کیا اخلاقیات ایک موضوعی (Subjective)معاملہ ہے؟عصری سیاست نے چند بنیادی سوالات اٹھا دیے ہیں، جن میں سے ایک سوال یہ بھی ہے۔
الہامی روایت کی حد تک تو اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ یہ روایت اخلاقیات کو فطرت سے جوڑتی اور اسے آفاقی قرار دیتی ہے۔ شخصی اور اجتماعی، دونوں دائروں میں مذہب کا مقدمہ یہ ہے کہ اخلاقیات کا پہلا درس انسان کی فطرت میں الہام کر دیا گیا ہے۔ وہ جن رجحانات کے ساتھ جنم لیتا ہے، ان میں خیر و شر کا شعور بھی شامل ہے۔ اللہ کی کتابیں اور رسول تو صرف فطرت میں ودیعت کردہ اقدار کی یاد دہانی اور تذکیر کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ اخلاقیات کے اس تصور کے تحت فردکی شخصیت تربیت پاتی ہے اورسیاسی و سماجی ادارے وجود میں آتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں مذہب کا اخلاقی بیانیہ آخرت میں جوابدہی کے احساس سے پھوٹا ہے اور یہی احساس اعمال کے لیے قوت متحرکہ کا کام کرتا ہے۔ قانون یا سماجی اقدار ایک اضافی کردار تو بلا شبہ ادا کرتی ہیں لیکن اصلاً یہ ایک حاضر و ناظر ہستی کے حضور میں پیشی کا جذبہ ہے جو اسے کسی کام پر آمادہ کرتا یا اسے روکتا ہے۔یہ ایک بے پناہ رحیم ہستی کے ساتھ تعلقِ خاطر ہے جو اس کا ہاتھ تھامتا اور اسے شاہراہِ حیات پر اس طرح گامزن کرتا ہے کہ وہ ہر قدم اٹھانے سے پہلے سوئے افلاک دیکھتا ہے کہ اس کا پروردگار کیا چاہتا ہے۔
اخلاقیات کی غیر الہامی روایت میں یہ موضوعی معاملہ ہے۔ انسان کے اخلاقی تصورات زمان و مکان کے تابع ہیں۔ آفاقیت سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ یہ انسان کے تجربے اور حالات سے وجود میں آتے ہیں۔ تجربہ مختلف ہو یا حالات بدل جائیں تو اخلاقی تصورات بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کوئی خوب مستقل نہیں اور کوئی ناخوب دائمی نہیں۔ دیگر معاملات کی طرح اخلاقیات بھی ارتقاء سے گزرتے ہیں۔ یہ عقیدے کی طرح جامد نہیں۔کیاآج ہماری سیاست اخلاقیات کے غیر الہامی تصورات کے تابع ہے؟
''میں شراب پیتا ہوں، غریبوں کا لہو تو نہیں پیتا۔‘‘ یہ بھٹو صاحب کا مشہور جملہ ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ پاکستان کی سیاست میں، اخلاقیات کے غیر الہامی تصور کی بنیاد ہے۔ اس سے یہ تصور عام ہوا کہ سیاست میں عوامی استحصال نہیںہونا چاہیے‘ اصل جرم مالی کرپشن ہے؛ تاہم نجی سطح پر اگر ایک لیڈر مروجہ اخلاقیات کا پابند نہیں ہے تو اسے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ اس تصورکے تحت، مے نوشی سے ترک صلوٰۃ تک، ہر عمل نجی شمار ہوا۔ اس کا کوئی تعلق اخلاقیات سے باقی نہیں رہا۔بھٹو صاحب کی پزیرائی سے معلوم ہوا کہ عوامی سطح پر اس تصورِ اخلاق کو قبول کر لیا گیا۔ اب اگر ایک سیاست دان نکاح کو گھر میںبھینس پالنے کے مترادف سمجھتا اوراس کے بجائے بازار سے دودھ خریدنے کو ترجیح دیتاہے تو اس میں وہ قابلِ مذمت نہیں ٹھہرتا۔ مشاہدہ تو یہ ہے کہ یہ شہرت اس کی سیاسی کامیابی میںمعاون ہے۔ ان دنوں بھی ہمیںایک بار پھراس اخلاقی تصورکی بازگشت سنائی دی‘ جب آزاد کشمیر کے ایک معروف سیاست دان ، جن کا سماجی تعارف ہی مے نوشی ہے، کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ کرپٹ آدمی نہیں ہے۔ گویا کرپشن کا تعلق صرف اجتماعی معاملات سے ہے، شخصی اخلاقیات اس سے مستثنیٰ ہیں۔
اخلاقیات کے اس موضوعی تصور میں تحریک انصاف نے مزید اجتہاد بھی کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ تحریک انصاف میں شمولیت دراصل دائرہ خیر میں داخل ہونا ہے۔ جیسے ہی کوئی عمران خان کی بیعت کرتا ہے وہ گناہوں سے ایسے ہی پاک ہو جاتا ہے جیسے ایک نو مولود بچہ۔ گویا یہ سیاست میں اس کا نیا جنم ہے۔ سیاست میں بے شک آپ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتے رہے ہوں، اگر آپ نے تحریک انصاف کے گھاٹ سے پی لیا تو آپ پاک صاف ہو گئے۔ صحافت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ آپ کی شہرت جیسی بھی ہو، اگر آپ نے تحریک انصاف کے حق میں کچھ کہا یا لکھا، آ پ کا شمار اہلِ صدق و صفا میں ہونے لگا‘ تحریک انصاف دراصل سفینہِ نجات ہے جو اس میں آ گیافلاح پا گیا۔ یہ بھی اخلاقیات کے موضوعی تصور ہی کی ایک صورت ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ لبرل معاشروں میں بھی قومی رہنماؤں کی سطح پر اخلاقیات کو دو دائروں میں تقسیم نہیں کیا جا تا۔ بل کلنٹن کا واقعہ تو زیادہ پرانا نہیں ہے۔ ایک سال پہلے ایک امریکی جنرل کی ایسی ای میلز سامنے آئیں‘ جن سے معلوم ہوا کہ وہ ایک خاتون کے ساتھ ملوث ہیں تو انہیں اپنا منصب چھوڑنا پڑا۔ ایک لبرل معاشرہ بھی چاہتا یہی ہے کہ اس کے رہنما شخصی سطح پر اخلاقیات کے مروجہ سماجی تصورات کے تابع رہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو معاشرے کا اجتماعی شعور انہیں اگل دیتا ہے۔آج مسلمان معاشرے‘ معلوم ہوتا ہے کہ سیاست میںاخلاقیات کے موضوعی تصورات کو قبول کر چکے ہیں‘ بادشاہت سے لے کر پاپائیت تک، سب گوارا ہے۔
پاکستان اپنی ساخت میں ایک مذہبی معاشرہ ہے۔ یہ اپنی اخلاقی اقدار کو مذہب سے کشید کرتا ہے۔اسلام کا تصورِ اخلاقیات یہ ہے کہ وہ ایک عام فرد کی شخصی زندگی میں جھانکنے کو پسند نہیں کرتا۔وہ ریاست کو بھی عام حالات میں یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اس کی چار دیواری کوپار کرے۔ہمیں تو یہ تلقین کی گئی کہ دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنا چاہیے اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہماری کوتاہیوں سے درگزر کرے۔اس کے ساتھ اسلام یہ بھی تلقین کرتا ہے کہ قیادت کے انتخاب میں فرد کا کردار پیشِ نظر رہنا چاہیے‘ امانتیںاہل افرادہی کو سونپنی چاہئیں۔ یہاں اسلام اور سیاست کے باہمی تعلق پر بہت گفتگو ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے
اخلاقیات اور سیاست کے باہمی رشتے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی جو اسلام اور سیاست کا اصل مقدمہ ہے۔ عمران خان کی طرف سے بیرسٹر سلطان کے لیے کرپشن سے پاک ہونے کی سند کا اجرا دراصل بھٹو صاحب کے اس جملے کی صدائے بازگشت ہے کہ ''میں شراب پیتا ہوں، غریبوں کا لہوتو نہیں پیتا‘‘۔
مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ جب بھٹو صاحب نے یہ جملہ کہا، اس وقت عوامی سطح پر کوئی منفی رد عمل پیدا ہوا‘ نہ آج عمران خان کے جملوں پر۔ اس سے کیا مان لیا جائے کہ سماج نے سیاسی سطح پر اخلاقیات کو موضوعی مان لیا ہے؟ کیا ایک مذہبی معاشرہ ہوتے ہوئے بھی، اُس کے نزدیک یہ بات زیادہ اہم نہیں رہی کہ مے نوشی کا سماجی اخلاقیات سے کوئی تعلق ہے؟ کیا مذہب ہمارے لیے آج محض عصبیت کا نام ہے؟ رسالت مآبﷺ کی محبت میں جان دینے کا عزم لیکن آپ کے اسوہ حسنہ سے مکمل بے اعتنائی۔ اسلام کے سیاسی غلبے کو مقصد حیات ماننا اور انفرادی سطح پر اسلامی تعلیمات سے دوری۔ کیا مروجہ مذہبی تصوارت کا حاصل یہی ہے؟
حالات کے دباؤ میں ہم اکثر ان سماجی تبدیلیوں سے صرف نظر کر لیتے ہیں جو ان حالات کے نتیجے میں ہمارے رویے کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں۔ دھرنے کے دوران میں بھی‘ میں نے بارہا توجہ دلائی تھی کہ اس سیاسی حرکیت کے سماجی اخلاقیات پر پڑنے والے اثرات کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے۔ میرا اب بھی یہی اصرار ہے کہ عمومی سیاسی رویوں کا اس پہلو سے جائزہ لیتے رہنا ضروری ہے۔ اس ضمن میں یہ سوال بنیادی ہے کہ کیا اخلاقیات ایک موضوعی معاملہ ہے؟