جبری شاگردی کا ایک نتیجہ تو ظاہرو باہرہے۔شاگرد استادکے سامنے زانوئے تلمذ تو تہہ کرتاہے مگر اُس کے علم اور صحبت سے محروم رہتا ہے۔یہ محرومی اگر شاگردکی ذات تک محدود رہے توبھی کم نقصان دہ نہیں لیکن اگر سماج میں سرایت کرنے لگے تو لازم ہے کہ اس کا تریاق کیا جائے۔
سرسیّد احمد خان کو میں نے پڑھا ہے‘ دیکھا نہیں۔ ایسے مخلص اور دردِ دل رکھنے والے آدمی کو مادہ پرست کہنا بڑی جسارت ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب کو میں نے پڑھا ہی نہیں، دیکھا بھی ہے۔ میں پچیس سال سے ان کی علمی روایت کے سائے میں زندہ ہوں۔ علیٰ وجہ البصیرت میںیہ عرض کرتا ہوں کہ غامدی صاحب کا سیکولرازم سے کوئی تعلق ہے نہ مادہ پرستی سے۔ سیکولرازم کا کوئی ایک مفہوم نہیں ہے۔ یہ تصور زمان و مکان کے تابع ہے اور اس کی کئی صورتیں رائج ہیں۔ اس سے صرف نظر کرتے ہوئے، میں یہ عرض کرتا ہوں کہ سیکولرازم کے کسی مروجہ مفہوم میں غامدی صاحب سیکولر نہیں ہیں۔ ان کا علمی کام اور عملی زندگی، دونوں اس دعوے کے حق میں برہانِ قاطع ہیں۔
دین کیا ہے؟ جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی مبسوط تصنیف ''میزان ‘‘ میں اس کو بیان کیاہے۔ یہ اُن کا فہم ہے۔ اہل علم کے لیے یہ دروازہ ہر وقت کھلا ہے کہ وہ اس پر تنقید کریں۔ نشان دہی کریں کہ کہاں دین کے باب میں کہی گئی کسی بات کے لیے، دین کے ماخذ سے سند موجود نہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے بتایا ہے کہ ان کے نزدیک دین کی حقیقت کیا ہے۔ انہوں نے لکھا:''دین کی حقیقت اگر ایک لفظ میں بیان کی جائے تو قرآن کی اصطلاح میں وہ اللہ کی عبادت ہے۔عالم کا پروردگار اس دنیا میں اپنے بندوں سے اصلاً جو کچھ چاہتا ہے وہ یہی ہے... اس ''عبادت ‘‘ کے معنی کیا ہیں؟ یہ، اگر غور کیجیے تو سورۂ نحل کی آیت(16:36) سے واضح ہیں۔ اﷲ کی عبادت کے بالمقابل یہاں طاغوت سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ 'الطاغوت‘ اور 'الشیطان‘ قرآن میں بالکل ہم معنی استعمال ہوئے ہیں، یعنی جو خدا کے سامنے سرکشی، تمرد اور استکبار اختیار کرے۔ اس کا ضد، ظاہر ہے کہ عاجزی اور پستی ہی ہے... یہ چیز اگر خدا کی رحمت، قدرت، ربوبیت اور حکمت کے صحیح شعور کے ساتھ پیدا ہو تو اپنے آپ کو بے انتہا محبت اور بے انتہا خوف کے ساتھ اس کے سامنے آخری حد تک جھکا دینے کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ خشوع، خضوع، اخبات، انابت، خشیت، تضرع، قنوت وغیرہ، یہ سب الفاظ قرآن میں اسی حقیقت کی تعبیر کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ یہ دراصل ایک داخلی کیفیت ہے جو انسان کے اندر پیدا ہوتی اور اس کے نہاں خانۂ وجود کا احاطہ کر لیتی ہے۔ ذکر، شکر، تقویٰ، اخلاص، توکل، تفویض اورتسلیم و رضا، یہ سب عبد و معبود کے مابین اس تعلق کے باطنی مظاہر ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بندہ اس تعلق میں اپنے پروردگار کی یاد سے اطمینان حاصل کرتا، اس کی عنایتوں پر اس کے لیے شکر کے جذبات کو اپنے اندر ایک سیل بے پناہ کی طرح امڈتے ہوئے دیکھتا، اس کی ناراضی سے ڈرتا ، اسی کا ہو رہتا، اس کے بھروسے پر جیتا ، اپنا ہر معاملہ اس کے سپرد اور اپنے پورے وجود کو اس کے حوالے کر دیتا اور اس کے ہر فیصلے پر راضی رہتا ہے۔
یہ رکوع و سجود، تسبیح و تحمید، دعا و مناجات اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جان و مال کی قربانی،یہی اصل ''عبادت‘‘ ہے۔ لیکن انسان چونکہ اس دنیا میں اپنا ایک عملی وجود بھی رکھتا ہے، اس وجہ سے اپنے اس ظہور سے آگے بڑھ کر یہ عبادت انسان کے اس عملی وجود سے متعلق ہوتی اور اس طرح پرستش کے ساتھ اطاعت کو بھی شامل ہو جاتی ہے۔ اس وقت یہ انسان سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس کا باطن جس ہستی کے سامنے جھکا ہوا ہے، اس کا ظاہر بھی اس کے سامنے جھک جائے۔ اس نے اپنے آپ کو اندرونی طور پر جس کے حوالے کر دیا ہے، اس کے خارج میں بھی اس کا حکم جاری ہو جائے، یہاں تک کہ اس کی زندگی کا کوئی پہلو اس سے مستثنیٰ نہ رہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ہر لحاظ سے وہ اپنے پروردگار کا بندہ بن جائے‘‘(صفحہ66،67)۔
جاوید صاحب کے نزدیک یہ دین ایک تہذیبی وجود میں ظہور کرتا ہے۔وہ اپنی تہذیب میں در آنے والی بعض خامیوں سے باخبر ہوتے ہوئے بھی اس سے الگ ہونے کے لیے تیار نہیں۔انہوں نے لکھا: ''...بہت کچھ اصلاح کا متقاضی ہے،لیکن اس سب کچھ کے باجود یہ بہر حال میری تہذیب ہے۔میں ہر وقت اس میں اصلاح کے لیے تیار ہوں،لیکن اس کو چھوڑ کرمیں مغربی تہذیب کو اختیار کر لوں،یہ میرے لیے کسی طرح ممکن نہیں ہے۔مجھے معلوم ہے کہ مغربی تہذیب اس وقت دنیا کی غالب تہذیب ہے اور میری قوم کے کارفرما عناصر اس سے اس قدر مرعوب ہو چکے ہیں کہ ان کی ساری جدو جہد اب اس کو پوری طرح اپنا لینے ہی میں لگی ہوئی ہے۔ میں جانتاہوں کہ انہیں یہ بات اب بہت آسانی کے ساتھ نہیں سمجھا ئی جا سکتی کہ دین اگر اپنی تہذیبی شناخت سے محرو م ہوجائے تو اس کی حیثیت پھر اس آفتاب کی سی ہوجا تی ہے جو آ سمان پر نمودار تو ہوا ؛لیکن گہرے بادلوں کے پیچھے سے اپنی شعاعیں ہماری زمین تک پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکا... میں مانتا ہوں کہ اسلام کا کوئی لباس نہیں، لیکن مجھے اصرار ہے کہ اسلامی لباس صرف وہی ہے جس کا ارتقا اسلام کے آ غوش میں ہوا ہو۔میں تسلیم کر تا ہوں کہ اسلام کا کوئی فنِ تعمیر نہیں۔ لیکن مجھے اصرا رہے کہ وہ فن ِتعمیرجو اسلام کے بطن سے تولد نہیںہوا، وہ میرے لیے وہ ماحو ل اور وہ فضاکبھی میسر نہیں کر سکتا جس میں اسلام کی خوشبو میرے گردو پیش میں پھیلی ہو ئی محسوس ہو... مجھے ان سب باتوں پر اصرار ہے اور میں پورے پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اسلام کی جنگ اگر تہذیب کے میدان میں ہار دی گئی تو پھر اسے عقائد اور نظریات کے با ب میں جیتنا بھی بہت مشکل ہو جائے گا... میں صرف فکرِ مغرب ہی کو نہیں،اُس کی تہذیب کو بھی اپنے وجود کے لیے زہرِ ہلاہل سمجھتا ہوں؛ چنانچہ میں جس طرح اس کے فکری غلبہ کے خلاف نبردآزما ہوں،اسی طرح اس کے تہذیبی استیلا سے بھی برسرِجنگ ہوں۔‘‘ (مقامات)۔ اس باب میں جاویدصاحب اتنے حساس ہیں کہ میں اگر اپنے مشاہدات بیان کروں تو لوگوں کو حیرت ہو۔
ماضی قریب میںمادہ پرستی کی اساس پر دو طرح کے نظریات نے جنم لیا۔سرمایہ داری اور اشتراکیت۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے، 1979ء میں جاوید صاحب نے لکھا:''ارتکازِ دولت کی کرشمہ سازیاں جسدِ انسانیت میں بدروح کی طرح حلول کر گئی ہیں۔کریملن کی سنگین دیواروں اورنیویارک کی فلک بوس عمارتوں پر اسی آسیب کا قبضہ ہے... تین صدیوں کے ہمہ گیر غلبہ و استیلا کے بعد یہ عفریت اپنے گھر لوٹ آیا لیکن اس کے پہلو سے ایک نیا فتنہ جنم لے چکا ہے۔ہمالہ کی دیوار کو یاجوج و ماجوج چاٹ رہے ہیں اور خدا کے بندے ایک مرتبہ پھر تاریخ کے محشر میں کھڑے ہیں‘‘۔(مقامات)۔اس عبارت کی روشنی میں چین کی سرمایہ کاری کو دیکھیں تو ایک اور تصویر سامنے آتی ہے لیکن یہ داستان پھر کبھی۔
یہ اُس آ دمی کی تحریریں ہیںجسے کہا جارہا ہے کہ وہ سیکولر ہے اور مادہ پرست ۔میں نہیں جانتا کہ یہ کس کا فیضان ہے،جبری شاگردی کا‘ کم نگاہی کایا اُستاد سے صحبت کی محرومی کا ؎
تری نگاہ فرومایہ‘ ہاتھ ہے کوتاہ
ترا گنہ کہ نخیلِ بلند کا ہے گناہ