کیا ہمارا سماج انسانی جان کے بارے میں ویسے ہی حساس ہے، جیسے مذہب،تہذیب اور انسانی فطرت کا تقاضا ہے؟
پہلے مذہب کی بات کرتے ہیں۔مذہب کا کم و بیش ہر رائج الوقت بیانیہ، جان دینے کی خواہش سے شروع ہوتا اورجان لینے کے مطالبے پر ختم ہو تا ہے۔فرق اگر ہے توجان دینے اور لینے کے مقصد میں ہے۔'فلاں مطالبہ پورا نہ ہوا تو ہم خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے‘۔'فلاں مشن کے لیے جان دے دیں گے‘۔فلاں مقصد کے لیے دشمن کو ہماری لاشوں پر سے گزرنا ہوگا‘۔ 'فلاں مطالبے کے لیے ہم سر پر کفن باندھ کر نکلے ہیں‘۔کفن پوش جلوس تو ہم نے حال ہی میں، اپنی آنکھوں سے دیکھے۔یہ اہلِ مذہب کا معروف اسلوبِ کلام ہے۔آد می حیرت سے سوچتا ہے :کیا مذہب کے پاس زندگی کا کوئی بیانیہ نہیں ہے؟ کیا اس عالمِ رنگ و بوکو پرمسرت مقام بنانے کے لیے مذہب کے پاس کوئی منصوبہ نہیں؟کیا سماج میدانِ جنگ ہوتا ہے؟
اسلام کا معاملہ تویہ ہے کہ انسانی جان کے بارے میں،اس کی حساسیت غیر معمولی ہے۔وہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہتا ہے۔ایک انسان کی جان بچانے کو وہ پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف سمجھتا ہے۔اللہ کے آخری رسولؐ نے انسانی جان کو بیت اللہ سے زیادہ محترم قرار دیا۔اسلام عین حالتِ جنگ میں بھی شدت سے منع کر تا ہے کہ کسی غیر محارب کی جان لی جائے۔ اللہ کے رسولﷺ کا اسوہ یہ ہے کہ جنگوں میں بھی،یہ اہتمام فرما یا کہ اسلامی فوج کا جانی ضیاع کم سے کم ہو۔ڈاکٹر حمیداللہ مر حوم نے تمام غزوات کے شہدا کے اعداد و شمار جمع کر دیے ہیں۔اس سے اللہ کے رسول کی جنگی حکمت عملی کی روح معلوم کی جا سکتی ہے۔ میں نہیں جان سکا کہ مذہب کے یہ بیانیے کہاں سے آئے جن میں ہر کوئی سر بکف دکھائی دیتا ہے؟
جب جہاد فی سبیل اللہ کا میدان گرم ہو اورشہادت ِ حق کے لیے جان طلب کی جائے تو اُس وقت،کوئی شبہ نہیں کہ جان دینے سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں ہو سکتی۔یہی نہیں، اُس وقت جان بچانے کی خواہش ایمان سے محرومی کی دلیل بن جا تی ہے۔جنگ سے بھاگنااور بزدلی دکھانا ایسا جرم ہے جو اللہ کی نزدیک نا قابلِ معافی ہے۔ اسی طرح ایسے موقع پر جان پیش کرنے کی ادا اللہ کو بہت پسند ہے۔پروردگارِ عالم کی غیرت جوش میں آتی اور وہ اپنے شہید بندے پر انعامات و اکرامات کی بارش کر دیتا ہے۔قرآن مجید نے یہ دونوں باتیں بیان کی ہیں اور اللہ کے آخری رسولﷺ نے بھی۔ہمارے ہاں یہ ہوا کہ لوگوں نے جنگ کی حالت کو عمو می حالات پر قیاس کیا۔ دین کی ایسی تعبیر پیش کی جس سے یہ تاثر قائم ہوا کہ سماج بھی میدانِ جنگ ہی ہے۔علمی اور معاشرتی اختلاف بھی متقاضی ہے کہ اسے حق و باطل کا معرکہ بنا دیا جائے۔یہ منظر کھینچنے کے بعد،اس طرح سورہ توبہ کی آیات کا اطلاق ہوتاہے کہ حیرت ہوتی ہے۔آدمی سوچتا ہے کہ کیا کوئی عالم بھی ایسی جسارت کر سکتا ہے؟واقعہ یہ ہے کہ عام سماجی حالات کے بارے میں قرآن مجید خاموش ہے نہ اللہ کے رسولﷺ۔ دونوں ناطق ہیں کہ مذہب کی تعبیر میں اختلاف ہو تو کیا جائے؟ سیاسی موقف مختلف ہوں تو رویہ کیا ہو نا چاہیے؟سماجی طبقات اور گروہوں میں باہمی تعلقات کیسے ہو نے چاہئیں۔ انسانی حقوق کی جدوجہد، اللہ کے ہاں کس اجر کی مستحق ہے؟معلوم ہوتا کہ یہ سب تعلیمات سر تا پا انسانی جان، مال اور آ برو کی حرمت کو مستحکم کرتی ہیں۔یہ بتاتی ہیں کہ دین‘ زندگی کو کیسے آسان اور پرامن بنا تا ہے۔وہ سماج کوانسانی، حیوانی، نباتاتی، ہر طرح کی زندگی کے لیے کیسے سازگار بناتا ہے۔اگر دین کا یہ پہلوپیش نظر رہے تو ایک ایسا سماج وجود میں آئے جہاں لوگ زندگی سے محبت کرتے ہوں۔جہاں جان لینے اور دینے کے بجائے،جان کی حرمت کو بطور قدراہمیت ملے۔کاش کوئی لوگوں کو یہ حدیث بھی سنائے کہ بیوہ کے حق کے لیے جدو جہد کرنے والا بھی مجاہدہے۔
سماج کی طر ف آئیے تو معلوم ہوتا کہ غیرت کا اظہار جان لے کر کیا جاتا ہے۔خوشی کامو قع ہو تو فائرنگ کی جا تی ہے۔زمین کے ایک حقیرٹکڑے پر اپنا حق جتانے کے لیے جان لے لی جاتی ہے۔یہاں تک کہ اپنی جھوٹی انا کی تسکین کے لیے،لوگ جان لینے سے گریز نہیں کرتے۔گاڑی کی پارکنگ پر جھگڑے سے
لے کر معمولی تکرار تک،انجام انسانی زندگی کا ضیاع ہے۔مشاہدہ یہ ہے کہ ان سماجی رویوں میں رسمی تعلیم کا کوئی کردار نہیں۔ عرفِ عام میں پڑھا لکھا آ دمی ہو یا ان پڑھ،اس معاملے میں سب ایک جیسے ہیں، الا ما شااللہ۔صبر اور تقدیر کا ایک غلط تصور بھی اس میں کردار ادا کرتا ہے۔جان چلی جائے تو اسے قسمت کا فیصلہ قرار دے کرلوگوں کو مطمئن کیا جا تا ہے۔اگر ایسا ہی ہوتا تو تقدیر بنانے والا قصاص کا حکم کیوں دیتا؟یہ حکم دراصل اس بات کی ہدایت ہے کہ زندگی میں پیش آنے والے حادثات کے اساب انسانی اعمال میں تلاش کیے جائیں۔
معلوم یہ ہوا کہ ہم جن سماجی تصورات کے تحت زندہ ہیں، وہ ہمیں انسانی جان کی حرمت کے بارے میں حساس نہیں بناتے۔ ہمار ادب ،فلم،ٹی وی ڈرامہ، بحیثیت مجموعی زندگی کی اہمیت کو نمایاں نہیں کرتے۔آج بھی وہی فلمی ہیرو مقبول ہے جو قتلِ عام کا عادی ہے۔ٹی وی ٹاک شوزمیں وہی مہمان زیادہ بلا یا جا تا ہے جو آگ لگانے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ سیاسی اور مذہبی رہنما جو سماج میں موت کے سوداگر ہیں، وہ اکثر بلا ئے جاتے ہیں اور لوگوں کو ان کے افکارِ عالیہ سے مستفید کیا جا تا ہے۔انسانی جان ان پروگراموںمیںکہیں زیرِ بحث نہیں ہوتی۔
حکومت بھی دوسروں سے مختلف نہیں۔اس ملک میں سب سے زیادہ افراد ٹریفک حا دثات میں مرتے ہیں۔پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق2001ء سے 2013ء تک، مختلف حادثات میں تقریباً 46ہزار افرار لقمۂ اجل بن گئے۔ یہ وہ افراد ہیں جن کا کوئی ریکارڈ مو جود ہے۔ اصل تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ یہ تعداد دہشت گردی میں مرنے والوں سے زیادہ ہے۔ ہماری پارلیمان میں اس پر بہت کم گفتگو ہوتی ہے کہ ان حادثات کو روکنے کے لیے حکومت کو کیا کر نا چاہیے۔حکومت ہر حادثے کے بعد ایک کام کرتی ہے۔ انسانی جان کا معاوضہ دے دیا جاتا ہے۔ یہ اس لحاظ سے ایک اچھا قدم ہے کہ کسی گھرانے کا کفیل اگر نہیں رہا تو ایک مصیبت کے ساتھ فکرِ معاش کی مصیبت بھی نہ آ جائے؛ تاہم ہم جانتے ہیں کہ انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ پسِ مرگ سوچنے کے بجائے، کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم زندگی کو محفوظ بنا نے کے لیے کوئی اقدام کریں۔
ہمارے ایک روحانی اور مذہبی پیشوا نے کم و بیش ایک عشرہ پہلے، لوگوں سے موت کی بیعت لینے کا آغاز کیا۔میں نے اُس وقت لکھا تھا کہ اس قوم کو ان پیشواؤں کی ضرورت ہے جو ان سے زندگی کی بیعت لیں۔آج پھر اس بات کو دہراتا ہے۔ ہمیں مذہب کی وہ تعبیر چاہیے جو سماج کو زندگی کا پیغام دے۔ہمیں ان سماجی اقدارکی ضرورت ہے جو انسانوں میں اخوت کوفروغ دیں اور زندگی کو آسان بنائیں۔ہمیں وہ حکومت چاہیے جو اپنے شہریوں کی زندگی کے بارے میں حساس ہو۔جس کی پہلی ترجیح یہ ہو کہ ملک کو انسانی جان، مال اور آبرو کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ میں بدل دیا جائے۔اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی خلافت کا یہ نتیجہ بیان کیا ہے کہ وہ سماج کی حالتِ خوف کو حالتِ امن سے بدل دیتے ہیں۔ہمیں ایسے ہی اہلِ اقتدار کی ضرورت ہے۔