پندرہ دنوں میں، نمازِ جمعہ کے دواجتماعات پر حملے ہوئے۔ کم ازکم بیاسی افرادجان سے گئے، سیکڑوں مضروب ہوئے یا معذور۔ ان واقعات نے نمازِ جمعہ کی فرضیت کے باب میں ایک فقہی مسئلہ اٹھادیا ہے۔
نمازکا قیام دین کا ایسا حکم ہے جس کی فرضیت کے بارے میں،اس امت میں کبھی اختلاف نہیں ہوا۔ یہ دن میں پانچ باراور وقتِ مقررہ پر، ہر مکلّف مسلم مرد اور عورت پر فرض ہے۔ یہ اگرچہ انفرادی حکم ہے لیکن دین میں اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اسے مسلمانوںکے نظم اجتماعی سے متعلق کردیاگیا ہے۔ دین اربابِ حل وعقدسے تقاضا کرتا ہے کہ وہ زکوٰۃ کے ساتھ اس کے قیام کا بھی اہتمام کریں۔ اسلام میں کوئی دوسرا حکم ایسا نہیں ہے جس پر اس طرح اصرار کیا گیا ہوجس طرح نماز کی پابندی پرکیاگیا ہے۔اس کے باوصف، قرآن مجید نے دو مقامات پر یہ بیان کیا کہ اگر بدامنی اور خوف کا عالم ہو تو دین کے اس حکم میں تخفیف ہو جائے گی۔ایسی صورت میں حکم توباقی رہے گا لیکن شرائط بدل جائیں گی۔ سورہ بقرہ میں کہا گیا:''بدامنی کی حالت ہوتو خواہ پیدل ہو یا سوار، جس طرح ممکن ہو، نماز پڑھواور جب امن میسر آ جائے تو اللہ کو اس کے طریقے سے یاد کروجو اس نے تمہیں سکھا دیا ہے، جس سے تم پہلے ناواقف تھے‘‘۔(2:239) سورہ نساء میں بیان ہوا:''اور جب تم سفر میں نکلو تواس میں کوئی گناہ نہیںکہ نمازمیں قصر کر لو اگر تمہیں اندیشہ ہوکہ کافر تمہیں ستائیںگے کیو نکہ وہ کھلم کھلا تمہاری دشمنی پر تلے ہوئے ہیں‘‘۔(4:101)
عہدِرسالت میں اس تخفیف اور اجازت پر جیسے عمل ہوا اسے حدیث کی کتابوں میں بیان کیاگیا ہے۔اس سے جو احکام مستنبط ہوتے ہیں، ان پر فقہ کی کتابوں میں صلوٰۃِ خوف کے مستقل ابواب باندھے گئے ہیں۔ان میں بتایاگیاکہ جنگ کی حالت ہو تو جماعت کے بجائے انفرادی نماز پڑھی جائے گی۔ قبلہ روہونے کا موقع نہ ملے تو یہ پابندی بھی ساقط ہو جائے گی۔ سواری سے اترنے کی کوئی صورت نہ ہوتو اس پر بیٹھ کر پڑھی جائے گی۔ یہاں تک کہ کسی رکن کی ادائیگی عملاًممکن نہ رہے تو اشاروں سے ادا کی جائے گی۔ فقہ کی کتابوں میں صلوٰۃُ الخوف کی مختلف صورتیں بیان ہوئی ہیں جن کے مطالعے سے اندازہ ہو تا ہے کہ حکم تو باقی رہے گا لیکن اس پر عمل کا تمام تر انحصار حالات پر ہے اور اس کا تعین اجتہاد سے ہوگا۔ اللہ کے رسول کو انسانی مجبوریوںکا اتنا خیال تھا کہ مدینہ میں بارش ہوتی تو مسجد ِ نبوی سے دورآباد لوگوں کی آسانی کے لیے اعلان کردیا جاتاکہ و ہ عشاکی نمازگھروں ہی میں ادا کر لیں۔ یہ فرض نما زکا ذکر ہے جو فرض عین ہے۔ نماز با جماعت اور نمازجمعہ کے بارے میں توفقہا کے کئی اقوال بیان ہوئے ہیں جن میں ایک دوسرے سے اختلاف کیاگیا ہے۔
آج ہمارا سماج حالتِ خوف میں ہے۔ مسجد میں نماز پڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔ ایک اندیشہ ہے جو نمازیوں ہی کو نہیں، ان کے متعلقین کو بھی اپنے حصار میں رکھتا ہے۔ معلوم ہو تا ہے کہ مساجد دہشت گردوں کا خصوصی ہدف ہیں۔ نمازجمعہ کا اہتمام اب معمول کا واقعہ نہیں رہا۔ان حالات میں علما ئے کرام کی خدمت میں چندسوال ہیں: صلوٰۃُ الخوف کے حوالے سے، قرآن وسنت کی روشنی میں، کیاآج نمازِجمعہ کی فرضیت اور اہتمام کے باب میں، دینی احکام میں تخفیف نہیں ہو جائے گی؟ اگر آج کوئی مسلمان جان کے خوف سے نمازجمعہ کے لیے مسجد نہیں آتا اورگھر میں نمازِ ظہرادا کر لیتا ہے توکیا اس کا یہ عذر قبول کیا جائے گا؟اس سے بڑھ کر،کیا آج مسلمانوں کو یہ تلقین نہیں کر نی چاہیے کہ جب تک حالات میں بہتری نہیں آتی، وہ نمازِ جمعہ گھر ہی ادا کریں؟
مذہبی رہنماؤں سے میں ایک اورگزارش بھی کروں گا۔ جب نماز جیسے فرضِ عین کے بارے میں دین کا حکم یہ ہے کہ حالتِ خوف میں، اس پر عمل کی نوعیت بدل جائے گی اور اس کی شرائط میں تخفیف کر دی گئی تو دیگر دینی احکام پر اس کا اطلاق بدرجہ اولیٰ ہو نا چا ہیے۔ اس ملک میں مختلف مسالک نے بہت سی ایسی رسوم کو اختیارکر رکھا ہے جن کا تعلق مسلکی شناخت کے ساتھ ہے اوریہ تما م مسلمان مسالک میں نماز روزے کی طرٖ ح متّفَق علیہ نہیں ہیں۔ یہ ان کا حق ہے اور اس پرکسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے؛ تاہم یہ واضح ہے کہ ان کی اہمیت وہ نہیں ہو سکتی جو ضروریاتِ دین یا فرائض کی ہے۔کیا موجودہ حالات میں یہ مناسب نہیں کہ مختلف مسالک کے علمااپنے اپنے مسلک کے لوگوںکو یہ نصیحت کریںکہ ان رسوم پر عمل کوکچھ وقت کے لیے موقوف کردیں ،اگر انسانی جانوںکو خطرات لاحق ہوجائیں؟اس وقت معاملہ ترجیح کاہے۔ انسانی جان کی حفاظت پہلی ترجیح ہے یاکسی خاص مسلکی شناخت پراصرار؟ جب حالات بہتر ہو جائیں اور انشا اللہ ایسا ضرور ہوگا تو وہ پھر سے اپنی ان رسوم کوبحال کردیں۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایسے سوالات اس وقت کیوں نہیں اٹھائے گئے جب پشاور کے سکول پہ حملہ ہوا؟اس وقت سکولوں میں تعلیم بندکرنے کی بات نہیں ہوئی؟میرا جواب ہوگا کہ اس وقت سکول بند کرد یے گئے تھے۔ یہ کم و بیش ایک ماہ بند رہے۔ اس دوران میںسکولوں کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کیے گئے۔ سکولوں کی انتظامیہ سے کچھ ضمانتیں لی گئیں۔ اس کے بعد سکول کھولنے کا فیصلہ ہوا۔ اگر مساجد کی انتظامیہ اور حکومت اس طرح کی کوئی ضمانت دے سکے تو پھرشاید یہ سوالات اٹھانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ دوسرا یہ کہ دین کے معاملے میں اس کے ماخذ کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ اگر وہاں ایسی صورتِ حال کے لیے رہنمائی موجود ہے توہمیں معلوم کرنا چاہیے۔ رہی بات دنیاوی معاملات کی تو اس کا فیصلہ عقلِ عام اور ملک کے قانون کی روشنی میں ہو گا۔ دونوں کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
آج امریکہ اور یورپ میں رہتے ہوئے،دین پر عمل اتنا مشکل نہیں، جتنا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں۔ اس سے بڑھ کر مذہبی جبرکیا ہوگا کہ نماز تک مساجد میں ادا نہیں کی جا سکتی۔ قیامِ پاکستان سے پہلے متحدہ ہندوستان میں بھی مسلمانوںکو ایسی صورتِ حال کا سامنا نہیں رہا۔ یہ کہنا بھی خلافِ واقعہ نہیں ہوگا کہ آج یروشلم کی مسجدِ اقصیٰ میں نمازکی ا دائیگی اتنی خطرناک نہیں، جتنی پاکستان کی کسی مسجد میں۔ یہاں لوگوں نے ریاست کو توکلمہ پڑھوا دیا لیکن مسجدوںکو محفوظ نہیں بناسکے۔ یہاں حدود قوانین تو نافذ ہو گئے لیکن مذہب کے نام پر انسانی قتل جیسا قبیح فعل نہ صرف جائز ہوگیا بلکہ حصولِ جنت کا پروانہ بن گیا۔ اس میں لوگوں کے لیے عبرت کا بہت سامان ہے ۔
آج نفاذِ اسلام کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ مساجدجائے امن بن جائیں۔ سوال یہ ہے کہ اس مطالبے کا مخاطب کون ہے؟ ریاست یا کوئی اور؟ میں اس کا امکان کم دیکھتا ہوںکہ مستقبل قریب میں کوئی اس سوال پر غورکے لیے آ مادہ ہوگا۔ ہم سب کے پاس اپنے اپنے مسلک اور موقف کے حق میں دلائل مو جود ہیں اورہم ان کی گٹھڑی سروں پہ اٹھائے، ہر فورم پر شریکِ بحث ہو جاتے ہیں۔ بیاسی لاشیں، لیکن اس وقت ہمارے سامنے پڑی ہیں اور ہم ان سے آنکھیں نہیں چرا سکتے۔ یہ لاشیں تو بول نہیں سکتیں لیکن انہوں نے ان امکانی لاشوں کے بارے میں سوالات اٹھا دیے ہیں جن پر جمعہ فرض ہے۔ ان کو بچانے کے لیے،ان سوالات کے جواب ضروری ہیں جومیں نے اپنے مذہبی رہنماؤں اور علما کی خدمت میں پیش کیے ہیں۔کیا فرماتے ہیں علمائے دین بیچ اس مسئلہ کے؟