علمائے کرام کے اقوالِ زریں کا ایک مجموعہ، خبر کی صورت میںمیرے سامنے ہے:
مفتی اعظم پاکستان ، مکرم و محترم مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کا ارشاد ہے:باغیوں کے خلاف جنگ دراصل قرآن کا فیصلہ ہے۔اور سعودی حکومت اسی پر عمل کرتے ہوئے،حجازِ مقدس کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کے آگے بند باندھ رہی ہے۔محترم ڈاکٹر عبدالرزاق سکندرصاحب نے کہا: سعودی عرب کے دفاع کے لیے مجھ جیسا بوڑھا اور کمزور بھی جنگ لڑنے کے لیے تیارہے اور میں اس سلسلے میں پیچھے نہیں رہوں گا۔ مفتی محمد نعیم صاحب نے فرمایا: ہم سعودی عرب سے تشریف لائے ہوئے معزز مہمان کو یقین دلاتے ہیں کہ حرمین شریفین کے تحفظ کی خاطر کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائے گا۔یہ مہمان سعودی حکومت کے مشیر ڈاکٹر عبدالعزیز بن عبداللہ العمار تھے جو سعودی قونصل خانے میں علما کو ایک بریفنگ دے رہے تھے۔
مجھے حسرت ہی رہی کہ میں اِن محترم علمائے کرام کی زبانِ حق ترجمان سے یہ گفتگو کبھی پاکستان کے بارے میں بھی سنتا۔باغیوں کے خلاف ریاست پاکستان کے اقدام کو بھی یہ ایسی ہی سندِ جواز عطا فرماتے۔یہ خبر پڑھتے ہوئے، میرے کانوں میں ان علما کے وہ الفاظ گونج رہے تھے جو پاکستان کی ریاست اوراس کے باغیوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمائے گئے تھے۔اُس وقت باغیوں اور اور حکومت کو دو فریق قرارد یا گیا۔دونوں سے کہا گیا کہ ہتھیار پھینک دیں۔ان کے اعلامیے میں کوئی ایک جملہ ایسا نہ تھا جو باغیوں کی مذمت میں کہا گیا ہو۔یہ حضرات وہ نہیں ہیں جن پر 'کانگرسی علما‘ کی پھبتی کسی جائے۔مفتی رفیع عثمانی صاحب کے والدِ گرامی مفتی محمد شفیع صاحب تو اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے اکابر سے ا ختلاف کرتے ہوئے، تحریکِ پاکستان اور قائد اعظم کا ساتھ دیا۔ یہ سب پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہتے ہیں۔مجھے حیرت ہے کہ اس مدینہ ء ثانی کے باغیوں کے خلاف تو کسی نے اس عزم کا اظہار نہیں کیا کہ وہ اُن سے لڑنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ سنجیدہ سوال ہے کہ پاکستان اور اِس کا نظم ِ اجتماعی ہمارے علما کے نزدیک اس احترام کا مستحق کیوں نہیں ہیں؟
اس باب میں جواباً جو فردقراردادِ جرم ریاست پاکستان کے خلاف مرتب کیا جاتا ہے ،اس کا بدرجہ ء اولیٰ اطلاق سعودی عرب حکومت پر ہو تا ہے۔ ذہن میں القاعدہ کا بنیادی مطالبہ تازہ کر لیجیے۔ یہ جزیرہ نمائے عرب کوامریکی فوجوں سے خالی کرنے کا مطالبہ تھا اور اس کی مخاطب سعودی عرب کی حکومت تھی۔ان کے استدلال کی اساس بھی دینی تھی۔وہی استدلال جو اِس وقت جزیرہ نمائے عرب کے حوالے سے،سعودی حکومت کے حق میں استعمال ہو رہا ہے۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ تاریخ میںجب بھی سیاسی تنازعات کی دینی تعبیر کی گئی، ایک ہی بات کی دو متضاد تاویلات سامنے آئیں۔صفین کے معرکے میںحضرت عمار بن یاسرؓ کی شہادت ہوگئی۔اس باب میں فریقین نے جو موقف اختیار کیے،وہ تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔اب بھی ایسا ہی ہو رہا
ہے۔میرا سوال پھر وہی ہے کہ پاکستان پر اطلاق کرتے وقت ہم ان تعبیرات کو کیوںنظر انداز کردیتے ہیں؟اسی سے متصل سوال یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کس اصول پر طے ہوگی؟ پاکستان کا مفاد یا کسی دوسرے کا مفاد ؟اس کی دینی تعبیر ہوگی یادنیادی؟
یہ دین و سیاست کی جدائی کا سوال نہیں ہے۔مسلمان کی زندگی خانوں میں نہیںبٹی ہوتی۔دین و سیاست کی یک جائی کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کسی لمحے ان اخلاقی اصولوں سے انحراف نہیں کرتا جودین نے ہمیں سکھائے ہیں۔ مثال کے طور پر اس نے ہمیں عہد نبھانے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم اجتماعی طور پرکسی دوسرے ملک کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتے ہیں توپابندہیں کہ ہر صورت اس کی پاسداری کریں۔ہم اجتماعی مفاد کی نگہبانی کریں لیکن اس طرح کہ کوئی اخلاقی اصول پا ما ل نہ ہو۔دین و سیاست کی یک جائی کا یہ مفہوم نہیں کہ ہم سوویت یونین اور امریکہ کی لڑائی کو دینی استدلال فراہم کریں یا ملک کے اندر دو سیاسی گروہی کے اختلاف کو مذہبی معرکے میں بدل دیں۔جب ہم ایسا کرتے ہیں تو آنے والا وقت خود ہی ہمارے اس اندازِ نظر کو رد کر دیتا ہے۔ایک وقت تھا کہ ماؤ اور مارکس ہماری اسلامی جماعتوں کا ہدف تھے۔ مولانا مودودی کا مشہور جملہ ہے کہ یہ ملک ماؤ یا مارکس کی امت کا نہیں، یہ محمد عربیﷺ کی امت کا ملک ہے۔یہاں روس ا ور چین کے خلاف مذہبی بنیادوں پر ایک مقدمہ قائم کیا گیا۔آج چین کے ساتھ سب سے قریبی روابط جماعت اسلامی کے تھنک ٹینکس کے ہیں۔ حتیٰ کہ جوگروہ چین کی حکومت کے خلاف مذہبی بنیادوں پر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ہماری مذہبی جماعتیں ان کی حمایت بھی نہیں کرتیں۔چین کے خلاف ان کا استدلال وہی ہے جو امریکہ کے خلاف القاعدہ کا ہے۔یہ تضاد کیوں ہے؟
علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تضادات کو رفع کرنے میں اس قوم کی مدد کریں۔میرا خیال یہ ہے کہ جب ہم دین و دنیاکی وحدت کے بارے میں سوچتے ہیں تو نئی تبدیلیوں کوپوری طرح پیش ِ نظر نہیں رکھتے۔مثال کے طور پر قومی ریاست کے تصورکو عملاً مان لینے کے باوجود، نظری طور پر ہم اسے قبول نہیں کرتے۔قومی ریاست کو ماننے کا ناگزیر نتیجہ یہ ہے کہ ہم ان جغرافی حدوں کو قبول کررہے ہیں جو بین الاقوامی معاہدے کے تحت قائم کردی گئی ہیں۔ اسی کے تحت ہم ویزا لیتے اور دوسرے ملکوں کی سرحدوں میں داخل ہوتے ہیں۔تاہم جب نظری بنیادوں پر ہم گفتگو کرتے ہیں تو ہمارے پیشِ نظرمسلمانوں کے ایک عالمگیر نظمِ اجتماعی ہوتا ہے۔پھر ہم عالمی خلافت کو دینی ضرورت قرار دیتے ہیں۔اس سے تضادات جنم لیتے اور سوالات اٹھتے ہیںجن میں سے بعض کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔میرا خیال ہے کہ اس باب میں القاعدہ اور داعش کا موقف بالکل واضح اور ابہام سے پاک ہے۔ وہ عملاً بھی کسی قومی ریاست کو تسلیم نہیں کرتے۔قومی ریاست کو وہ یک سر مسترد کرتے ہیں۔ یوں ان کا عملی اور نظری موقف ایک ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ یکسو ہو کر اپنی رائے پر قائم رہتے ہیں۔ہمارے علما کو یہ یک سوئی نہیں مل سکی۔اسی وجہ سے ان کے موقف میں تضادات ہیں۔اُسی سوال کو ایک بار پھریاد کرلیجیے جو میں نے ابتدا میں اٹھا یا ہے: اگر سعودی حکومت کا باغیوں کے خلاف اقدام قرآن کے فیصلے کے مطابق ہے توحکومت ِ پاکستان کاویسا ہی اقدام قرآن کے خلاف کیوں؟ پاکستانی حکومت علما کی حمایت سے محروم کیوں؟
اس تضاد کی دوری کا ایک حل یہ ہے کہ ہم عصری سیاست کے مسائل کو مروجہ اصولوں کے مطابق حل کریں؛ تاہم اس بات کا خیال رکھیں کہ دین کا کوئی اخلاقی ضابطہ پامال نہ ہو۔ سعودی عرب کی حمایت کرنی چاہیے یا نہیں،ہمیںا س کا فیصلہ ایک قومی ریاست کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کر نا چاہیے۔ اسے کوئی مذہبی استدلال فراہم کرنے سے گریز کر نا چاہیے۔ ورنہ وہی ہو گا جو حضرت عمار بن یاسرؓ کے معاملے میں راوی پہلے کر چکے۔اگر آپ کو یقین نہ آئے تو مرتضیٰ پویا صاحب اور ان کے ہم نواؤں کے موقف پر ایک نظر ڈال لیجیے! اختلاف اس صورت میں بھی رہے گا لیکن پھرسے کوئی فرقہ وارانہ یا مذہبی مسئلہ پیدا نہیں ہو گا۔