یہ مقدمہ ہمارے سماج،نظام عدل اور شہباز شریف صاحب کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔
مقدمہ بہت سادہ ہے۔ ایک طرف اخلاق اور خوفِ خدا سے عاری بد مست طاقت ہے، جسے یقین ہے کہ اس ملک کا قانون اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دوسری طرف بے امان مخلوقِ خدا ہے جو جانتی ہے کہ اس کا واحد سہارا اس عالم کا پروردگار ہے، جس نے اپنی حکمت کے تحت جزا و سزا کو آخرت پہ اٹھا رکھا ہے۔ یوں اس کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ اس دن کا انتظار کرے یا پھر فیض صاحب کے الفاظ میں اپنے رب سے شکوہ کرے: منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟
اہل صحافت کی خبروں پر اعتماد کیا جائے تو یہ کہانی وہی ہے جو اکثر دہرائی جاتی ہے۔ دولت، اختیار، شراب اور گرل فرینڈ۔ حساب کتاب سے بے خوف بد مستی کے یہی اجزا ئے ترکیبی ہیں۔ صدیوں سے ان کا اجتماع زمین پر فساد برپا کرتا رہا ہے۔ اہل دنیا کا بنایا ہوا نظام اس بد مستی کا دفاع کرتا رہا ہے۔ دوسری طرف سموسے بیچتا زین ہے۔ لا چاری ہے اور بے بسی کی تصویر۔ اقتدار کے ایوانوں سے دور سسکتی غربت اور اپنی ہی دیواروں سے ٹکراتی وہ چیخ جو زین جیسوںکے سینوں میں اٹھتی اور وہیں دم توڑ دیتی ہے۔ اقتدار کے ایوان اور عدل کا نظام ، جب احساس ذمہ داری سے عاری ہو جائیں تو یہ کہانی ہر عہد میں اور ہر بستی میں، شاید ہر روز دہرائی جاتی ہے۔ کبھی اس ٹریجڈی کا ہیرو شاہ زیب ہوتا ہے‘ کبھی زین۔
ہمارے سروں پر تنی ہوئی میٹروز شہباز شریف صاحب کے عہد کی گواہی دیں گی۔ اس کے ساتھ سروں سے اتری ہوئی امان کی چادر بھی ان کی یاد دلائے گی‘ جو طاقت وروں کے پاؤں میں رلتی رہی۔ یہ واقعہ ہے کہ پنجاب میں جرائم روز افزوں ہیں۔بد امنی، لا قانونیت، چوری چکاری، قتل، ڈاکے، یہ سب اب روز مرہ ہیں۔ پولیس کی کارکردگی میں بہتری نہیں آ سکی۔ عام آدمی آج بھی تھانے کا نام سن کرڈرجاتا ہے۔ ن لیگ کے ایک ہمدرد نے زچ آ کر مجھ سے کہا: آپ لکھیے کہ پنجاب پولیس کو رینجرز کے حوالے کر دیا جائے۔سندھ کا اس باب میں پہلا اور پنجاب کادوسرا نمبر ہے۔خیبر پختون خوا میں لوگ کہتے ہیں کہ پولیس کلچر میں بہتری آئی ہے۔ پنجاب میں کیوں نہیںآتی؟ سندھ میں کیوں نہیں؟
کیا یہ وہی فصل ہے جو ہم نے برسوں پہلے بوئی تھی اور اب کاٹ رہے ہیں۔ جب پولیس کی ملازمتیں سیاسی رشوت کے طور پر بانٹی گئیں؟ چند روز پہلے ٹی وی کے ایک پروگرام میں سندھ پولیس کے ایک سب انسپکٹر موجود تھے۔ ان سے سوالات کیے گئے تو پتا چلا کہ ان کی ذہنی اور علمی سطح پانچویں جماعت کے طالب علم سے زیادہ نہیں۔ سوال کیا گیا : آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے صدر کون تھے؟ جواب ملا : اندرا گاندھی۔ پنجاب کی صورت حال بھی مختلف نہیں ہے۔ یہاں میڈیا پر ظلم کی ایک داستان سنائی جاتی ہے اور اس سے متصل یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ وزیر اعلیٰ نے نوٹس لے لیا۔ میں سوچتا ہوں، حکومت کی ذمہ داری کیا ہے؟ ظلم سے روکنا یا اپنے وجود کے اثبات کے لیے ظلم کا انتظار کرنا۔ یہ نوٹس بظاہر وزیر اعلیٰ اور عملاً پولیس لیتی ہے۔ پولیس کا نظام در اصل ظلم کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے۔ یوں خونِ خاک نشیناں، رزقِ خاک بن جاتا ہے۔
یہ مقدمہ اس ملک کے نظامِ عدل کے لیے بھی چیلنج ہے۔یہ نظام اپنے اندر دوطرح کی خرابیوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ایک عملی اور دوسری نظری۔عملاً ایک مقدمے کا انحصار ایف آئی آر پر ہے۔ یہ پولیس کا کام ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ تھانے میں ایف آئی آر کیسے درج ہوتی ہے۔اس کلچر میں بہتری کے آثار نہیں ہیں۔ اگلا مرحلہ وکالت کا ہے۔وکالت کی اخلاقیات میں یہ سوال بے معنی ہے کہ موکل حق بجانب ہے یا نہیں۔یہ بات بطور اصول تسلیم کی جا تی ہے کہ وکیل اور ڈاکٹر کا کوئی تعلق موکل کی اخلاقیات سے نہیں ہو تا۔یوں بااثر قاتلوں کو زیادہ بہتر وکیل میسر آتے ہیں کہ وہ زیادہ فیس دے سکتے ہیں۔قانون کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں دیت کاجو مفہوم لیا گیا ہے،ا س میں تمام اختیارات مدعی کو دے کر ریاست کو بے اختیار بنا دیا گیا ہے۔ غریب مدعی کبھی لالچ اور کبھی قوت کے زیرِ اثرمجرم کو معاف کر دیتا ہے اور یوں پیسہ انسانی جان کی قیمت بن جاتا ہے۔اسلام کے تصور ِ عدل کی یہ تعبیر علما کی تو جہ چاہتی ہے۔
قتل کا جرم صرف فرد کے خلاف نہیں ہو تا۔یہ ریاست کے خلاف بھی ہو تا ہے۔فرد اگر معاف کر دے تو ریاست کا یہ حق باقی رہتا ہے کہ وہ مجرم کو چاہے تو معاف کرے، چاہے تو سزا دے۔قرآن مجید نے مقتول کے لواحقین کومعاف کرنے کا جو اختیار دیا ہے،وہ بہت حکیمانہ ہے۔ایک قبائلی معاشرت میں جہاں جوشِ انتقام نسلوں تک باقی رہتا ہے، وہاںاس جذبے کو سرد کر نے کے لیے انہیں یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ جو سلوک چاہیں،اپنے قاتل کے ساتھ کر سکتے ہیں؛ تاہم اس میں واضح کرد یا کہ حد سے تجاوز نہیں کیا جا ئے گا۔پھر یہ کہ معاف کرنے کی ترغیب دی گئی تا کہ سماج میں انتقام کی بجائے انصاف کی نفسیات پیدا ہو۔ہمیں معلوم ہے کہ اسلام میں نفاذِ قانون ریاست کی ذمہ داری ہے،فرد کی نہیں۔ اس لیے ان احکام کی مخاطب بھی ریاست ہی ہے۔مو جود ہ دور میں معاملے کی نوعیت مختلف ہے۔ہم جانتے ہیںکہ کس طرح یہاں دیت کوغریب کی بے بسی اور افلاس کی قیمت بنا دیا گیا ہے اور اسے انصاف کی نفی کے لیے استعمال کیا جا تا ہے۔اس لیے مو جود ہ حالات میں اس پر غور ہو نا چاہیے کہ شریعت کے اس حکم کا مقصدکیا ہے؟اگر کوئی حکم سوئے استعمال کا شکار ہو جائے تو کیا اس کی تفہیمِ نو نہیں کر نی چاہیے۔پھر یہ کہ مقاصدِ شریعت کی روشنی میں دیت کا وہی مفہوم سامنے آتا ہے جو ہم نے سمجھ رکھا ہے؟
یہ سوالات اس لیے اہم ہیں کہ آج ہم اس کے مظاہر آئے دن دیکھتے ہیں۔یہاں غیرت کے نام پر باپ اور بیٹا مل کر بیٹی اور بہن کو قتل کرتے ہیں۔ مقدمہ بھائی کے خلاف درج ہوتا ہے‘ باپ مدعی بن جا تا ہے‘ جب عدالت بھائی کو سزا سناتی ہے تو باپ بیٹی کا ولی بن کر اسے معاف کر دیتا ہے۔اسلام کا قانون اگر اس طرح کی سازشوں کے لیے استعمال ہو تا ہے تودین کے سکالرزاور علما کو سوچنا چاہیے کہ اس کی تفہیمِ نو کتنی ضروری ہے۔زین کے مقدمے میں اگرمیڈیا اور سول سوسائٹی کے زیرِ اثرمجرم کو سزا ہو بھی جاتی ہے تو مجھے خدشہ ہے کہ دیت کے اس قانون کو استعمال کرتے ہوئے،قاتل کو بچا لیا جائے گا۔
اس لیے میرا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ عدالتی نظام ،سماج اور صوبائی حکومت کے لیے چیلنج ہے۔ عدالت کودیکھنا ہے کہ اگر اخبارات میں چھپی خبریں درست ہیں تواس شہرت کے حامل کسی فرد کے ساتھ قانون کو کیا سلوک کر نا چاہیے۔سماج کو بھی ثابت کر نا ہے کہ اس میں مظلوم کے حق میں آواز اٹھانے کی کتنی صلاحیت ہے۔زین سے پہلے ایک مقدمہ یوسف رضا گیلانی صاحب کے بیٹے کے خلاف بھی درج ہے۔ظلم کی اولاد پھیل رہی ہے اور انصاف بانجھ ہے۔ شہباز شریف صاحب اگر عدل کو فی الواقعہ صاحبِ اولاد دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے بھی زین کا قتل ایک ٹیسٹ کیس ہے۔