خاکوں کا ایک مجموعہ کئی روز سے میرے سرہانے رکھا ہے، ایک خوش رنگ و خوش ذائقہ مشروب کی طرح۔میں ایک گھونٹ لیتا اور گلاس رکھ دیتاہوں۔ یہ جرعہ کشی تا دیر مجھے سر شار رکھتی ہے۔ گلاس اب خالی ہونے کو ہے۔تو کیا سر شاری بھی تمام ہونے کو ہے؟ میں نے سوچا:اس سے پہلے کہ جام خالی ہو، مجھے اپناتاثرقلم بند کرلیناچاہیے۔
خاکہ بیک وقت دو شخصیات کا تعارف ہوتاہے۔ایک وہ جو موضوعِ قلم ہے اور ایک وہ جو صاحبِ قلم ہے۔ '' جو ملے تھے راستے میں‘‘ جہاں ان لوگوںکی تصویر ہمارے سامنے رکھتی ہے جو کتاب کا موضوع ہیں، وہاں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ احمد بشیر صاحب کی شخصیت کیسی تھی۔ '' جو اکثر یاد آتے ہیں‘‘ کے مطالعہ سے،میں جہاں بہت سی معلوم شخصیات کے نا معلوم پہلوؤں کو جان رہا ہوں، وہاں احمد حاطب صدیقی کے خد وخال بھی دیکھ رہا ہوں جو '' ابو نثر‘‘کے نام سے اخبارات میں کالم لکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر سید منور حسن ہیں۔ یہ تو ہمیں کسی حد تک معلوم تھا کہ ''آتش‘‘ کی جوانی کیسی تھی لیکن یہ تجسس مدت سے باقی تھاکہ ان کی داڑھی طویل کیسے ہوئی۔ جماعت اسلامی کے دوستوں سے جواطلاعات مجھ تک پہنچیں، وہ صرف علمِ ظن کا فائدہ دیتی تھیںکہ اخبارِ آحاد کا معاملہ یہی ہے۔ ایک 'خبرِ واحد‘ ابونثر نے بھی دی ہے لیکن راوی کی ثقاہت کے پیش نظر یہ یقین سے قریب تر ہے۔ راوی کہتا ہے کہ وہ اپنے بال کٹوانے کے لیے ایک گیسو تراش کے پاس جایا کرتے تھے جس نے دکان پر یہ اطلاع آویزاں کر رکھی تھی کہ '' یہاں شیو نہیں بنائی جاتی‘‘۔ منورصاحب کی حجامت اور خط بناتے وقت وہ اُن سے بتکرار ایک بات کہتا : '' آپ اتنی چھوٹی داڑھی کیوں رکھتے ہیں۔ آپ کے نانا کی داڑھی تو بڑی تھی۔‘‘ منور حسن سنی ان سنی کر تے رہے۔ ایک روز جب اس نے اپنی بات کوپھر دہرایا ''تو منور صاحب سے رہا نہ گیا : ' اپنے نانا کو میں نے خود نہیں دیکھا ۔ آپ نے کہاں سے دیکھ لیا ‘؟ اس پر انہوں نے مختصر سا سوال کیا اور منور صاحب کے دل پر جو چوٹ پڑی وہ فوراً کارگر ہو گئی۔ بار بر صاحب نے بس اتنا پوچھا تھا : '' کیا آپ سید نہیں ہیں؟‘‘
پروفیسر خورشید احمدصاحب کی معلوم شخصیت کے بارے میں،ایک نا معلوم بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ وہ قدرے 'شرارتی‘ بھی واقع ہوئے ہیں۔ اس کی تائید میں احمد صاحب نے ایک واقعہ بھی لکھا ہے۔اس' انکشاف ‘سے البتہ ایک نحوی مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ کم و بیش سات عشروں پر محیط عمرِ مستعار میں، اگر ایک آدھ واقعہ ایسا ہوجائے جسے''شرارت ‘‘ کے ذیل میں بیان کیا جاسکے تو کیا اس کے نتیجے میں موصوف پر 'شرارتی‘ کے اسم صفت کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب تو کوئی سیبویہ یاخلیل نحوی ہی دے، میں تو صرف سوال اٹھا سکتا ہوں۔ ڈاکٹرانیس صاحب کی طرف البتہ کسی نحوی کے خوف کے بغیر، ایسے اسمائے صفت کی نسبت کی جا سکتی ہے کہ، جو بھی اُن سے ملا اس کی گواہی دے گا۔
اس کتاب میں، معلوم حضرات سے زیادہ اہم باتیں نا معلوموںکے بارے میں ہیں۔ صفدر یار خان لودھی، محمد گل جیسے لوگ ہمارے گرد وپیش میں بستے ہیں جو سراپا خیر ہوتے ہیں۔ ہم ان سے صرفِ نظرکرتے ہیںکہ تاریخ کامیاب لوگوں کے ذکر کا نام ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دائمی کامیابی ان ہی کے حصے میں آتی ہے جو خدا کے حضور میںکامیاب ٹھہریں۔
خاکہ نگاری اصلاً شگفتہ نگاری ہے۔ ہم اسے فکاہیہ ادب میں شامل کرسکتے ہیں لیکن ایک فرق کے ساتھ۔ فکاہیہ ادب سر تا پا طنز ومزاح ہے، جیسے ''پطرس کے مضامین‘‘۔ ایک شگفتہ تحریر ممکن ہے معروف معنوں میںفکاہیہ ادب کا حصہ نہ ہو، لیکن لکھنے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ حس مزاح رکھتا ہو۔ خاکہ نگاری اس لیے شگفتہ نگاری ہے کہ ایک سنجیدہ تحریر ہونے کے باوجود، لطیف ہوتی ہے جو مزاح نگاری کا خاصہ ہے، جیسے یوسفی صاحب کی ''آب گم‘‘۔ یوسفی صاحب کے مزاح نگار ہونے میں کچھ کلام نہیں لیکن '' آب گم‘‘ چیزے دیگر ہے۔ یہ شگفتہ نگاری ہے۔ یہی معاملہ رشید احمد صدیقی کا ہے۔ میں حفظ مراتب کا لحاظ رکھتے ہوئے احمد حاطب صاحب کو بھی اسی فہرست میں رکھتا ہوں۔
ہم خاکوں کے اس مجموعے میں سنجیدہ شخصیات سے ملتے ہیں۔
ابونثران کا تعارف ایسے شگفتہ انداز میں کراتے ہیں کہ ان کی سنجیدگی میںکوئی فرق نہیں آتا ۔ مثال کے طور پر مو لا ناامیراللہ خان۔وہ دین کے ایک روایتی عالم ہیںجو اپنے افکار میں متشدد ہیں۔ ان کے وجود میں لیکن ایک حق شناس دل ہے۔ جیسے ہی کوئی اُسے سلیقے سے مخاطب بناتا ہے، وہ دھڑکنے لگتا ہے۔ مولانا کا خاکہ پڑھتے ہوئے، ایک لطیف احساس غالب رہتا ہے۔ خاکہ تمام ہوتا ہے تو ایک سنجیدگی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ احمدیہی چاہتے ہیں۔ یہ ایک لکھاری کی کامیابی ہے کہ وہ جس تاثر کو باقی رکھنا چاہتا ہے، قاری آخری سطریں پڑھے تواس کا 'ہم تاثر‘ہو جا ئے۔
خاکہ نگار کا ایک امتیاز اور بھی ہے۔ ہمارے ہاں ادب کی ایک روایت وہ ہے جو شبلی کے زیر اثر پیدا ہوئی۔اسے مولانا ابو الکلام آزاد ، سید سلیمان ندوی اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی جیسے ادیبوں نے آگے بڑھایا اور اس نے حالی، اکبر اور اقبال جیسے شاعروں کے ہاں ظہور کیا۔ یہ روایت ہماری مذہبی تہذیب سے پھوٹی ہے ۔ تاہم یہ عصری شعور سے بھی پوری طرح آگاہ ہے۔ یہ آگاہی فکری ہی نہیں تہذیبی بھی ہے۔ اس میں جہاں نئے دور کے فکری رجحانات کا ادراک ہے وہاں اسلوب بیان کی ندرتوںکا بھی پورا لحاظ ہے۔یہ روایت جہاں اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی حامل ہے وہاں نظم و نثر کے جدیدتقاضوں کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس روایت میں ہنسنا ممنوع نہیں ہے لیکن یہ بھی لازم ہے کہ کسی لمحے اخلاق و
تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ احمد حاطب بھی اسی روایت سے فیض یاب ہیں۔ یوں وہ خاکہ نگاری کی اس روایت سے متعلق ہوتے ہیں جس میں رشید احمد صدیقی ایک بڑا نام ہیں۔ ''گنجے فرشتے ‘‘بے پناہ خاکے ہیں، لیکن وہ روایت کا حصہ نہیں ہیں۔
شبلی و اقبال کی ادبی روایت ،آگے نہیں بڑھ سکی۔ میں اس جملے کی شرح یوں کروں گا کہ اسلام کی تہذیبی روایت اور جدید اسالیب بیان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ،اصناف ادب میں قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں غالب و میر کا معیار نہ سہی، ان کی روایت باقی ہے۔ افسانہ نگاری میں اگرچہ نئے تجربات ہوئے لیکن قدیم روایت کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ دبستانِ شبلی کے وارث البتہ کم یاب ہو گئے۔ میںجاوید احمدصاحب غامدی کی نثر یا نظم پڑھتا ہوں تو شبلی کی روایت کو صفحہ قرطاس پر سانس لیتے دیکھتا ہوں۔ احمد حاطب صدیقی کے خاکے بھی اپنی تہذیبی، لسانی اور جمالیاتی ساخت میں اسی روایت کا حصہ ہیں۔
اس کتاب کا ظاہر اس کے باطن کی طرح منفرد ہے۔ اس کے ناشر شاہد اعوان صاحب کو اﷲ نے ایسا جمالیاتی ذوق عطا کیا ہے کہ وہ کتاب کو جنت نگاہ بنا دیتے ہیں۔ پروفیسر عنایت علی خان کی کتاب ''نہایت‘‘غالباً ان کے ذوق کا پہلا با ضابطہ ظہور تھاجس نے سب کو چونکا دیا تھا۔ ان کے ادارے نے کتاب کے ظاہر کو باطن سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔ آپ کویہ کتاب پڑھنے کا اشتیاق ہو تو میرا مشورہ ہے کہ ایک نشست میں ایک خاکے سے زیادہ نہ پڑھیے۔ گھونٹ گھونٹ،کسی خوش ذائقہ مشروب کی طرح تاکہ اس کی حلاوت آپ کو تادیر سرشار رکھے۔