یہ سیاسی شعور ہے جو تبدیلی لاتا ہے۔یہ شعور کسی ہیجان کے بطن سے نہیں،ایک سماجی تبدیلی کی کھوکھ سے جنم لیتا ہے۔
ایک متعین سوال سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔کیا ایک دانشور، کسی یونیورسٹی کا پروفیسر، پاکستان کا وزیر اعظم بن سکتا ہے؟ ترکی کے پلوں اور سڑکوں پر مر مٹنے والوں نے کاش اس سوال پر غور کیا ہوتا۔اس سماج کے بطن میں اتر کے دیکھا ہوتا۔ ترکی کے وزیراعظم ڈاکٹر احمد داؤد اوغلونے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔وہ ایک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سر براہ رہ چکے ہیں۔ انگریزی اور ترکی زبانوں میں کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ان میں سے ایک کتاب سیاسی افکار پر ہے جو اسلامی اور مغربی نظام ہائے فکر کی روشنی میں،ایک متبادل سیاسی نظریہ تجویز کر تی ہے۔اس بحث میں اہم تر سوال یہ ہے کہ وہ کیسا سیاسی کلچرہے جس میں ایک علمی شخصیت کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ ملک کا وزیراعظم بن جا ئے؟
اس کا جواب ہے، سیاسی جماعت کا ادارہ۔جس ملک میں سیاسی جماعتیں جمہوریت اورصلاحیت کی بنیاد پر قائم ہوں، وہاں یہ ممکن ہو تا ہے کہ جسے لوگ چاہیں اور جو صلاحیت رکھتا ہو، وہ منصبِ قیادت پر فائز ہو جائے۔ مستحکم جمہوریت کی اساس جمہوری اصولوں پر قائم سیاسی جماعت ہے۔جس ملک میں سیاسی جماعتیں کسی فردِ واحدکو چاہنے والوں کا ایک کلب (Fans club)ہوں اور جہاں ایک فرد کی پسند اور ناپسند کسی کو منصب عطاکرتی اورکسی کو محروم کرنے کا تمام اختیار اپنے ہاتھ میں رکھتی ہو، وہاں یہ ممکن نہیں ہوتا ۔وزیراعظم بننا تو دور کی بات، صاحبِ دانش قومی اسمبلی یا سینیٹ کا رکن بن سکتاہے نہ جماعت کا عہدیدار۔ بدقسمتی سے پاکستان کا معاملہ یہی ہے۔
جماعت اسلامی کا استثنا ہے ورنہ یہاں ہر قابلِ ذکر سیاسی جماعت 'لورز‘ کا کلب ہے۔ ن لیگ سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔وہ نوازشریف صاحب کے چاہنے والوں یا خدام کا ایک کلب ہے۔ہونا یہ چاہیے تھاکہ جب اس جماعت کو حکومت ملی تو اس کی پالیسیوں میں اس منشور کا پرتو ہوتا جو انتخابات میں عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ ہمیں معلوم ہے کہ ا یسا نہیں ہے۔ایک خاندان کے لوگ امورِ حکومت طے کرتے ہیں اور مسلم لیگ کے کسی فورم پر وہ پالیسیاں زیرِ بحث آتی ہیں اورنہ وہاں سے ان کی منظوری کاکوئی امکان ہے۔ تحریکِ انصاف کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ پارٹی انتخابات کے بارے میں خود پارٹی کی کمیٹی سفارشات پیش کر چکی۔ چونکہ عمران خان نہیںچاہتے،اس لیے ان پر عمل درآ مد ممکن نہیں۔صرف چیئرمین کے اشارۂ ابرو پر پارٹی کے عہدے داروں کا انتخاب ہوتا ہے اور انہیں معزول کیا جا تا ہے۔ جب بھی کسی اسمبلی یا سینیٹ کے انتخابات ہوتے ہیں،ان بڑی سیاسی جماعتوں کی نام نہاد کور کمیٹیز کے اجلاس ہوتے ہیں اور ان میں ہمیشہ ایک فیصلہ ہوتا ہے:امیدواروں کے انتخاب کے حتمی فیصلے کا اختیار نواز شریف یا عمران خان کو دے دیا گیا۔اس سیاسی کلچر میں اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ کوئی دانش ور یا یونیورسٹی کا پروفیسر ملک کا وزیراعظم بن سکے۔
سیاسی جماعت ایک ایسا ادارہ ہے جس پر ہمارے ہاں بہت کم تو جہ دی گئی ہے۔یہ قومی سطح پر کسی بحث کا موضوع ہے نہ خود سیاسی جماعتوں ہی میں اس کے لیے کوئی آوازاٹھتی ہے۔حال ہی میں ایک غیر سرکاری ادارے 'پلڈیٹ ‘ نے سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت پر ایک رپورٹ جاری کی۔ اس میں بتا یا گیا کہ ن لیگ کے معاملات سب سے خراب ہیں۔ جماعت اسلامی کے بعد سب سے زیادہ جمہوریت تحریکِ انصاف میں ہے۔ اس 'زیادہ جمہوریت‘ کی ایک جھلک میں نے دکھادی ہے۔ اس سے انداز ہ کیا جا سکتا ہے کہ 'کم جمہوریت‘ کا حال کیا ہو گا۔میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں میڈیاکو اپنا کردار موثر طور پر ادا کر نا چاہیے۔ جمہوری معاشروں میںعوامی دباؤ ایک اہم سیاسی محرک ہے۔افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں اسے مثبت کاموں کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔
ترکی میں سیاسی عمل ارتقا سے گزرا۔وہاں تعلیم اور تربیت کی سطح پر بہت سی سیاسی، سماجی، مذہبی اور صوفیانہ تحریکیں اٹھیں۔انہوں نے سیاسی کلچر پر اثر ڈالا ۔اس کے بعد یہ ممکن ہوا کہ ایسی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں جو مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہوں۔ان میں ایک پڑھے لکھے آ دمی کو یہ خیال ہو کہ اگر وہ ذوق اور صلاحیت رکھتا ہے تو اس کے لیے یہ مو قع مو جود ہے کہ وہ آگے بڑھے اوراہم سیاسی مناصب تک پہنچے۔اس کے برخلاف پاکستان میں یہ ممکن نہیں رہا۔اس وقت سیاسی قائدین کے مصاحبین پر ایک نظر ڈالنے ہی سے اس کا انداز ہ ہو جائے گا۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر شیریں مزاری اور احسن اقبال کی اعلیٰ تعلیم نے سیاست کو کیا دیا؟ شائستگی؟ استدلال کا اسلوب؟اگر جواب نفی میں ہے تو معلوم یہی ہوا کہ انہوں نے مو جود کلچر کو اپنایا ہے، اس کو متاثر نہیں کیا۔ دوسری جماعتوں کی طرح ن لیگ میں بھی اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ کوئی پڑھا لکھا آ دمی جماعت کی قیادت میں کوئی جگہ بنا سکے۔
سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کو قانونی اور آئینی معاملات میں معاونت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے وہ قانون دانوں کی طرف رجوع کرتی ہیں۔ ان کا اور سیاسی جماعت کا تعلق موکل اور وکیل کا ہوتا ہے۔وہ سیاسی راہنماؤں اور جماعتوں کے لیے قانونی عذر تراشتے ہیں۔جیسے حامد خان عمران خان کے لیے اور زاہد حامد نوازشریف صاحب کے لیے۔ سیاسی جماعتیں اس وجہ سے انہیں اہمیت نہیں دیتیں کہ وہ ان کے علم سے فائدہ اٹھاناچاہتی ہیں۔ اس کی سب سے اچھی مثال شریف الدین پیرزادہ ہے۔وہ سب حکومتوں کے قریب رہے ہیں لیکن کیوں؟ان کے علم و فضل کا اس ملک یا قوم کو کوئی فائدہ پہنچا؟
سیاسی جماعتیں جب اہلِ دانش سے گریز کرتی ہیں توپھر وہ دانش کے بحران میں مبتلا ہوجا تی ہیں۔مو جودہ حکومت کو ایک قومی بیانیہ ترتیب دینا ہے لیکن اس سے یہ ڈور سلجھ نہیں رہی۔یہ بحران سب سیاسی جماعتوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا۔اس سے زیادہ افسوس ناک یہ ہے کہ کسی کو اس کا اندازہ نہیں۔ شریف برادران ترکی کی طرف دیکھتے ہیں۔ترکی صرف طیب اردوان کا نام نہیں ہے، ڈاکٹر احمد داؤداوغلو کانام بھی ہے۔اے کے پی کا نام بھی ہے جس نے طیب اردوان کے بعد احمد داؤد کو وزیراعظم بنا یا اور ان کے مابین اس کے علاوہ کوئی رشتہ نہیں کہ وہ ایک سیاسی جماعت سے ہیں۔ان کا حسب نسب ایک نہیں ہے۔
پاکستان کے رائے سازبنیادی حقیقتوں کو موضوع نہیں بناتے۔ اب وہ 'عام آدمی‘ پارٹی کو پاکستان میں بھی ابھرتا دیکھ رہے ہیں۔میرا خیال ہے کہ یہ تصور پورے بھارت میں بھی شاید مقبول نہ ہو پائے۔ سیاسی کلچر، سماجی کلچر سے پھوٹتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ناکامی کا علاج کسی نئی سیاسی جماعت کا قیام نہیں، ایک نئے سیاسی کلچرکی بنیاد رکھنا ہے۔یہ میں عرض کر چکا کہ اس کلچر کی ماں کون ہے۔