف اور اس کا بیان کسی مہذب معاشرے میں کبھی ممنوع نہیں رہا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ مسلکی اور گروہی تعصب کے پیش نظر لوگ علمی اختلاف کوبھی فتنے کا سبب بنا دیتے ہیں۔اس سے من پسندنتائج برآمد کرتے اورپھر فتویٰ بازی شروع ہو جاتی ہے۔یہ کام گلی بازار کے مولوی صاحبان کی سطح پر نہیں ہوتا،بر صغیر کے سب سے معتبر علماء کے نام اس فہرست میں شامل ہیں۔ان بزرگوں کے لاکھوں پیروکار ہیں جو ان کی آراء کو دین سمجھتے اورانہیں دل سے لگائے ہوئے ہیں۔ان کے فتاویٰ اور کتب جو دوسرے مسالک کے بارے میں ہیں،آج بھی شائع ہوتے اور پڑھے جاتے ہیں۔ہمارے امین الحسنات صاحب شاید اِسے ہی کلاسیکی ادب کہہ رہے ہیں۔کیا کوئی حکومت ان پر پابندی کی جرات کر سکتی ہے؟اگر یہ ادب مو جود رہے گا تو دوسری کتابوں پر پابندی کے کیا معنی؟
3۔جو روایات بالعموم اختلاف کوفرقہ واریت تک لے جاتی ہیں اور جنہیں فتنہ جُو استعمال کرتے ہیں، وہ ہمارے قدیم مذہبی لٹریچر کا حصہ ہیں۔کیا اس لٹریچرکو بھی دریا برد کر دیا جائے گا؟ ہمارے ہاں تاریخ کی دومختلف تعبیریں رائج ہیں۔ اُن کو دلائل انہی کتابوں سے ملتے ہیں۔ آپ کسی مسلک سے یہ حق چھین نہیں سکتے کہ وہ اپنے موقف کو بیان کرے۔ ظاہر ہے کہ وہ انہی مآخذات کی طرف رجوع کرے گا۔ یوں یہ نقل در نقل ہوتی ہوئی ہمارے مذہبی لٹریچر میں سرایت کر چکی ہیں۔ تو کیاہم اس پر قادر ہیں کہ ان سب کونذرِ آتش کردیں؟
4۔اس وقت توہینِ رسالت کے جو مقدمات ، مسلمانوں نے مسلمانوں کے خلاف درج کرا رکھے ہیں،ان میں سے اکثر کی بنیادمسلکی اختلاف سے ہے۔ان مسالک کا تصورِ رسالت بعض حوالوں سے مختلف ہے۔نور بشر وغیرہ کا اختلاف معلوم ومعروف ہے۔اس اختلاف کو بھی توہینِ رسالت کا مقدمہ بنا دیا جاتا ہے۔یہ الزام شاہ اسماعیل شہید جیسی شخصیت پر بھی ہے۔ان مقدمات میں ان کتابوں کو بنیاد بنا یا جاتا ہے جو مسلکی حوالے سے لکھی گئی ہیں۔یہاں تو ایک عالم پر یہ مقدمہ بھی بن چکا کہ انہوں نے امام بخاری کی توہین کی۔مسلمان اہلِ علم کا یہ رویہ معلوم ہے کہ وہ روایات پر روایت و درایت کے پہلو سے نقد کرتے اور اس کے بعد یہ رائے دیتے ہیں کہ ان کے نزدیک رسالت مآبﷺ سے کسی روایت کی نسبت ثابت ہے یا نہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک عالم ایک روایت سے استدلال کرتا ہے اور دوسرا نہیں۔ اب یہ بھی ہونے لگا ہے کہ ایک عالم اگر کسی روایت کو تحقیق کے بعد قبول نہیں کرتا تو اسے منکرِ حدیث اور پھر یہاں تک کہ توہینِ رسالت کا مرتکب قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا جا تا؟یہ سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے۔ کیا ان مضامین اورکتابوں پر بھی پابندی ہوگی جو ایسے فتنے اٹھاتے اور مسلمانوں کو توہینِ رسالت کا مجرم ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں؟
5۔ بہت کچھ جرائد کے مضامین اوراخباری کالموں میں بھی لکھا اور شائع کیا جارہا ہے۔جیسے داعش کی وکالت یا جمہورت کی تکفیر جو پاکستان کے آئین کی بنیاد ہے۔کیا ا ن کی اشاعت پر بھی پابندی ہوگی؟ کیا اس سے اظہارِ رائے کی آزادی کا مسئلہ نہیں پیدا ہوگا؟
ایسے ان گنت اسباب ہیں جو اس جانب راہنمائی کرتے ہیں کہ اس طرح کی پابندی کا کوئی فائدہ نہیں‘ اس لیے اے اربابِ اقتدار! اگر آپ کتابیں جلانے چلے ہیں تو ذرا توقف فرمائیں! تبدیلی کتابوں پر پابندی یا انہیں نذرِ آتش کرنے سے نہیں، انسانی رویوں کے بدلنے سے آئے گی۔