"KNC" (space) message & send to 7575

صلوٰۃ الخوف

تازہ ترین گیلپ سروے نے مجھے چونکا دیا۔
اس سروے کے مطابق،نمازِ جمعہ کے لیے مسجد جانے والے افراد کی تعداد میں قابلِ ذکر کمی آئی۔ لوگوں کے سامنے سوال رکھا گیا:کیا آپ نے پچھلے جمعہ کی نماز مسجد میں ادا کی؟ 68 فی صد کا جواب اثبات میں تھا۔تیس فی صد نے کہا: نہیں۔یہی سوال جب 2014ء میں پوچھا گیا تو ستر فی صدکا جواب مثبت تھا۔نہ کہنے والے اس وقت بھی تیس فی صد ہی تھے۔2012ء میں 'ہاں‘ کہنے والوں کی تعداد 86 فی صد تھی۔نمازِجمعہ کے لیے مسجد نہ جانے والوں کی تعداد گیارہ فی صد تھی۔محض دو سالوں میں ،اس تعداد میں اٹھارہ فی صد کمی آئی۔یہ غیر معمولی تبدیلی ہے۔کیا ان دو سالوں میں ہمارے ہاں الحاد کی کوئی تحریک اٹھی؟کیا مذہب کے خلاف کوئی مہم چلی؟یقیناً ایسا نہیں۔ میرا احساس تو یہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے اگر اس ملک میں کوئی چیز فروغ پذیر ہے تو وہ مذہبی سرگرمیاں ہیں۔ ٹی وی چینلز نے جتنا وقت ان سالوں میں مذہبی پروگراموں کے لیے مختص کیا، شاید ہی کبھی ماضی میں کیا گیا ہو۔ ایسے ٹی وی چینلزایک سے زیادہ ہیں جو چوبیس گھنٹے، مذہبیت کے فروغ کے لیے سرگرم ہیں۔ایسی پر رونق اور پُرہجوم محافلِ نعت شاید ہی کبھی منعقد ہوئی ہوں۔اس سب کچھ کے باوجود ،کیا وجہ ہے کہ لوگ مسجد جانے سے گریز کرنے لگے؟
گزشتہ ماہ جب میں نے ' صلوٰۃ الخوف‘ کو اپنے کالم کا مو ضوع بنا یا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھاکہ لوگ میرے استفتا سے پہلے، خودہی ایک فتویٰ دے چکے ہیں۔ علما کی طرف سے کسی فتوے کا انتظار کیے بغیر،انہوں نے خاموشی سے ایک فیصلہ کر لیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ مذہب کے ساتھ عوامی وابستگی سماجی عوامل کے تابع ہوتی ہے۔اہلِ مذہب کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ ان عوامل کومذہب پر عمل کے لیے موافق بنائیں۔مسجد کا ما حول اگر عبادت کے لیے پر کشش ہے تو نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اگر غیر موافق ہے تو وہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔ مو لا نا منظور نعمانی کے صاحب زادے مولا نا عتیق الرحمن سنبھلی نے کہیں بیان کیا ہے کہ بر طانیہ کی مساجد میں ادائیگی ٔ نماز جتنا پرسکون عمل ہے، بھارت میں نہیں۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ مسجد کا ماحول ہے۔ہمارے ہاں مساجد جس طرح مختلف تنظیموںکے نعروں اور رنگ برنگے اشتہارات سے 'مزین‘ ہوتی ہیں،اُس سے مسجد کی یہ شناخت مجروح ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے لیے ہیں اورانہیں اسی مقصد کے لیے خاص ہو نا چاہیے۔
ہمارے ہاں تو اب معاملہ سنگین تر ہو گیا ہے۔ جب میں نے صلوٰۃ الخوف کا تذکرہ کیا تھاتو فقہی پہلو سے زیادہ، میرا مقصود اس کے سماجی پہلو کی طرف متوجہ کر نا تھا۔میں اپنے مذہبی رہنماؤں کو اس جانب تو جہ دلا نا چاہتا تھا کہ مذہب کے نام پر اٹھنے والی تشدد کی یہ لہر،عامتہ الناس کو بظاہرمساجدلیکن در حقیقت مذہب سے دور کر رہی ہے۔آج مساجد اگر تشدد کی لپیٹ میں ہیں تو اس کے دو بڑے عوامل ہیں۔ایک عامل تو مذہب کی وہ تعبیر ہے جوجملہ مسلمانوں کی تکفیر کرتی اور انہیں مرتد قرار دیتی ہے۔اس کی و جہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ وہ ایک ایسی حکومت اور نظم ِا جتماعی کی اطاعت کر تے ہیں جو طاغوت اور اسلام دشمن قوتوں کی آلہ کارہے۔ایسے لوگ مرتد ہیں اور ان کی سزا موت ہے۔دوسرا عامل فرقہ واریت ہے۔شیعہ سنی اختلاف اس کا بطور خاص سبب ہے۔اِن دونوں فرقوں میں ایسے گروہ وجود میں آچکے جویہ خیال کرتے ہیں کہ زمین کو دوسرے گروہ سے پاک کرنے ہی میں دین کا بھلا ہے۔جو گروہ شیعوں کے خلاف ہے، وہ شیعہ عوام کو ہدف بناتا ہے۔جیسے ہم نے شکار پور اور حیات آباد پشاور میں دیکھا۔اس سے یہ تاثر قائم ہو تا ہے کہ بطور گروہ اہلِ تشیع کی نسل کشی ہو رہی ہے۔جو گروہ سنیوں کے خلاف ہے، وہ ان رہنماؤں کونشانہ بنا تا ہے جو اہلِ تشیع کے خلاف متحرک ہیں۔اس کا ہدف عام سنی نہیں۔ میرے علم میں نہیں کہ کسی سنی مدرسے یا مسجد پر فرقہ واریت کی بنیاد پر کو ئی حملہ ہوا ہو۔
یہ بات تو طے ہے کہ محض تشدد کے زور پرکسی مذہبی موقف کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔انسانی حقوق اور آزادی کے اس دور میں تواس کا امکان مزید کم ہو گیا ہے۔اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ ایک مذہبی تعبیر درست نہیں ہے تو اس کو حق ہے کہ وہ دلیل اور شائستگی کے ساتھ اپنا مو قف بیان کر دے۔یہ کام ماضی میں ہوتارہا ہے اور اس سے کوئی
سماجی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ دورِ حاضر میں جن اہلِ علم نے ان اختلافات کو بطورِ خاص اپنی تحقیق اور تحریر کا موضوع بنا یا ان میں مولانا محمد یوسف لدھیانوی نمایاں تر ہیں۔انہیں پندرہ سال پہلے کراچی میں شہید کر دیا گیا۔ یہ حادثہ بظاہر اسی فرقہ واریت کا شاخسانہ تھا۔انہوں نے 'شیعہ سنی اختلافات اورصراطِ مستقیم‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔یہ کتاب دراصل ایک شیعہ عالم سید محمد محسن الاجتہادی کے ایک طویل مکتوب کے جواب میں لکھی گئی۔اس کا 'شان ِ نزول‘ بیان کرتے ہوئے مو لانا نے مقدمے میں لکھا: میرے محسن جناب محترم محمد محسن الاجتہادی صاحب نے ایک طویل عنایت نامہ راقم الحروف کے نام رقم فرمایا، جس میں بندہ کی (ایک سابق)تحریر پر بہت سے مناقشات فرمائے...‘‘ کتاب کا آغازاجتہادی صاحب کے لیے دعائیہ کلمات سے کیا گیا ہے۔پھر لکھا گیا: ''آں جناب نے اس ناکارہ کے اور اس کے رسالہ 'اختلافِ امت‘ کے بارے میں جن خیالات کا اظہار فرمایا،ان پر ممنون ہوں۔ ہر شخص کو اپنے فہم و ادراک کے مطابق تبصرے کا حق ہے۔تاہم آں جناب نے چونکہ اس ناکارہ کو جواب کے لیے مخاطب فرمایا ہے،اس لیے آپ کے گرامی نامہ کے مندرجات کے بارے میں چند گزارشات کی اجازت چاہوں گا‘‘۔
اگر اس اسلوب میں لوگ اپنی رائے کا اظہار کریں تو مسئلہ پیدا نہیںہوتا۔یہ ایک سماجی مسئلہ تب بنتا ہے جب ہم اختلافِ رائے کی بنیاد پر دوسرے کی گردن مارنے کو دینی فریضہ سمجھ لیتے ہیں۔میں عرض کر چکا کہ اس سے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ دوسرا گروہ ختم ہو جائے، یہ نقصان ضرور ہوتا ہے کہ لوگ مذہب سے دور ہونے لگتے ہیں۔ گیلپ کا سروے اسی تشویش ناک رجحان کی طرف ہمیں متوجہ کر رہا ہے۔اب یہ علما کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو مسجد کی طرف واپس لائیں۔میرے نزدیک اس کے لیے دوکام ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ دین کی ہر اُس تعبیر کا علمی رد کیا جائے جو اختلافِ رائے کی بنیاد پرکفر یا گمراہی کا فتویٰ دیتی اور دوسرے کے قتل کو جائز کہتی ہے۔دوسرا یہ کہ اختلافی امور میں، اظہار کے اُن اسالیب کی بازیافت کی جائے جو ہمارے اسلاف کا خاصہ تھے اور جس کی ایک جھلک ہم نے مو لا نا لدھیانوی صاحب کے ہاں دیکھی۔ مو لانا اپنی رائے میں شدت رکھتے تھے۔ان کے احترام کے باوجود ، ہم ان کی بہت سی آرا سے اتفاق نہیں کرسکتے لیکن میرا خیال ہے کہ ان کا یہ اسلوب قابلِ تقلید ہے۔ہمارے بزرگوں کا معاملہ تویہ ہے کہ شدید اختلاف میں بھی اپنے اخلاق اور شائستگی سے دست بردار نہیں ہوتے تھے۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی نے 'قادیانیت‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو ظاہر ہے کہ اس مذہبی تعبیر کے رد میں ہے۔اس میں بھی انہوں نے جہاں اس گروہ کے بانی کاذکر کیا، 'غلام احمد صاحب قادیانی‘ لکھا۔
اختلاف علمی اورفرقہ واریت سماجی مسئلہ ہے۔ہمیں اختلاف کو علم ہی کے دائرے میں رکھنا چاہیے۔اس بات کو رواج دینا علما کا کام ہے۔بصورتِ دیگر لوگ‘ صلوٰۃ الخوف کے باب میںعلما کے فتوے کا انتظار نہیں کریں گے۔خود ہی فیصلہ کریں گے۔گیلپ کا سروے یہی بتا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں