انسانی تاریخ میں سیاست کیا کبھی اخلاقیات کے تابع رہی ہے؟
انبیاء کا معاملہ مختلف ہے۔ ان کا اقتدار ایک الہامی منصوبے کا حصہ ہوتا ہے۔ اس کا تعلق بر سر زمین جنم لینے والے حقائق سے کم ہوتا ہے۔ رسول تو آتے ہی ہیں اﷲ کی عدالت بن کر۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ ان کاغلبہ نوشتۂ دیوار ہوتا ہے۔ وہ تشریف لاتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ اُس قیامت کو ایک خطے اور قوم کے لیے مشہودکر دیتا ہے، جسے ایک دن پورے عالم انسانیت کے لیے برپا ہونا ہے اور جب ابن آدم کی دائمی جزا و سزا کا فیصلہ ہونا ہے۔ رسولوں کی قوم کو پہلے دن سے متنبہ کر دیا جاتا کہ ان کے پاس صرف دو راستے ہیں۔ ایمان لائیں اور سر خرو ہو جائیں ، یا پھر عذاب کے لیے تیار ہو جائیں۔ وہ عذاب جو کبھی آسمان سے نازل ہوتا ،کبھی انسانی پیروںکے نیچے سے پھوٹتا ہے اور کبھی رسول کے اصحاب کی تلواروں سے۔ جیسے اﷲ کے آخری رسولﷺ کے معاملے میں ہوا اور اسے سورۂ توبہ میںبیان کر دیا گیا۔خلافت راشدہ دراصل اس انقلاب کی توسیع تھی جسے سیدنا محمدﷺ نے برپا کیا اور ظاہر ہے کہ یہ ایک الہامی فیصلہ تھا۔
اس کے سوا انسانی سیاست کی تاریخ کیا ہے؟
سیاست اور اخلاقیات میں، شہادت یہی ہے کہ کبھی گہرا رشتہ قائم نہیں ہو سکا۔ سیاست کی اخلاقیات نہیںہوتی، یہ اہل سیاست کا اخلاق ہے جو سیاسی تاریخ بنتا ہے۔کامیاب حکمران اخلاقی بنیاد پر کامرانیاں نہیںسمیٹ سکے۔ ایک اچھا منتظم اور انسانی نفسیات کا ایک بڑا ماہرہی اس سفر میں کامران ہوا۔ سیدنا امیر معاویہ ؓ انسانی تاریخ کے کامیاب ترین حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ کسی نے پوچھا ، سماج پر آپ کی گرفت کیسے رہتی ہے؟ کہا: میں اپنی رعایا کے ساتھ ایک دھاگے کے ساتھ بندھا ہوا ہوں۔ وہ کھینچتے ہیں تو میں اسے ڈھیلا کر دیتا ہوں۔ وہ ڈھیلا چھوڑتے ہیںتو میںکھینچ لیتا ہوں۔ حکمرانی اسی آرٹ کا نام ہے۔ اس لیے مجھے حیرت ہوتی ہے جب لوگ سیاسی تبدیلی کا خواب دیکھتے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ چند اہل خیر سیاست کے نام پر جمع ہو گئے تو سماج بدل جائے گا۔
جمہوریت ، البتہ انسانی تاریخ میں آنے والی ایک ایسی تبدیلی ہے جس نے بہتری کا راستہ کھول دیا ہے۔ عامۃ الناس کی ناراضی کا خوف اور ان کی تائید پر انحصار ، وہ سیاسی قدر ہے جس نے اہل اقتدار کی مطلق العنانی کو لگام دی ہے؛ تاہم اس کی نتیجہ خیزی کے لیے لازم ہے کہ پہلے یہ بطور سماجی قدر مستحکم ہو۔ اس کے بعد سیاست میں اس کا ظہور ہو۔ ورنہ یہ محض ووٹ دینے کا ایک بے روح عمل ہے۔ عصبیتیں انسان کو گھیرے رکھتی ہیں اور وہ ان سے بلند تر نہیں ہو سکتا، الا ماشااﷲ ۔ یہ سماجی اقدار برسوں کی ریاضت سے وجود میں آتی اور مستحکم ہو تی ہیں۔ اﷲ کے رسولﷺ نے، اس میں کیا شبہ ہے کہ سماج کی کایا پلٹ دی۔ قدیم روایات کو زندہ کیا ، اگر ان میں خیر تھا اور اس کے ساتھ نئی روایات بھی قائم کیں۔ ا س کے باوصف، قدیم عصبیتیں سر اٹھاتی اور سماج کے لیے بحران پیدا کرتی رہیں۔
بنو امیہ اور بنو عباس کی کشمکش ایک ایسے سماج میں برپا ہوئی، جسے ان خاندانی عصبیتوں سے بلند کر دیا گیا تھا۔ سیاست ایسے ہی آگے بڑھتی ہے اور یوں اخلاقیات سے دور ہو جاتی ہے۔
ہم اپنی پوری تاریخ میں عمر بن عبدالعزیز کے دو سالوں کے سوا، کوئی مثال تلاش نہیں کر سکتے۔ خوش گمان کوشش کرتے ہیں کہ عظمت کے بعض مصنوعی مینار تعمیر کریں لیکن پھر کوئی محقق اٹھتا اور ان خیالی پیکروںکو مسمار کر دیتا ہے۔ لونڈیوں سے آباد حرم سے آخر خیر کی کتنی خبریں باہر آ سکتی ہیں۔ ہماری تاریخ بنو عباس کے عہد میںمرتب ہوئی۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بنو امیہ کی کیا تصویر پیش کی گئی ہو گی۔ بعد والوں نے بنو عباس کی حقیقت بھی بتا دی۔ شاید سب سچ ہی کہہ رہے تھے۔ اقتدار اور سیاست کا اخلاقیات سے تعلق کبھی زیادہ پائیدار نہیں رہا۔
ماضی میںبادشاہتیں تھیں اور بادشاہ کا کبھی احتساب نہیں ہو سکتا۔ اس لیے گزرے دنوںمیں اصلاح احوال کے امکانات کم تھے۔ اسلام نے دور جدید میں جس کلچر کو متعارف کرایا اس میں سیاسی نظام کو دو پابندیوں کے ساتھ قید کر دیا گیا۔ خدا اوراس کے بندوں کے سامنے جواب دہی۔ خلافت راشدہ میں دونوں کا ایک ساتھ ظہور ہوا۔ خدا کے حضور میںجواب دہی کیا ہے؟ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے ایک چڑیا کو دیکھا تو پکار اٹھے: کاش میں چڑیا ہوتا، تو اپنے پروردگار کے حضور حساب کتاب سے بچ جاتا۔بندوںکی جواب دہی کیا ہے؟ سیدنا عمر ؓنے فرمایا: جس نے عوام کی تائید کے بغیر خود کو اقتدار کے لیے پیش کیا، وہ اور اس کی بیعت کرنے و الے، دونوں کو قتل کر دیا جائے۔ یہ مگرانقلاب رسول کی توسیع تھی۔ ہم عام انسانی معاشروں کی بات کرتے ہیں۔ ہم تو خیر دونوں پابندیوں سے آزاد ہو گئے ۔ مغرب نے مگر ایک پابندی کو قبول کر لیا:عوام کے سامنے جواب دہی۔ ان کے ہاں اصلاح کا امکانات پیدا ہو گئے۔ وہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب رہے، جس میں کسی حد تک ریاست اپنے فطری وظائف کی بجا آوری میں حساس ہے۔ یہ مگر ان کی سیاست کا داخلی پہلو ہے۔ خارجی سیاست میں وہ اخلاقیات سے ایسے ہی بے نیاز ہیں جیسے جنگل کا کوئی درندہ۔ امریکہ سمیت تمام سامراجی قوتیں انسانوںکا لہو پانی کی طرح بہاتی ہیں۔ ابو غریب کے عقوبت خانے آباد کرتی ہیں۔داعش اور ان کے درمیان اس کے سوا کوئی فرق نہیں کہ ایک اسلام کا نام لے کر ظلم کرتا ہے اور دوسرا قومی مفاد کے عنوان سے۔
ہمارا مسئلہ آج داخلی ہے۔ مسلم معاشروںکا استحکام اور ترقی۔ یہ سیاسی تبدیلی کی سعی لا حاصل سے نہیںہو گا۔ سماجی اقدارکو تبدیل کرنے سے ہوگا کہ سیاست سماجی اقدار کے تابع ہوتی ہے۔اقدار میں اصلاح کاآغاز رجحان ساز طبقات سے ہو گا۔ ان میں شعور پیدا ہو گا اور پھر وہ سماج کے زاویہ ء نظر پر اثر انداز ہوں گے۔ اس وقت تو یہ طبقہ دانش کے بحران میں مبتلا ہے یا اخلاق کے بحران میں۔ وہ سماجی حرکیات سے بے خبر ہے یا پھر اپنے مفاد کا اسیر۔ دانش کا بحران یہ ہے کہ سیاسی تبدیلی سے سماج بدل سکتا ہے۔ اخلاقی بحران کا معاملہ اتنا گمبھیرہے کہ خاموشی ہی میں بھلا ہے۔ آغاز مگر یہیں سے ہو گا۔ جمہوریت، اس باب میں بھی کارساز ہے۔ بات کہنے کی آزادی میسر ہے تو کوئی والٹیئر، کوئی روسو اور کوئی اقبال ہوتا ہے جس کی آواز رحیل ِکارواں کے لیے بنیادبن جاتی ہے۔
لوگ سوال کرتے ہیں، سماجی تبدیلی کا آغاز کہاں سے ہو گا ؟ میںکہتا ہوں اظہار رائے کی آزادی سے۔ ہم ساری محنت اس پر کھپا دیں کہ پاکستان میں بات کہنے کی اجازت ہو گی۔ ظاہر ہے کہ یہ آزادی ان اخلاقی تقاضوں کے تابع ہو گی جن کا ایک مہذب سماج ہمیشہ پابند رہا ہے، لیکن اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جب بات کہنے کی آزادی ہو گی تورطب و یابس اور غلط و صحیح سب سامنے آئے گا۔ وقت کا بہاؤ خود فیصلہ کرے گا کہ کس خیال کو بہتے رہنا ہے اور کون سا تہ آب رہ کر بے نشاں ہو جائے گا۔ آئیے مل کر ایسا سماج تشکیل دیں جس میں بات کہنے کی آزادی ہو۔ تبدیلی کا آغاز یہیں سے ہو گا۔ ورنہ نطق و بیاں کی جولانیاں، خواب فروشی کے سوا کچھ نہیں۔