"KNC" (space) message & send to 7575

طے شدہ اور غیر طے شدہ

اہلِ علم و دانش کی ایک مجلس میں ایک موقف یہ سامنے آیا کہ ہر سماج میں چند امور طے شدہ ہوتے ہیں۔ اُن کی حیثیت مُسلَّمات کی ہوتی ہے۔ سماج کی وحدت کا انحصار چونکہ اُن پر ہوتا ہے، اس لیے انہیں متنازعہ نہیں بنانا چاہیے۔ ان پر کسی بحث یا گفتگو کا دروازہ نہیںکھولا جا سکتا۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو سماج کو انتشار میں مبتلا کریں گے۔ دوسرا موقف یہ تھا کہ کچھ طے شدہ نہیں ہوتا، ہر رائے پر بحث اور گفتگو ہو سکتی ہے۔ اس سے انتشار پیدا نہیں ہوتا بلکہ سماج آگے بڑھتا ہے۔ یہ ارتقا کا فطری چلن ہے جس سے گھبرا نا نہیں چاہیے۔ مجلس کی گفتگو بہت دلچسپ تھی اور اس میں اولوالالباب کی عبرت کے لیے بہت کچھ تھا۔ بظاہر یہ متضاد نقطہ ہائے نظر ہیں مگر میرے نزدیک اِن دونوں میں تطبیق ممکن ہے۔
یہ درست ہے کہ انسانی سماج کچھ مُسلَّمات پر کھڑا ہوتا ہے جنہیں ایک عملی تواتر اور مسلسل تبلیغ کے نتیجے میں اپنا لیا جاتا ہے؛ تاہم ہر نسل کو اُن پر قائم رکھنے کے لیے، ہر دور کے مذاق کے مطابق، نئے استدلال کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر عہد کا اپنا علمِ کلام ہوتا ہے جو کسی نسل کو بعض امور کا پابند بنانے کے لیے دلیل فراہم کرتا ہے۔ یوں ایک بات کو طے شدہ ماننے والے بھی زبانِ حال سے اعلان کرتے ہیں کہ کوئی بات طے نہیں ہے۔ ہر بات کی قبولیت دلیل کی محتاج ہے۔ تاریخ یہی ہے کہ انسان سے کوئی بات محض روایت اور تواتر کے زور پر نہیں منوائی جا سکتی۔ یہ کسی دور میں بھی ممکن نہیں تھا۔ کرائٹو کے ساتھ سقراط کا مکالمہ پڑھ لیجیے۔ انسان روشن ضمیر ہو تو زہر کا پیالہ پی سکتا ہے، بالجبر کسی بات کو قبول نہیں کر سکتا۔ یہ صدیوں پہلے کے انسان کا طرزِ عمل ہے۔ آج تو اس بات کا امکان مزید کم ہو گیا ہے کہ عقلی آمادگی کے بغیر کوئی مقدمہ قبول کر لیا جائے۔ اس بات پر گفتگو ہو سکتی ہے کہ کیا عقل اس کائنات میں موجود ہر شے کی حقیقت تک رسائی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس باب میں انسانی علم کا ارتقا کیا کہتا ہے؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ عقل کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے خارجی ذرائع کی محتاج ہے؟ ان ذرائع سے ملنے والی معلومات چونکہ بدلتی رہتی ہیں اس لیے عقل سے ماخوذ نتائجِ فکر بھی ناقابلِ تبدیل نہیں ہوتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام سوالات عقلی ہیں۔ لہٰذا یہ بات طے ہو گئی کہ گفتگو عقل کے دائرے ہی میں ہو گی‘ لیکن یہاں ایک سوال پھر پیدا ہوتا ہے۔ جب کچھ طے شدہ نہیں ہوتا تو یہ کیسے 'طے شدہ‘ مان لیا جائے کہ عقل ہی رائے سازی میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے؟ پھر یہ کہ اگر ایک بات طے شدہ مانی جا سکتی ہے تو دوسری کیوں نہیں؟
واقعہ یہ ہے کہ ان سوالات کا کوئی حتمی جواب موجود نہیں۔ فلسفے سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ سوالات نئے ہیں نہ ان کے جواب۔ اصل سوال دوسرا ہے اور وہ یہ کہ انسان کا عملی تجربہ کیا کہتا ہے؟ زندگی آگے کیسے بڑھتی ہے؟ تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سماج قائم تو ان مُسلَّمات کی بنیاد پر رہتا ہے جنہیں اجتماعی شعور قبول کر لیتا ہے؛ تاہم زندہ معاشرے ہمیشہ اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ منفرد یا شاذ آرا بھی زندہ رہیں۔ اس بات کا امکان کبھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ ایک منفرد رائے کسی دور میں اکثریت کی رائے میں تبدیل ہو جائے۔ سیدنا مسیحؑ کو جب جواں سالی میں یہود نے اپنے تئیں مصلوب کیا تو وہ ایک شاذ رائے تھی‘ لیکن تاریخ نے پھر یہ وقت بھی دیکھا کہ مسیحیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن گئی۔ صدیوں سے ایسا ہی ہے۔ سماج اسی طرح آگے بڑھتا ہے۔ وہ ان آرا کا پابند ہوتا ہے جنہیں اکثریت مُسلَّمات کے طور پر قبول کر لیتی ہے؛ تاہم وہ اس امکان کو بھی قبول کرتا ہے کہ اکثریت کا موقف تبدیل ہو سکتا ہے۔
یہ تو خیر اصولی بحث ہے۔ اب ہم اس کے اطلاقی پہلو کی طرف آتے ہیں۔ میں نے اہلِ علم کی جس مجلس کا حوالہ دیا، اس میں یہ مقدمہ پاکستان کے تناظر میں زیرِ بحث تھا۔ ایک رائے یہ تھی کہ پاکستان میں بعض امور آئینِ پاکستان میں طے کر دیے گئے ہیں، ان پر بحث نہیں کی جانی چاہیے۔ ایسا کرنا قومی وحدت کو نقصان پہنچانا ہے اور قوم جن باتوں کو مسلمات کے طور پر قبول کیے ہوئے ہے، ان پر بات نہیں ہو سکتی۔ مثال کے طور پر ریاست کا نظری تشخص، شرعی قوانین کا نفاذ، قراردادِ مقاصد، علامہ اقبال یا قائد اعظم کے افکار کی پابندی۔ جو لوگ ان امور کو چھیڑتے ہیں وہ صرف نظری ابہام پیدا کرتے ہیں۔ دوسرا موقف یہ تھا کہ یہ سب باتیں بحث کا موضوع بننی چاہئیں اور سماج میں کسی موقف کو یہ تقدس حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ اس پر گفتگو منع ہے۔
میرا خیال یہ ہے کہ پاکستان کو اگر سماجی اعتبار سے ترقی کرنی ہے تو کسی موضوع پر بحث کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔ بہت سے معاملات پر نئے سوالات اٹھتے رہتے ہیں جنہیں مسلمات کا درجہ دے دیا گیا ہے، مگر آج انہیں مخاطب بنائے بغیر چارہ نہیں۔ مثال کے طور پر ایک نظری ریاست اور ایک قومی ریاست کے تضادات کو ہم پوری طرح حل نہیں کر سکے۔ اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس جس طرح روزافزوں ہے، وہ جب بھی زیر بحث آئے گا، ناگزیر ہے کہ ریاست کا نظری تشخص بھی زیرِ بحث آئے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ریاست کے معاملات انہی اصولوں پر چلنے چاہئیں جن کو اکثریت قبول کر تی ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے دونوں گروہ قبول کرتے ہیں۔ جو اکثریت کے مسلمات کو زیرِ بحث لانے کے حق میں ہیں، وہ بھی اس کا انکار نہیں کرتے کہ قومی امور میں جمہور ہی کی رائے فیصلہ کن ہے۔ ان میں ایک قلیل گروہ ایسا ہے جس کا موقف ہے کہ اقلیتی رائے کو بزور سماج پر نافذ کر دیا جائے۔ یہ موقف اتنا کمزور ہے کہ اس کی تردید کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ میری بہت سی آرا وہ ہیں جو اکثریت کی رائے سے ہم آہنگ نہیں، لیکن میں کبھی یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ انہیں فوری طور پر ملک کا قانون بنا دیا جائے؛ تاہم میں اس مطالبے کا حق رکھتا ہوں کہ مجھے اپنی بات کے ابلاغ کا پورا موقع ملنا چاہیے۔
جو لوگ کچھ باتوں کو مسلمات سمجھتے اور ان پر گفتگو کا حق دینے کے لیے آمادہ نہیں ہیں، انہیں سوچنا چاہیے کہ کسی رائے کے اظہار پر صرف اس بنیاد پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی کہ وہ اکثریت کے موقف سے مختلف ہے۔ اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی رائے ہی غالب رہے تو لازم ہے کہ وہ اپنے موقف کو دلیل سے آراستہ کریں۔ اس کے لیے نیا علمِ کلام تخلیق کریں۔ مذہب ہی کی مثال لے لیجیے۔ اسے صرف تواتر اور کثرت کے زور پر ہی غالب رکھا جا سکتا تو مسلمانوں کو کسی غزالی، ابن رشد، شاہ ولی اللہ یا کسی اقبال کی ضرورت نہ ہوتی۔ پھر یہی کافی تھا کہ مذہب کو صرف روایت کے زور پر منوایا جاتا۔
پاکستان کو اگر سماجی اعتبار سے آگے بڑھنا ہے تو دو باتوں کو قبول کرنا پڑے گا۔ ایک یہ کہ قومی سطح میں وہی فیصلے نافذالعمل ہوں گے جنہیں قبولیتِ عامہ حاصل ہے۔ دوسری یہ کہ شاذ رائے کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔ اس کی صحت اور عدمِ صحت کا فیصلہ وقت کے سپرد کر دیا جائے۔ یہ وہ طے کرے گا کہ اسے باقی رہنا ہے یا مٹ جانا ہے۔ جبر اور اکثریت کے زور پر قدغن کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا نا چاہیے۔ اگر ہم سماجی سطح پر اخلاقیات کے کچھ مراحل مزید طے کر چکے ہوتے تو اکثریت خود آگے بڑھ کر اقلیت کے اس حق کی حمایت میں کھڑی ہو جاتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں