پرویز رشید صاحب اتنا ہی کہہ سکتے تھے۔امان عام شہری ہی کو نہیں،ایک وزیر کی بیٹیوں کو بھی چاہیے!
ایک عمومی غلط فہمی کا بہرحال ازالہ ہوگیا۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ اقتدار کا ایوان طاقت کا واحد مرکز ہے۔ کبھی ایسا ہو تا تھا۔ اب طاقت کے بہت سے مراکز وجود میں آ چکے ہیں۔ اُن کے خلاف بات ہو سکتی ہے نہ قلم اٹھایا جا سکتا ہے۔طاقت کیا ہے؟ یہی کہ جو اظہار کی آزادی چھین لے۔ کبھی یہ کام حکومتیں کرتی تھیںکہ طاقت اور حکومت مترادف الفاظ تھے۔ آج حکومتیں طاقت کے اِن مراکز کے سامنے بے بس ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ مراکز کیسے وجود میں آئے؟
دینی مدارس ہی کی مثال لے لیجیے! مقدمہ یہ قائم کیا گیا ہے کہ مدرسہ اور دین مترادف ہیں۔ مدرسے پر تنقید کا مطلب دین پر تنقید ہے۔ یوں جب کوئی دینی مدرسے کے نصاب یا ماحول پر زبان کھولتا ہے، یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ دین کے خلاف گفتگو کررہا ہے۔ دین مگرکیا ہے؟ سب مانتے ہیں کہ قرآن و سنت ۔ سوال یہ ہے کہ سماج میںجو کوئی قرآن و سنت یا شریعت کا نام لے کر کچھ کہہ دے ،کیا ہم اسے دین مان لیں گے؟ 1985ء میں اس ملک کے ایوان بالا میں 'شریعت بل ‘ پیش ہوا۔ اس کے محرک مولانا سمیع الحق اور قاضی عبداللطیف مرحوم تھے۔ مخالفت کرنے والوں میں مولانا فضل الرحمٰن اور علامہ احسان الٰہی ظہیر بھی تھے۔ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ شریعت بل کا مخالف شریعت کا مخالف ہے؟ کیا مولانا فضل الرحمٰن اور علامہ احسان الٰہی ظہیر کے بارے میں یہ فتویٰ دیا جا سکتا ہے؟
میرے سامنے وہ اشتہار رکھا ہے جو 8 مئی2015ء کے تمام اخبارات میں، حکومت پنجاب کی طرف سے شائع ہوا۔ یہ 150کتب اور سی ڈیز کی فہرست ہے جن پر علما کی سفارش پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اس فہرست میں مولانا عبدالستار خان نیازی اور علامہ احسان الٰہی ظہیر جیسے علما کی کتابیں بھی شامل ہیں۔ یہ اشتہار علما کی طرف سے اعلان عام ہے کہ دین کے نام پر سماج میںجو کچھ پیش کیا جاتا ہے، اسے دین نہیںکہا جا سکتا۔ دین میں حجت قرآن ہے یا سنت۔ ہمارے امام احمد بن حنبل نے خلقِ قرآن کے مسئلے پر دوٹوک اعلان کیا تھا : قرآن و سنت سے کوئی دلیل لے آؤ ،میں قبول کر لوںگا۔اس کے سوا مجھ کچھ قبول نہیں۔ آج مگر صورت حال بدل چکی۔ اب تو مولانا فضل الرحمٰن بھی مدارس اور دین کو مترادف قرار دے رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کی سیاسی قوت کا منبع یہی مدارس ہیں۔ یہاںکے اساتذہ چند ہزار روپے تنخواہ لے کر،کس مپرسی کی زندگی گزارتے اور طلبا کو دین پڑھاتے ہیں۔ یہ با ت مگرمعلم جانتا ہے نہ متعلم کہ کہیں اور ،کوئی اور،ان کی قیمت وصول کر رہا ہے۔اُس کے نزدیک یہ مدارس دین نہیں، طاقت کے مراکز ہیں۔ وہ جب چاہے، ان کے جذبات سے کھیلے۔طالب علموں کودرس گاہ سے اٹھاکر سڑکوں پر لے آئے۔یہ کھیل دنیاوی تعلیم کے طلبا کے ساتھ اہلِ سیاست اور اہلِ مذہب ایک مدت سے کھیل رہے ہیں۔اس میں کامیابی کے بعد،اب لگتا ہے کہ اسی فارمولے کو دینی مدارس کے طلبا پر بھی آ زمایا جا رہا ہے۔
طاقت کا ایک مرکز میڈیا بھی ہے۔ اہل صحافت یہ تاثر دیتے ہیں کہ صحافی اور آزادیٔ رائے مترادف الفاظ ہیں۔ صحافی کے خلاف کچھ کہنا، آزادی رائے کو مجروح کرنا ہے۔ میڈیا یہ حق رکھتا ہے کہ جس کی چاہے ،پگڑی اُچھال دے۔ جس کا چاہے خاکہ اڑائے۔ عالم، سیاست دان، کھلاڑی کوئی اس کی دسترس سے باہر نہیں۔ دوسری طرف اگر کوئی صحافی کے بارے میں بات کرے تو اس سے آزادیٔ رائے خطرے میں گھر جاتی ہے۔
میڈیا اب طاقت کا ایک اور مرکز ہے۔ حکومت جس طرح مدارس کے سامنے بے بس ہے اسی طرح میڈیا کے سامنے بھی۔ طاقت کے دوسرے مراکز کا ذکر میں دانستہ نہیں کر رہا۔ جیسے سیاست دان، جیسے جاگیر دار، سرمایہ دار ۔ ان کے بارے میں تو کسی کو شک نہیں۔ یہ صدیوں سے ہی طاقت کے مراکز ہیں۔ مدارس اور میڈیا کے بارے میں چونکہ غلط فہمی ہوتی ہے، اس لیے میں نے بالتفصیل ان کا ذکر کیا۔ مدارس دین کا نام لیتے ہیں۔ میڈیا آزادیٔ رائے کا۔اب کون ہے جو دین یا آزادیٔ رائے کی مخالفت کا الزام اپنے سر لے سکتا ہے؟
علما کا کام قرآن مجید نے بتایا ہے کہ وہ انذار کرتے ہیں۔ انذار کا مطلب ہے آخرت کے بارے میں خبردار کرنا اور لوگوں کو یاد دلانا کہ انہیں مرنا اور اپنے رب کے حضور میں پیش ہونا ہے۔ وہ دین کے باب میں اٹھنے والے سوالات کے جواب دیتے ہیں۔ دین کو درپیش نظری چیلنجوں کا سامنا کرتے ہیں اور ان لوگوں تک دین کی دعوت پہنچاتے ہیں جو اس نعمت سے محروم ہیں۔ یہ عامۃالناس کے ساتھ خیر خواہی اور محبت کا تعلق ہے۔ یہ داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ اس مقصد کے لیے دینی مدارس قائم ہو تے اور اسی کے لیے دینی ادارے بنتے ہیں۔ علماء کا سماجی کردار اصلاً یہی ہے۔ پرویز رشید صاحب نے جب دینی مدارس کو موضوع بنایا تو کیا کسی نے انہیں مدعو سمجھا؟ میری نظر سے صرف ایک ایسا مضمون گزرا جو داعیانہ جذبہ لیے ہوئے تھا۔ یہ برادرم امیر حمزہ کا تحریر کردہ ہے جو '' دنیا‘‘ کے ادارتی صفحے پر شائع ہوا۔ یہ مضمون ایک عالم کے شایان شان تھا۔
اسی طرح میڈیا کا کام سماج کو با خبر رکھنا اور اس کی تعلیم کا اہتمام کرنا ہے۔ ایک کالم پڑھ کر اگر لوگوں کو سوچنے کے لیے کچھ نہ ملے، ان کی معلومات میں کوئی اضافہ نہ ہو، زبان و بیان کے حوالے سے ان کی تربیت نہ ہو تو کالم نگاری محض وقت کا ضیاع اور اخباری کاغذ کا سوئے استعمال ہے۔ اسی طرح ایک ٹاک شو سے بھی اسی نوعیت کا کوئی نتیجہ نہ نکلے تو ایک اینکر کو سوچنا چاہیے کہ کیا اس نے اپنی ذمہ داری دیانت داری سے نبھائی؟ ان دنوں کالم ہو یا ٹاک شو ،الّا ماشا اﷲ، معاملہ وہی ہے جو اقبال نے بیان کیا ہے ع
نہ زندگی‘ نہ محبت‘ نہ معرفت‘ نہ نگاہ
ایک مہذب سماج میں طاقت کا مرکز ایک ہی ہوتا ہے: ریاست۔ تاہم یہ بھی بے لگام نہیں ہوتی۔ آئین ریاست کی تحدید کرتا ہے۔اسے ' رول آف لا ‘ کہتے ہیں۔ ریاست کی طاقت بنیادی انسانی حقوق کو پامال نہیں کر سکتی۔ وہ سب کو قانون کا پابند رکھتی ہے۔ ریاست کے علاوہ ایک مہذب سماج میں طاقت کا کوئی دوسرا مرکز نہیں ہوتا۔ طاقت کو میں یہاں خارجی حوالے سے بیان کر رہا ہوں۔ اس کا مطلب ہے جزا و سزا کا اختیار۔ آزادیٔ فکر و عمل پہ کوئی قدغن ۔ یہ کام صرف ریاست کر سکتی ہے اور وہ بھی آئین کے تحت۔ ریاست کے سوا کوئی یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ کسی کو بالجبر کسی کام سے روکے یا اس کی آزادیٔ رائے پر کوئی قدغن لگائے۔ دین اس بات کو قبول کرتا ہے نہ دور جدید کی ریاست۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مدارس ہوںیا میڈیا ہو یا کوئی اور، سب اپنی اپنی حدود کے پابند ہیں۔ مدارس اور دین مترادف ہیں نہ میڈیا اور آزادیٔ رائے۔ پرویز رشید صاحب بھی شایدیہی کہنا چاہتے تھے، مگر وہ باپ ہیںاوروزیر بھی۔کاش کوئی اُن کی باتوں کے بین السطور جھانک سکے!