1۔ ایک معروف مدرسے کے ناظم تعلیمات مو لانا وصال احمد نے خصوصی عدالت کو بتا یا کہ بے نظیر قتل اورکامرہ بس حملے میں نامزد خود کش حملہ آوروں کا تعلق ہمارے مدرسے سے تھا؛ تاہم 'ان کے کردار اور فعل سے ہمارا کوئی تعلق نہیں‘۔
2۔کراچی کے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے بارے میں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ ہے کہ اس حادثے کے مرکزی ملزم کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے اور یہ آگ بھتہ نہ دینے پر بطور سزا لگائی گئی۔ سیاسی جماعت نے کہا:'ہماراملزم کی اس حرکت سے کوئی تعلق نہیں‘۔
3۔القاعدہ کے رہنما ایک مذہبی جماعت کے ارکان کے گھروں سے گرفتار ہوئے۔ متعلقہ جماعت کے ذمہ داران نے کہا:'ملزما ن کے افعال سے ہمارا کوئی تعلق نہیں‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر سب معصوم ہیں تو پھر یہ مجرم کس ٹیکسال میں ڈھلتے ہیں؟
مدارس کا نام آتا ہے توان کے ذمہ داران حکومت کو للکارتے ہیںکہ ان مدارس کی نشاند ہی کی جائے جہاں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ بتایا جائے کہ کس نصاب میں کہاں دہشت گردی کے فضائل بیان ہوئے ہیں؟ ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس ان سوالات کا کوئی متعین جواب نہیں۔ یہی استدلال سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا بھی ہوتا ہے۔ ان کے دستور اور منشور میں کہاں لکھا ہے کہ بھتہ لینا تنظیم کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے یا غیر ریاستی سطح پر مسلح گروہ تشکیل دینا جماعتی اہداف کا حصہ ہے۔کوئی دینی مدرسہ دہشت گردی پر سند نہیں دیتا اورکوئی سیاسی یا مذہبی جماعت اپنے اجتماعات میںبھتہ خوری کی تراکیب نہیں بیان کرتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا کراچی بھتہ خوری کا مرکز نہیں؟ کیا دینی مدارس کے ذمہ داران کا عسکریت پسندی سے کوئی علاقہ نہیں؟ کیا بعض مذہبی جماعتیں اشتعال پھیلانے میں ملوث نہیں؟ ان واقعات اور دعووںمیں تطبیق کیسے ہوگی؟
ماؤ نے کہا تھا: لوگوںکو ذہنی طور پر مسلح کر دو، ہتھیار وہ خود تلاش کر لیں گے۔ یہی حقیقت ہے۔ مدارس یا تعلیمی اداروں میں انتہا پسندی داخلِ نصاب نہیں لیکن تعلیمی ماحول اور تربیت کا حصہ بہرحال ہوتی ہے۔ جن خطوط پر شخصیت ڈھالی جاتی ہے، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تربیت یافتہ افراد خود ہی ان لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں، جن کے پاس ہتھیار ہوتے ہیں۔ بایں ہمہ ، ایک مذہبی سیاسی جماعت کی قیادت جب غیر ریاستی سطح پر ہتھیار اٹھانے والوں کی تائید اور تحسین کرتی ہے تو یہ لازم نہیں کہ وہ خود کوئی عسکری تنظیم بنائے۔ وہ دراصل افراد کو ذہنی طور پر اس کام کے لیے آمادہ کرتی ہے اور ان لوگوںکو جب کوئی ایسی تنظیم ملتی ہے، وہ اسے اپنے خوابوںکی تعبیر قرار دیتے ہوئے، اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس کے بعدان کے دامن پرکوئی دھبہ نہیں ہوتا لیکن سماج لہو رنگ ہو جاتا ہے۔
کراچی میں سب جانتے ہیں کہ سیاست اور تشدد کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں اسے دو ٹوک الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ بھتہ خوری کی روایت اس شہر میں ڈالی گئی۔ ایک جماعت نے اس بدعت کی بنیاد رکھی اور اب یہ عمومی سیاسی کلچر میں بدل چکی۔ میں بارہا یہ عرض کر چکا کہ سیاسی عصبیت اور جرم جمع ہو جائیں تو ان سے سادہ طریقوںسے نہیں نمٹا جا سکتا۔ یہ جرم اور قانون کا عام تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی کلچر ہے جو تشکیل پا چکا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟میں اپنی بات کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔
ایک دو ماہ پہلے اسلام آباد کی اسلامی یونیورسٹی میں فرقہ واریت کے موضوع پر ایک کانفرنس ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس میں مذہبی تشدد کی بات بھی ہوئی۔ کھانے کے وقفے میں قومی اسمبلی کے ایک رکن اورکانفرنس میں شریک علما کے مابین گفتگو شروع ہوئی۔ میری نشست بھی ان کے ساتھ تھی۔ قومی اسمبلی کے رکن نے کہا کہ میں کانفرنس میں یہ تجویز پیش کرنا چاہتا ہوںکہ پاکستانی طالبان کو خوارج قرار دیا جائے۔ چند جملوں کے بعد معلوم ہوا کہ وہاں تشریف فرما علما اور رکن اسمبلی کے خیالات میں اتفاق نہیں۔ علما نے کہا کہ یہ عقیدے کا مسئلہ ہے۔ طالبان کو ہم جو چاہیں نام دیں لیکن خوارج نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کا اور ہمارا عقیدہ ایک ہے۔ یہ بات کہی گئی کہ خوارج نے مسلمانوں کے نظم اجتماعی سے بغاوت کی، اس بنا پر انہیں امت سے الگ سمجھا گیا۔ یہی کام پاکستانی طالبان نے کیا ہے۔ اس پر علما نے موقف اختیارکیاکہ مسلمانوںکا نظم اجتماعی ہے کہاں؟ ہم اس وقت جس نظم اجتماعی کا حصہ ہیں وہ اسلامی تعلیمات پر نہیں کھڑا۔ اس کا انکار جرم کیسے ہے؟ ان سے عرض کیاگیا کہ یہی طالبان کا موقف ہے، توکیا وہ طالبان ہی کے موقف کی تائید نہیںکر رہے؟ایسی گفتگو ہم جانتے ہیں کہ کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوتی لیکن ان سے ہم ان سوالات کے جواب تلاش کرسکتے ہیں، جو میں نے ابتدا میں اٹھائے ہیں۔
یہ علما مدارس کے اساتذہ تھے۔ ان میں سے کسی نے ہتھیار نہیں اٹھایا۔ طلبا کو اس کی تعلیم بھی نہیں دی۔ اس بات سے لیکن انکار ممکن نہیں کہ اپنا فہمِ دین طالب علموں کو منتقل کیا ہے جو لازم نہیں کسی درسی کتاب میںلکھا ہو۔ جب وہ انہی طلبا کو یہ بتائیں گے کہ ہمارا نظمِ اجتماعی دراصل وہ نظم نہیں ہے جس کے خلاف اسلام نے ہتھیار اٹھانے سے منع کیا ہے تو یہ طالبان کے نقطہ نظرکو ایک دینی استدلال فراہم کر نا ہے۔ مو لانا فضل الرحمٰن جب یہ موقف اختیارکریںگے کہ حکومت، امریکہ یا لادینی قوتوں کے کہنے پر دینی مدارس کے خلاف یلغار کر رہی ہے تواس سوال کا اٹھنا ناگزیر ہے کہ جو حکومت ایسا کرتی ہے وہ مسلمانوںکانظمِ اجتماعی کہلانے کی مستحق ہے یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب اثبات میں نہیں ہو سکتا۔
کچھ وقت پہلے طالبان نے علماکو مخاطب کرتے ہوئے اپنا نقطہ نظر دینی استدلال کے ساتھ ان کے سامنے رکھا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ غلط ہیں تو ان کی غلطی واضح کی جائے۔ میرے علم میں نہیں ہے کہ کسی قابلِ ذکر عالم یا مدرسے کے ذمہ داران نے اس استدلال کا دینی جواب دیا ہو۔ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ وہ دراصل اسی تعبیر کو درست سمجھتے ہیں۔ انہیں اختلاف حکمت ِ عملی سے ہے۔ وہ اس بات سے متفق ہیں کہ یہ نظمِ اجتماعی وہ نہیں جس کی اطاعت شہریوں پر شرعاً لازم ہے؛ تاہم وہ اس کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو خلافِ حکمت سمجھتے ہیں۔جب معاملے کی نوعیت یہ ہو توپھر یہ معاملہ حکمت عملی کا ہے اوراس میں دو آرا ہو سکتی ہیں۔ پھر شرعاً کسی ایک کوغلط نہیںکہا جا سکتا۔
سیاسی جماعتوں کا قصہ قدرے مختلف ہے۔ جو سیاسی جماعتیں تشدد میں ملوث ہیں، وہ کسی استدلال کی محتاج نہیں۔انہوں نے خودکو ایک مافیاکی طرز پر منظم کر رکھا ہے۔ایک جماعت نے جب اس کا آ غازکیا تو دوسروں نے سیاسی بقا اسی میں تلاش کی کہ وہ بھی مافیا تشکیل دیں۔انہوں نے بھی جواباً پُرتشدد گروہ بنائے۔ ان جماعتوںکی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے حکومتی اداروںکو بھی اس کے لیے استعمال کیا۔ سوال کیا جائے تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ تو سیاسی جماعت ہیں اور ایک سیاسی جماعت کاتشدد سے کیا تعلق۔ میں اگر اپنی بات کی تفہیم کرسکا تواس سے واضح ہے کہ مدارس ، مذہبی و سیاسی جماعتوں اور تشدد کا باہمی تعلق کیا ہے۔اس تجزیے کی روشنی میں آپ جان سکتے ہیں کہ ان لوگوں کے تشدد سے اظہارِ برأت کی حقیقت کیا ہے؟