خاموشی کے ساتھ زندہ جل جانے والوں نے زندوں کو جلا دیا۔یہ تبدیلی اچانک نہیں آئی۔یہ وہ فصل ہے جو برسوں کی محنت سے تیار ہوئی اورہم اب جسے کاٹنے پر مجبور ہیں۔
گزشتہ چند برس میں،مجھے اقلیتوں کی نفسیات کو سمجھنے کا براہ راست مو قع ملا۔گوجرانوالہ، لاہور اور ملک کے دوسرے علاقوں میں بسنے والے مسیحیوں سے مکالمہ ہوا۔اگر میں اُن کی آبادیوں میں نہ جاتا توکبھی نہ جان سکتا کہ وہ کس حال میں رہتے ہیں۔مجھے اس نوعیت کا پہلا تجربہ اُس وقت ہواجب میںاسلام آباد کی کچی آبادیوں میں گیا۔اس شہر کے عالی شان محلوں کے پہلو میں زندگی اس طرح سسک سسک کر سانس لیتی ہے کہ لوگوں کی سخت جانی پر حیرت ہو تی ہے۔گندے پانی کے نالے کی دیواریں جنہیں کاٹ کر کانس بنا یا گیا ہے۔ان پر برتن رکھے ہیں اور نیچے انسان بستے ہیں۔ جب میں گوجرانوالہ گیاتو معلوم ہو کہ یہ المیہ اسلام آباد تک محدود نہیں،اس کا دائرہ تو دوسرے علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔
اسی دوران میں، میرایوحنا آباد جانا ہوا۔یہ 2014ء کا واقعہ ہے۔فیروز پور روڈ کے دامن میں آباد اس بستی کے حالات اسلام آباد کی کچی آبادیوں سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔میں جس دن گیا،کچھ دیر پہلے ہی بارش ہوئی تھی۔یہ واقعہ ہے کہ ان گلیوں میں پیدل چلنا ممکن نہیں تھا۔مجھے یہ جان کر مزید حیرت ہوئی کہ یہ شہباز شریف صاحب کا حلقہ انتخاب ہے۔ایک وزیر اعلیٰ کے اپنے حلقے میں لوگ اس حال میں رہ رہے ہیں اور وہ بھی لاہور شہر میں،سچ یہ ہے کہ میرے لیے باور کرنا مشکل تھا،اگر میں اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتا۔میں نے انہی دنوں اپنے اس تاثر کا اظہار اپنے کالم میں بھی کیا تھا۔ 15مارچ کے حادثے سے معلوم ہوا کہ اربابِ اقتدار کی بے نیازی میں کوئی فرق نہیں آیا۔اس بستی کے لوگ آج بھی اُسی طرح بے امان ہیں جیسے پہلے تھے۔
بنیادی سہولتوں سے محرومی اس المیے کا ایک پہلو ہے جس میں مذہبی امتیاز سے ماوراکروڑوں شہری مبتلا ہیں۔یہ اقلیتوں کے ساتھ خاص نہیں۔یہ محرومی شایدگوارا کر لی جائے اگرذہنی آزادی میسر ہو۔مجھے اقلیتی آبادی سے مل کر یہ معلوم ہواکہ خوف اور عدم تحفظ کا گہرا احساس ان کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔توہینِ مذہب کے باب میں ہونے والے واقعات کے باعث،وہ اس خوف سے نجات نہیں پا رہے کہ کب کوئی ان سے ناراض ہو جائے اور ایک بے رحم انبوہ اُن پرٹوٹ پڑے۔الزام کسی ایک پر ہو اور ان کی پوری بستی اجاڑ دی جائے۔اس طرح کی شکایت پر جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایسے واقعات تو مسلمانوں کے خلاف بھی ہورہے ہیں تو ان کا جواب بڑا سادہ ہو تا ہے:اگر الزام کسی مسلمان پر ہو تو خوف پورے گروہ میں نہیںپھیلتا،ایک فرد یا خاندان تک محدود رہتا ہے۔معاملہ کسی غیر مسلم کا ہو تو اس کی پوری بستی کو اجاڑ دیاجاتا ہے۔
یوحنا آباد کے واقعے پر مسیحی نوجوانوںکا ردِ عمل بتا رہا ہے کہ ان کا خوف اپنی آ خری حدوں کو چھونے لگا ہے۔دو بے گناہ ان کے ردِ عمل کا نشانہ بن گئے۔ایک ظلم نے دوسرے ظلم کو جنم دیا۔ظلم بھی غلطی کی طرح بانجھ نہیں ہوتا۔اگر جوزف کالونی، پشاور اور کوٹ رادھا کشن جیسے واقعات پر ریاست اور سماج اپنی ذمہ داری ادا کرتے توممکن تھا کہ اقلیتوں میں موجود احساسِ عدم تحفظ کم ہوتا، ایسا نہیں ہوا۔ میرے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ تشدد کا یہ رجحان اگر پھیلتا ہے تواقلیتیں خسارے میں رہیں گی اور ظاہر ہے کہ یہ سماج اور ملک بھی۔ضرورت ہے کہ اسے محض ایک واقعہ نہ سمجھا جائے۔ یہ سلسلۂ واقعات کی ایک کڑی ہے۔یہ مسئلہ متاثرین کو چند لاکھ روپے ادا کرنے سے حل ہو نے والا نہیں۔افسوس کہ حکومتیں ہر حادثے کو ایک منفرد واقعہ ہی سمجھتی ہیں۔سماج کا معاملہ تو زیادہ افسوس ناک ہے۔اس کا کوئی وارث ہی نہیں۔
ایک پہلو اور بھی ایسا ہے جو قابلِ غور ہے۔اس سماج میں زخموں کا کاروبار کر نے والے بھی کم نہیں۔یہاں ہر حادثے کے سوداگر مو جود ہیں۔افغانستان، عراق،کشمیراور فسلطین کے ساتھ، یہاں انسانی حقوق، اقلیتوں کے حقوق،معلوم نہیں کس کس نام پر کاروبار ہوتا ہے۔ اس کی بھی شدید ضرورت ہے کہ ان المیوں کو کاروبار بنانے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ہمیں اسے ایک قومی مسئلہ جان کر اس کا حل تلاش کر نا چاہیے۔جب ہم اپنے معاملات حل نہیں کر پاتے تو پھر دوسروں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ مداخلت کریں۔اس کو روکنے کا ایک ہی ذریعہ ہے: خود احتسابی۔
سب سے پہلے تو ہمیں اس غلط فہمی سے نکلنا چاہیے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔عام طور پر لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے عمومی رویے کو زیادہ اصلاح کی ضرورت نہیں۔یہ چند این جی اوز کا پھیلا یا ہوا پروپیگنڈا ہے۔یہ تو چند افراد ہیں۔ واقعات کا تسلسل بتا رہا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ایک حادثے پر خون دینا ایک قابلِ ستائش عمل ہے لیکن ہماری اجتماعی نفسیات میں مسلم برتری کا احساس اس طرح سرایت کر گیا ہے کہ ہم قومی ریاست کے تناظر میں سوچ نہیں سکتے جو ہر شہری کو مساوی حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔ہم شعوری طور پر غیر مسلموں کو ذمی ہی سمجھتے ہیں اور اس شعور کی تشکیل اس مذہبی لٹریچر اوردینی فہم کا نتیجہ ہے جوہمارے ہاں رائج ہے۔جب ہم خود کو اسلامی ریاست کہتے ہیں تو اس مقدمے میں یہ شامل ہے کہ جو شہری ریاست کے نظریے کو قبول نہیں کرتا وہ دوسرے درجے کا شہری ہے۔
ہمارے ہاں اس ضمن میں جو گفتگو ہوتی ہے، وہ اسی شعور کے تحت ہوتی ہے۔ اب مسلمان حقوق دینے والے ہیں اور غیر مسلم لینے والے۔یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم انہیں سب حقوق دے رہے ہوں لیکن جب تک یہ نفسیات باقی ہے کہ ''ہم ‘‘ دینے والے ہیں،ریاست کے تمام شہری برابر نہیں ہو سکتے۔کوئی اس کو سمجھنا چاہے تو وہ ''اسلامی ریاست ‘‘ کے نام سے لکھی جانے والی، مو لا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور مو لاناامین احسن اصلاحی کی کتب پڑھ لے۔باقی سب کچھ تو انہی کی خوشہ چینی ہے۔آئین بڑی حد تک بنیادی حقوق کی ضمانت دیتاہے لیکن آئین خود ناطق نہیں ہوتا۔وہ شہریوں کے رویوں میں بولتا ہے۔یہ رویے جب تک نہیں بدلیں گے ، آئین حقوق کا ضامن نہیں بن سکتا۔
اقلیتوں کو بھی سوچنا ہے کہ تشدد کا راستہ کبھی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا۔انہیں اکثریت کو ہم نوا بنا نا ہے۔انہیں آئین کی بات کرنی ہے۔اقلیتوں کی قیادت کو چاہیے کہ وہ خودکو اپنے مذہبی خول میں بند نہ ہو نے دیں۔اکثریت کو اس باب میں ان کی مدد کرنی چاہیے۔آج ضرورت ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ ملے۔یہ ہم آہنگی رسمی اجتماعات تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔اس کے لیے مذہبی گروہوں،سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اورمیڈیاکو سنجیدگی کے ساتھ اپنا کردار ادا کر نا ہوگا۔میرا اصرار ہے کہ اس مسئلے کی جڑیں سماجی رویے میں ہیں۔اخبارات کے صفحات سے لے کر محراب و منبر تک، ٹی وی سکرین سے لے کرسیاسی اجتماعات تک، ہمیں مل کر ایک قوم کے تصور کو آگے بڑھا نا ہے۔کسی گروہ میں عدم تحفظ کا احساس ،وہ مذہبی ہو ،علاقائی ہو یا لسانی،قومی وجود کو مجتمع رکھنے میں مانع رہے گا۔
ظلم کا شکارکوئی شہری بھی بن سکتاہے۔لیکن اس میں، اگریہ احساس پیدا ہو جائے کہ اس پر ہونے والے ظلم کا سبب کسی خاص قبیلے یا گروہ کے ساتھ اس کا تعلق ہے،تو یہ احساس ظلم کو ایک نیا رنگ دے دیتا ہے جو انتشار کے بیج بو دیتا ہے۔آج وحدت کا ایک ہی راستہ ہے:تما م شہریوں میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ ان میں کسی حوالے سے کوئی امتیاز نہیں۔