کیا صوبوں کو فی الواقعہ کسی گورنر کی ضرورت ہے؟ کیا آئین کچھ ایسی خدمات یا ذمہ داریاں ان کے سپرد کرتا ہے کہ اگر گورنر نہ ہو تو کار جہاں بانی معطل ہو جائے؟
پنجاب کے سابق گورنر محمد سرور مستعفی ہوئے تو میرے ذہن میں یہ سوال ایک بار پھر زندہ ہو گیا۔ یہ سوال اس وقت بھی پوری شدت سے اٹھتا تھا جب سلمان تاثیر پنجاب کے گورنر اور شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے۔ میں نے مقدور بھر کوشش کی کہ اس باب میں آئین کی دفعات کو بھی سمجھوں۔ میرا تاثر یہ ہے کہ صوبوں کو کسی گورنر کی کوئی ضرورت نہیں۔ گورنر صوبے میں صدر پاکستان کا نمائندہ ہے۔ آئین کی دفعہ 145صدر کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنے نمائندے کے طور پر گورنر کو کوئی خاص ذمہ داری سونپ دے۔ بالعموم اس کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس کا تعلق کسی ہنگامی صورت حال سے ہے۔ یہ دفعہ اس وقت کام آتی ہے جب صوبے میں کسی ایسی جماعت کی حکومت ہو جو مرکز میں موجود حکومت کی مخالف ہو۔ اس کے علاوہ گورنر کا سرے سے کوئی قابل ذکر کردار نہیں۔
ماضی قریب میں، ہم نے پنجاب میں بار ہا ایسے مناظر دیکھے۔ تجربہ یہی ہے کہ مرکز میں قائم حکومت اس منصب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ بظاہر یہ ایک بحران کے خاتمے کے لیے ہوتا ہے لیکن عملاً ہمیشہ ایک نئے بحران کو جنم دیتا ہے۔ چوہدری الطاف حسین سے کھوسہ صاحب تک، پنجاب مسلسل ایک کشمکش میں مبتلا رہا۔ مرکز اور صوبے کی لڑائی کا ایک اہم محاذ یہی گورنر ہاؤس تھا۔تاریخ یہ کہتی ہے کہ جب مرکز اور صوبے میں ہم آہنگی ہو تو گورنر قطعاً غیر ضروری ہے۔ جب اختلاف ہو تو نئے بحران کا سبب ہے۔ ایسے منصب کی آخر کیا ضرورت ہے؟
سرور صاحب کا قصہ تو یہ بتا رہا ہے کہ اس منصب پر بیٹھا آدمی اگر شخصی طور پر کوئی سیاسی ایجنڈا رکھتا ہو تو لازماً گورنر ہاؤس اضطراب کا گھر بن جاتا ہے۔آئینی طور پر پنجاب کا وزیر اعلیٰ اور کابینہ ہی، صوبے کے مختارِ کل ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ شہباز شریف جیسا ہو تو پھرصرف وزیر اعلیٰ یازیادہ سے زیادہ ان کا بیٹا۔ اس کے علاوہ صوبے میں اختیار نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ گورنر اگر سیاسی طور پر متحرک رہنا چاہتا ہو تو پھر وہ اختیار چاہتا ہے۔یہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے باہر کہیں پایا نہیں جاتا۔عنقاکی تلاش ایک کار لا حاصل ہے۔ نتیجہ بے بسی اور مایوسی۔ یہ بے بسی اور مایوسی حد سے بڑھ جائے تو وہی کچھ ہوتا ہے جو سرور صاحب کے معاملے میں ہوا۔
میری تجویز ہے کہ گورنر کا منصب ختم کر دیا جائے۔ یہ وسائل کا غیر ضروری استعمال ہے۔ انگریزوںکے دور کی یادگار عالی شان عمارتیں، غیر ضروری پروٹوکول اور بے انتہا فراغت۔ صدر مملکت کو اگرکوئی ضروری قدم اٹھانا ہے تو اس کا اعلان اور اہتمام ایوان صدر سے بھی ہو سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ صوبے میں ایک چھوٹا سا دفتر قائم کیا جا سکتا ہے جو ایوان صدر کے رابطے میں رہے۔ اگر غیر ضروری حالات میں صدر کو کوئی اقدام کرنا ہے جیسے گورنر راج وغیرہ تو اس کے لیے کسی آدمی کے نام کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ ایسا قدم اضطراری حالات ہی میں اٹھایا جاتا ہے اور اضطرار روز مرہ نہیں ہوتا۔ ایک اضطرار کی خاطر ہرمہینے کروڑوں روپے برباد کرنے کا کیا جواز ہے۔ اضطرار کا بھی ، جیسے میں عرض کیا، ایک علاج موجود ہے۔
یہ سوال منصب صدارت کے لیے بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ ایک پارلیمانی نظام میں اس کی کیا ضرورت ہے؟ میرا خیال ہے صدر کوگورنر پرقیاس کرنا درست نہیں۔ صدر ریاست کی علامت ہے۔ وہ افواج پاکستان کا سپریم کمانڈر ہے۔ غیر ملکی سفیر اس کے پاس آتے ہیں اور اپنی تعیناتی کی اسناد پیش کرتے ہیں۔ ریاست کو ہمیشہ کسی ایسی علامت کی ضرورت ہوتی ہے جوہر طرح کی تقسیم سے ماورا، ریاست کی نمائندگی کرے۔ اس لیے صدر اگر محض علامت ہو ، تو بھی اس کی افادیت کم نہیں۔ یہ معاملہ گورنر کے ساتھ نہیں ہے۔ صوبہ ایک انتظامی اکائی ہے، ا سے کسی علامت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انتظامی امور کے لیے وزیر اعلیٰ اور صوبائی اسمبلی کفایت کرتے ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ ایوان صدارت کی مکین کوئی ایسی شخصیت ہو جو سیاسی عزائم رکھتی ہو تو مرکز میں بھی وہی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جس کا ایک مظہر ہم نے پنجاب میں، ایک بار پھر دیکھا۔ فاروق لغاری مرحوم اور بے نظیر بھٹو صاحبہ کے مابین اصل قضیہ یہی تھا۔ 58-(2)-Bکی موجودگی میںتو اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جاتا تھا، اب ایسا ممکن نہیں۔ اس لیے اب امکان یہی ہے کہ مرکز میں ایسی صورت حال پیش آئی تو اس کا انجام وہی ہو گا جو پنجاب میں ہوا۔ اس لیے اس ایوان میں داخل ہونے والے کو اپنے سیاسی عزائم کے جوتے باہر اتاردینے چاہئیں۔
پاکستان کا آئین ایک شاندار دستاویز ہے۔ اس میں سماج کی سیاسی ، مذہبی اور علاقائی حساسیتوں کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح جدید قومی ریاست کے تقاضوں کو بھی بڑی حد تک پیش نظر رکھا گیا ہے۔ پھر یہ کہ اس میں ترامیم کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ اس لیے اگر اس ضمن میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہو تو آئین میں اس کی گنجائش موجود ہے۔ جمہوریت، آئین وغیرہ کے تصورات عالمگیر ہیں، لیکن ان کی عملی صورتوں کا تعین ہمیشہ مقامی حالات کے پیش نظر کیا جاتا ہے۔ ہمیں بھی اپنا یہ حق استعمال کرنا چاہیے۔ میرا خیال ہے گورنر کے منصب کے حوالے سے بھی اس پہ ضرور سوچا جانا چاہیے۔
ہمارے ہاں صوبوں کے حالات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس سے مناصب کی افادیت پر بھی فرق پڑتا ہے۔ جیسے خیبر پختون خوا کا گورنر فاٹا کے معاملات کو بھی دیکھتا ہے، جو انتظامی طور پر صوبے کا حصہ نہیں ہیں۔ وہاں گورنر کا کردار ، گورنر پنجاب سے مختلف ہے۔ بلوچستان کے اپنے حالات ہیں۔ میرا احساس یہ ہے کہ جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو صوبوں کے معاملات میں عوامی نمائندوں ہی کو اختیارات دینے چاہئیں۔ آئین صوبوں کے حقوق کی بات کرتا ہے اور بیسویں آئینی ترمیم کے بعد تو صوبے پہلے سے کہیں زیادہ اختیارات رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ صوبوں میں مرکز کی کم سے کم مداخلت ہونا چاہیے۔ گورنر کے منصب کا خاتمہ بھی اس بات کا اعلان ہوگا کہ صوبہ اپنے انتظامی امور میںخود مختار ہے۔ جن معاملات کا تعلق ریاست کی مرکزیت کے ساتھ ہے، اس کے لیے صدر کا منصب موجود ہے۔ فوج سمیت بہت سے ادارے اس کے ماتحت ہیں۔ آئین کا پانچواں حصہ فیڈریشن اور صوبوں کے تعلقات کو بیان کر رہا ہے۔ آئین کی دفعہ 145 اسی میں شامل ہے۔ اس دفعہ کی تشکیل نو کرتے ہوئے ، اگر ہم آئین کی ان تمام دفعات پر عمل کریں تو صوبے اور مرکز میں اختلافات کو کم سے کم سطح پر لایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت بہت سے سرکاری محکمے ایسے ہیں جن کی کوئی عملی افادیت نہیں۔ اگر انہیں ختم کر دیا جائے اور ملازمین سے کہا جائے کہ وہ گھر بیٹھے تنخواہ لیتے رہیں تو بھی حکومت کو اربوں روپے سالانہ کی بچت ہو سکتی ہے۔ اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کا آغاز گورنر کے منصب سے کرنا چاہیے۔ اب تو یقینا چوہدری سرور صاحب بھی اس کی تائید کریں گے۔