"KNC" (space) message & send to 7575

ترقی کے ماڈل اور متبادل بیانیہ

آ دمی سوچتا ہے تو حیرت اسے گھیر لیتی ہے۔ عالم ِاسلام میں حکومتی اورغیر حکومتی سطح پر ترقی کے بہت سے ماڈل پیش کیے گئے۔ انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی، مذہب، عسکریت،گڈ گورننس۔۔۔۔ ان سب کو بنیاد مان کر ترقی کے مختلف ماڈل سامنے لائے گئے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے موجودہ حکمران یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک مضبوط انفراسٹرکچر کی تعمیر، ترقی کی بنیادی ضرورت ہے۔ مہاتیر محمد کا خیال بھی یہی تھا؛ تاہم وہ اس کے ساتھ گڈ گورننس کو بھی لازم سمجھتے تھے۔ جہادی تنظیموں کا ماڈل یہ ہے کہ عسکری جد وجہد سے پہلے مسلمان ملکوں کے ا قتدار پر قبضہ کرو اور پھر سامراجی قوتوں سے نجات حاصل کرو۔ میں سوچتا رہا کہ کہیں کوئی ایسا ماڈل بھی سامنے آیا ہے جس میں علم کو ترقی کی بنیاد مانا گیا ہو؟ میری حیرت کا سبب یہ ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
مغرب کے عروج کا نقطۂ آغاز احیائے علوم کی تحریک (Renaissance) ہے۔ ایک علمی وفکری تحریک جس نے غور وفکر کے قدیم اسالیب (paradigms) کو مسترد کرتے ہوئے، علوم کی نئی بنیادیں اٹھائیں۔ اہلِ علم اس تحریک کے چند خواص بیان کرتے ہیں۔ ایک ہیومن ازم، جس نے عقل اور تجرباتی شواہدکی اساس پر خیالات کو پرکھنے کا رجحان پیدا کیا۔ دوسرا آرٹ کہ اٹلی میں مصوری کی دنیا ایک انقلاب سے گزری۔ یہ حقیقت پسندی کی بنیاد پر فنون کی تشکیلِ نو تھی۔ تیسری‘ سائنس جس نے کائنات پر غور و فکر کو نئے زاویے سے دیکھا۔ طبیعی علوم میں نئے نظریات کو فروغ ملا۔ زمینی مرکزیت (Geocentric) تصور کے لیے اس خیال نے ایک بڑا چیلنج اٹھا دیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ چوتھا مذہب، جس کے قدیم تصورکو مستردکردیا گیا۔ اس کا حاصل سیکولرازم تھا۔ پانچواں خود شناسی۔ اس عہد میں لوگوں نے تاریخ کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا اورقرونِ وسطیٰ کو نظراندازکرتے ہوئے اپنا تعلق عہدِ قدیم سے قائم کیا۔ یوں اپنے دورکو پہچانا اوراس کو ممتازکیا۔
احیائے علوم کی تحریک کا حا صل آج کا مغرب ہے۔ یہ اس تحریک کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ایک نظام ِ اقدار پرکھڑا ہے اور اس نے دو صدیوں میں یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان اقدارکی بنیاد پر ایک دنیا آباد کی جا سکتی اور اسے کامیابی سے طویل عرصہ تک قائم رکھا جا سکتا ہے۔ میرا احساس ہے کہ دنیا میں ترقی کے یہ فطری اصول ہیں جن کواہلِ مغرب نے دریافت کیا۔ یہ ترقی کا وہ ماڈل ہے جس کی بنیاد علم ہے۔گزشتہ چند صدیوں میں یہ مغرب کی علمی برتری ہے جس نے اسے دنیا کا امام بنا رکھا ہے۔ ہمارے پاس بھی ترقی کا یہی ماڈل ہے۔ اس دنیاکے باب میں اللہ تعالیٰ کی ایک سنت ہے۔ اس سنت کا اطلاق سب انسانوں پر ایک جیسا ہو تا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فطرت کے مظاہر میں کچھ خواص رکھے ہیں جو ان کو جان لیتا اور مصرف میں لے آتا ہے، فطرت اس کی خدمت پر مامور ہو جا تی ہے۔ جب کسی نے توانائی کے اصول کو جان لیا اور ایک ایٹم کے جگرکو چیرکر اس میں چھپی توانائی کو دریافت کر لیا تو اب یہ توانائی اس کے حکم کے تابع ہے۔ 
ہم اگر ترقی کے اس ماڈل کو اپنائیں گے تو اس کا مطلب نقالی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں جب علوم کے احیا کی کوئی تحریک اٹھے گی تو اس کے خد وخال لازم نہیں کہ وہی ہوں جو مغرب میں سامنے آئے؛ تاہم یہ واضح ہے کہ ہمیں انہی خطوط پر سوچنا ہوگا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مذہب، سماج، سیاست، آرٹ اوراپنے عہدکے جن تصورات پر ہم کھڑے ہیں، ان کوبرقرار رکھتے ہوئے، ترقی کا کوئی امکان نہیں۔ ہمارے ہاں اس امرِ واقعہ کی تفہیم نہیں ہے۔ ہم اکثر اس کے اسباب خارج میں تلاش کر تے ہیں۔ یوں ترقی کے وہ ماڈل پیش کیے جاتے ہیں جو کسی طرح نتیجہ خیز نہیں ہو سکتے ۔ میں اس سے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کو اپنانے سے ہم نے خود پر بربادی کے دروازے کھول دیے، جیسے عسکریت پسندی۔ اس ماڈل نے پورے عالمِ اسلام کو بر بادکر دیا۔ خارجی دشمنوں نے ہمیں اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا ہم نے اس ماڈل کے ہاتھوں اٹھایا ہے۔ 
انفرا سٹرکچرکی بنیاد پر ترقی کا ماڈل ان دنوں روبہ عمل ہے۔ گڈگورننس کو نظر انداز کرتے ہوئے محض اس پر انحصار، معلوم ہے کہ نتیجہ خیز نہیں ہوگا۔کہا جاتا ہے کہ یہ سرمایہ کارکو متاثر کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب سرمایہ کارکا پالا اسی کرپٹ نظام سے پڑے گا تو محض موٹر وے یا میٹروکیا اسے سرمایہ کاری پر آمادہ کر سکیں گے؟ بجلی اورگیس کا نظام درست کیے بغیرکیا کوئی صنعت ترقی کر پائے گی؟ کوئی ذی عقل ان سوالات کے جواب اثبات میں نہیں دے سکتا۔ غورکیجیے تو حالات کی یہ خرابی سماج، ریاست اور مذہب کے باب میں ہمارے تصورات کا حاصل ہیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے رہنما اس بات کونظر اندازکرتے ہوئے عوام کو خواب دکھاتے ہیں اور وہ انہیں درست بھی مان لیتے ہیں۔
سابق گورنر چودھری سرور نے ایک سوال اٹھا یا ہے جو برسوں سے مجھے بھی پریشان رکھتا ہے۔ ان کا سوال یہ ہے کہ ہمارے رہنما اکثر ملک سے باہر جاتے ہیں، ترقی یافتہ ممالک کے نظاموں کو دیکھتے ہیں،کیا وجہ ہے کہ وہ یہاں ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرتے؟ ہمارے کئی سیاست دان تو ایسے ہیں جنہوں نے عمر کا بڑا حصہ مغرب میں گزارا ، جیسے بے نظیر بھٹو اورعمران خان۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ انگلستان اور یورپ میں تبدیلی کا عمل کیسے شروع ہوا؟ کوئی ایسی شہادت مو جود ہے کہ انہوں نے پاکستان میں علم کی بنیاد پر ترقی کے کسی ماڈل کی کوئی بات کی ہو؟ شریف برادران ترکی سے بہت متاثر ہیں۔کیا انہوں نے کبھی غورکیاکہ پل اور سڑکیں بنا نے سے پہلے ترکی کسی فکری اور نظری ارتقا سے گزرا؟ مذہبی سیاست دان بھی مغرب کو جانتے ہیں۔ ان میں سے بعض کے بچے وہیں رہتے ہیں اور وہ خود بھی کثرت سے آتے جاتے ہیں۔ ان کے ہاں بھی اس اندازِ نظرکی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔
پاکستان اور عالم ِاسلام کو اگر آگے بڑھنا ہے تولازم ہے کہ یہاں بھی علم کی بنیاد پر ترقی کا ماڈل اپنا یا جا ئے۔ یہ ماڈل ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں اور ان میں مقامی حالات کی رعایت بھی رکھی جا سکتی ہے؛ تاہم یہ لازم ہے کہ اس کی اساس علم ہو۔ سیاسی قیادت یہ صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہ بدرجہ اولیٰ اہلِ علم و دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی قیادت کو اس جانب متو جہ کریں، ترقی کے ماڈل میڈیا کا موضوع بنیں۔ دنیا بھر کے اخبارات میں ادارتی صفحوں پرسماج اور سائنس سے متعلق مضامین شائع ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بے مغز سیاست کا غلبہ ہے۔ مقبول ہونے کی ایک دوڑ ہے۔ اب ٹی وی اینکر یا کالم نگار کے بارے میں ڈائریکٹرکرنٹ افیئرز یا ایڈیٹر نہیں، ڈائریکٹرمارکیٹنگ کی رائے معتبر ہے۔ اس اندازِ نظر نے زوال کے دروازے کھول دیے ہیں اور یوں عوا می ذوق کو بلند کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی، الا ماشااللہ۔ 
پاکستان میں ایک صاحبِ علم نے کوشش کی کہ نئے بیانیے کی بحث کو مذہب و ریاست کے مروجہ تصورات کی تشکیلِ نو کی بنیاد پر آگے بڑھا یا جائے۔ اس باب میں جواباً جوکچھ لکھاگیا، اسے پڑھ کر انداز ہوا کہ اہلِ علم کو اس بات کی تفہیم ہی نہیں کہ یہ بحث آج کیوں ضروری ہے۔ اگر انہیں اندازہ ہوتا تو پھر تنقید کا رخ بالکل دوسرا ہوتا۔ پھر وہ بھی اپنا ایک جوابی بیانیہ سامنے لاتے اور یوں سماج کی فکری تربیت کا سامان ہوتا۔ ہمارے ہاں یہ خلطِ مبحث جاری رہے گا جب تک کہ ہم یہ نہیں جان لیتے کہ ہماری ضرورت ترقی کا ایک ایسا ماڈل ہے جس کی اساس علم پر ہو۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں