'' اور ‘‘ ڈائیلاگ فورم ، آل پارٹیز کانفرنس میں بدل گیا، مگر ایک جوہری فرق کے ساتھ۔ یہاں شرکا اپنی جماعتوں کا دفاع کرنے یا ان کا موقف پیش کرنے نہیں آئے تھے۔ سب کوایک مشترکہ درد کا سامناتھا: پاکستان کو پائیدار امن کیسے نصیب ہو ؟
تمام تر تنقید کے با وصف ، ہم سیاسی جماعتوں کی طرف دیکھتے ہیں کہ قومی وحدت کا فطری فورم یہی ہیں۔اڑسٹھ سال میں ہم کوشش کے باوجود ،قومی سیاسی جماعت کا کوئی ایسا متبادل تلاش نہیں کر سکے جو ملک کو متحد رکھنے کی ضمانت ہو۔ فوج سے زیادہ مخلص، با اعتبار اور محب وطن ادارہ کون سا ہو سکتا ہے؟ تاریخ کا سبق مگر یہ ہے کہ جب بھی فوج نے اقتدار سنبھالا، قومی اتحاد شدید خطرے میں گھر گیا۔ علیحدگی کی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئیں اور انتشار نے ہمیں آ لیا۔ سیاسی جماعتوں کا معاملہ، ان کی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود ، اس کے بالکل بر عکس رہا۔ آج پیپلز پارٹی کا اقتدار صرف سندھ تک سمٹ گیا ہے۔ چونکہ یہ ایک قومی جماعت ہے جو تمام صوبوں میں ہے، اس لیے یہ امکان ختم ہو گیا ہے کہ سندھ میں علیحدگی کی کوئی تحریک اٹھ سکے۔ اسی طرح آج کے پی میں تحریک انصاف کی حکمرانی ہے۔اس لیے ایک قومی جماعت کے ہوتے ہوئے، خیبر پختون خوا میں بھی ایسی تحریک نہیں چل سکتی۔ ماضی میں ہم دیکھ چکے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور بے نظیر بھٹو کے بے رحمانہ قتل کے باوجود اگر سندھ میں پاکستان مخالف جذبات کو فروغ نہیں ملا تو اس کا کریڈٹ ایک قومی جماعت ،پیپلز پارٹی کو دیا جانا چاہیے۔
یہ پہلو بھی پیش نظر رہے کہ جومذہبی جماعتیں قومی سیاست کا حصہ بنی ہیں ،وہ آئین اور جمہوریت کی بات کرتی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے مذہبی سیاست کی لیکن ووٹ اور جمہوریت کے ذریعے۔ عملاً اس مقدمے کو مسترد کیا کہ جبر کے ساتھ یا عوامی تائید کے بغیر اقتدار تک پہنچنے کا کوئی دوسرا طریقہ قابلِ قبول ہوسکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن پر انتہا پسندوں نے تین بار حملہ کیا۔ یہ جمہوریت کے ساتھ تعلق کے سبب ہوا۔ قاضی حسین احمدمرحوم اور سید منور حسن کے ادوار ِ امارت میں جماعت اسلامی میں اگرچہ دوسرے رجحانات کو پذیرائی ملی لیکن جماعت کا دستور غیر جمہوری اور غیرآئینی جد و جہد کے راستے میں حائل ہوگیا۔
سیاسی جماعتوں کے اسی مثبت کردار کو سامنے رکھتے ہوئے، آرگنائزیشن فار ریسرچ اینڈ ایجوکیشن نے ان جماعتوں کے قائدین کو جمع کیا اور انہیں پاکستان میں پائیدار امن کے لیے ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ '' اور ‘‘ کے اس ڈائیلاگ فورم پر اہل سیاست نے اپنی سیاسی وابستگیوں سے ماورا ہو کر ملک کو درپیش اس اہم ترین مسئلے پر گفتگو کی۔ اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ جمہوریت کا تسلسل امن کی بنیادی اور ناگزیر ضرورت ہے۔ تاہم یہ بھی واضح کیا گیا کہ جمہوریت محض ووٹ دینے کا نام نہیں۔ یہ ایک سماجی رویہ ہے۔ اختلاف رائے کو آپ کیسے برداشت کرتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی پر آپ کتنا یقین رکھتے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کا آپ کتنا احترام کرتے ہیں۔ اقلیتوں کے معاملہ میں آپ کتنے حساس ہیں۔ جمہوریت کے ساتھ کسی فرد یا جماعت کی وابستگی کا تعین انہی امور پر اس کے رویے سے ہو گا۔ اگر ٹی وی ٹاک شو میں کوئی مہمان بد تمیزی کرتا ہے تو کیا اس کی سیاسی جماعت اس کے خلاف اقدام پر آمادہ ہے؟
یہ سوال اٹھاتومیڈیا کا کردار بھی زیر بحث آیا۔ یہ کہا گیا کہ ٹاک شوز کے میزبان ریٹنگ کے لیے اپنے شو کو دنگل بنا دیتے ہیں۔ میرا کہنا یہ تھا کہ ٹاک شو میں اصلاً دو فریق ہیں۔ ایک میزبان اور دوسرا مہمان۔ مہمان اگر اپنی عزت نفس کے بارے میں حساس نہیں ہے، اگر اسے اپنی ساکھ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے تو وہ آسانی سے میزبان کے دام میں آ جاتا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں اپنے وابستگان کو پابند کریں کہ وہ غیر شائستہ گفتگو نہیں کریں گے اور کوئی میزبان اگر ایسی شہرت رکھتا ہے تو وہ اس کے پروگرام میں نہیں جائیں گے تو حالات بہت بہتر ہو سکتے ہیں۔
2012ء میں '' اور ‘‘ نے ''میثاق امن ‘‘ کے نام سے ایک دستاویز قوم کے سامنے رکھی تھی۔ اس میں سماج کے پانچ طبقات،
اہل سیاست، اہل صحافت، علما، اہل علم و دانش اور سماجی مصلحین کے لیے ایک لائحہ عمل تجویز کیا گیا تھا۔ اس کی تدوین میں ملک کے ممتاز سیاست دانوں، علما، اہل دانش و صحافت اور سماجی مصلحین نے حصہ لیا ۔ یہ میثاق اہل سیاست کے لیے تجویز کرتا ہے کہ ایک روادار معاشرے کے قیام کو سیاسی جماعتیں اپنے منشور کا حصہ بنائیں۔ سماجی سطح پر اپنے کارکنوں کو تلقین کریں کہ وہ سیاسی اختلاف کو دشمنی میں تبدیل نہ ہونے دیں۔ سماج میں انتہا پسندی کے رجحانات کی ہر سطح پر مخالفت کریں۔
'' اور ڈائیلاگ فورم ‘‘ کا اجلاس اہل سیاست کو ان کی انہی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کے لیے منعقد ہوا۔ ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے اس عہد کی تجدید کی کہ وہ سماج میں پائیدار امن کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ وہ اس بات کا بھی جائزہ لیں گے کہ تمام جماعتوں کے داخلی نظام میں جمہوریت آئے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت قیادت کے لیے خاندانی وراثت کے اصول کو مانتی ہے اور پارٹی میں عہدوں کے لیے انتخابات نہیں ہوتے تو جمہوریت کے ساتھ ایسی جماعت کی وابستگی مشکوک ہے۔ اگر وہ سیاسی مفادات کے لیے انتہا پسندی کو گوارا کرتی ہے تو اس سے ملک کو جو نقصان ہو گا، وہ اس میں شریک سمجھی جائے گی اور اس کے نتیجے میں ملک پہ اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس میں حصہ دار ہو گی۔
یہ سوال بھی اٹھا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کی قیادت کو کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے تو کیا اس معاملے میں خود اس جماعت کی کوئی ذمہ داری نہیں؟کیا عہدیداروں اور کارکنوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں؟ سیاسی جماعتوں کے اپنے نظام میں تطہیر کیسے ممکن ہے؟ ان سوالات پر گفتگو ہوئی تو یہ تجویز سامنے آئی کہ سیاسی جماعتوں کے تمام کارکنوں کو سیاسی تربیت کی شدید ضرورت ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پائیدار جمہوریت کے لیے ایک مضبوط سیاسی جماعت کی اہمیت کیا ہے؟ آئین ، سیاسی عمل اور سماجی ماحول میں باہمی تعلق کیا ہے؟ کامیاب جمہوریت کے لیے سماجی امن کتنا اہم ہے؟ اگر سیاسی کارکن ان امور کے بارے میں علم رکھتا ہو تو جمہوریت نتیجہ خیز ہو سکتی ہے اور ہم ان خرابیوں سے بچ سکتے ہیں جو در اصل سماجی ہیں لیکن جمہوریت سے منسوب ہوتی ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں یہ سوچ کتنی پروان چڑھتی ہے ؟ اس کا ابھی فیصلہ ہونا ہے۔ سماجی اداروں اور تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ اس باب میں سماج کو حساس بنائیں۔ ادارہ تعلیم و تحقیق (اور) کی یہ کاوش اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگر سماجی سطح پر شعور کی بیداری کا یہ عمل جاری رہتا ہے تو ہم ایک بہتر مستقبل کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ میں بارہا عرض چکا کہ آج ملک کو کسی نئی سیاسی جماعت کی نہیں، شعوری بیداری کی ضرورت ہے۔ جس دن یہ کام ہو گیا، یہی سیاسی جماعتیں جو خیر کے معاملہ میں بانجھ دکھائی دیتی ہیں، ان کی گود ہری ہو گی اور یہاں انصاف اور امن بھی صاحبِ اولادہوں گے۔