اطلاع ہے کہ دہشت گردی میں ملوث بعض نوجوان جدید تعلیم یافتہ اداروں کے فارغ التحصیل تھے! تو کیا مدارس بلا وجہ سب کے تیروںکا ہدف ہیں؟
21مئی کو میں گجرات یونیورسٹی کی ایک کانفرنس میں شریک تھا۔ کانفرنس کا عنوان، اس سوال سے جڑا ہواتھا۔ '' اسلام اور سماج: جامعات کا کردار‘‘۔ چند روز پیشتر جب برادرم شیخ عبدالرشید نے اس کانفرنس کے لیے مدعو کیا تو میں نے اُن کے زر خیز ذہن کی داد دی۔ معلوم ہوا کہ یونیورسٹی کے جواں سال وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا القیوم، اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نئی نسل اپنی مذہبی اور تہذیبی روایت سے بچھڑ نے نہ پائے۔
اس یونیورسٹی نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا۔ پہلے وائس چانسلر،ڈاکٹر نظام الدین نے ویرانے میں ایک گلستان آباد کر دیا۔ وہ جب رخصت ہوئے تو کم و بیش پندرہ ہزار طلبا و طالبات یہاں زیر تعلیم تھے۔ ڈاکٹر ضیا القیوم کا خیال ہے کہ محض سنگ و خشت سے نئے جہان آبادنہیں ہوتے ۔ڈاکٹر نظام الدین کی مساعی کو آگے بڑھاتے ہوئے، وہ یہاں علم و فضل کے نئے چراغ روشن کر نا چاہتے ہیں۔ یہ کانفرنس بھی اسی سفر کا ایک سنگ میل تھی۔
پاکستان کی جامعات سماج پر اثر انداز ہو رہی ہیں یا سماج جامعات پر؟ میں نے اس سوال کو موضوع بنایا۔میرا جواب تھا: سماج جامعات پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ یونیورسٹیوں میں اسلام کی وہی تعبیر فروغ پزیر ہے ، جو اس ملک میں مذہبی یا مذہبی سیاسی جماعتوں نے پیش کی۔ اعلانِ عام کے ساتھ،جامعات کو اپنے نظریات کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا۔ کسی نے چاہا کہ یونیورسٹیوں سے سرخ انقلاب کے عَلم نکلیں۔ کسی نے سبز انقلاب کے لیے ہراول دستے تیار کیے۔ سرخ انقلاب 1989ء میں اپنے انجام کو پہنچا۔ اس کے انتقال پُر ملال سے پہلے کا عشرہ شدید نظریاتی کشمکش کا عہد تھا۔ اس دوران میں جدید تعلیمی اداروں کے طلبا کو ابھارا گیا کہ وہ جس اسلامی انقلاب کے لیے نظریاتی جنگ لڑتے رہے ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان میں اس کے عملی نفاذ کے لیے بندوق اٹھا لیں۔ یہ حکمت عملی اشتراکی فکر کی دین تھی۔ انقلاب کے لیے مسلح جد و جہد۔
یہ سفر پھر رکا نہیں۔ فکر اور وسائل موجود تھے، اہداف البتہ بدلتے گئے۔اشتراکیت کے بعد نیا ہدف امریکہ تھا۔ افغانستان میں ریاست نے دینی مدارس کو بھی ملوث کر دیا گیا۔ اس دربار میں جدید اور قدیم تعلیم کے طلباایک ہو چکے تھے۔ طاغوت کے خلاف جہاد اور مسلمانوں کے اقتدار کا قیام۔ اس باب میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام ایک صفحے پر تھیں اور بدستور ہیں۔ آج دینی مدارس کی سب سے بڑی وکیل جماعت اسلامی ہے۔ فکر مودودی کے فیض یافتہ ایک دوست کالم نگار نے گزشتہ روز پرویز رشیدصاحب کی مذمت کرتے ہوئے دینی مدارس کا مقدمہ پیش کیا۔ دلیل یہ دی کہ مدارس نے مولانا فضل الرحمن جیسی نابغہ ء روز گار شخصیات کو جنم دیا۔ یہ ہے وہ نقطہ جہاں اہل روایت( Traditionalits) اور مصلحین (Reformists) کا اتصال ہو رہا ہے۔ مصلحین نے روایتی دینی تعبیر اختیار کر لی اور اہل روایت نے '' سیاسی اسلام‘‘کو قبول کر لیا۔ اس کے بعد اگر مدرسے اور یونیورسٹی، دونوں مقامات پر ایک ہی سوچ کا غلبہ ہے تو یہ کچھ ایسا ناقابل فہم نہیں ہے۔ سلیم شہزاد مرحوم نے آخری تحریروں میں بتا یا تھا کہ کس طلبا تنظیم کے نو جوان القاعدہ میں شامل ہو رہے ہیں۔
اس بحث کو ایک دوسرے زاویے سے بھی دیکھیے۔ ' سیاسی اسلام‘ کی تعبیر ‘ اہل مذہب کے دیو بندی حلقے میں زیادہ مقبول ہوئی۔ اس کا ایک تاریخی سبب بھی ہے۔ برّ صغیر کی دینی روایت میں اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کے لیے جو مسلح جد و جہد ہوئی، وہ علمائے دیو بند سے منسوب ہے۔ سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل اگرچہ 1831ء میں شہید ہوئے ، لیکن اہل دیو بند خود کو اسی روایت کا تسلسل کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب 'سیاسی اسلام ‘ اپنی فکری تشکیل کے ابتدائی مراحل میں تھا تو اہلِ دیو بند نے اس کی شدید مخالفت کی۔ سید قطب اور مولانا مودودی تنقید کی زد میں رہے۔ آج اخوان کے تربیت یافتہ یوسف القرضاوی 'فقہ الجہاد‘ لکھتے اورمولانا مودودی کے تصور جہاد پر شدید نقد کررہے ہیں۔ دوسری طرف بر صغیر میں اہل دیو بند نے اس کو اپنا لیا ہے۔
ہمارے ہاں جامعات میں سب سے زیادہ اثرات جماعت اسلامی کے ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے اس محاذ پر طویل نظری جد و جہد کی ہے۔ یہ کوئی انکشاف نہیں کہ جمعیت کے نوجوان عملاً
جہاد افغانستان میں شریک ہوئے۔قاضی حسین احمد اور منور حسن صاحب، دونوں کے ادوارِ امارت میں اس تصورِ جہاد کی بھرپور آبیاری ہوئی۔ اخوان سے مستعار یہ نعرہ، جمعیت کے اجتماعات میں برسوں سے گونج رہا ہے کہ 'سبیلنا سبیلنا: الجہاد الجہاد‘۔ منور صاحب کے دور میں امریکہ کے خلاف لڑنے والا ہر آدمی قابل تحسین ٹھہرا۔ حکیم اﷲ بھی اور اسامہ بھی۔نوجوان ظاہر ہے کہ اس سے اثرات قبول کرتے ہیں۔ دوسری طرف حزب التحریر اور القاعدہ نے بھی جدید پڑھے لکھے نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لیے ایک منظم حکمت عملی بنائی اورجدید ابلاغی ایجادات کا بھر پور استعمال کیا۔ اس کے بعد اگر دہشت گردی میںملوث لوگ جامعات سے نکل رہے ہیں تو اس پر کسی کو حیرت نہیںہونی چاہیے۔ دین کی یہ تعبیر اس وقت مدارس اور جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں میںیکساں مقبول ہے۔
ڈاکٹر خالد مسعود صاحب نے گجرات یونیورسٹی کی کانفرنس میں ایک اہم نکتہ اٹھایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ طبعی علوم سے متعلق نوجوان اگر اس تعبیر دین کی طرف راغب ہیںتو اس کا ایک سبب ہے۔ سائنس میں ریاضی کے فارمولوں کا غلبہ ہوتا ہے، جس میں دو اور دو ہمیشہ چار ہوتے ہیں۔ سماج میں اس طرح نہیں ہوتا۔ طبعی علوم حاصل کرنے والے جب سماج میںکوئی کردار ادا کرتے ہیں تو وہ اس فارمولے کے تحت سماج کی تعبیر کرتے ہیں۔ اسلام یا کفر۔ مسلمان یا امریکہ۔ ان کے لیے درمیان میںکوئی راستہ نہیں۔ یوںوہ دینی تعبیر انہیں زیادہ متاثر کرتی ہے جو زندگی اور سماج کو سیاہ سفید کے دو واضح دائروںمیں تقسیم کرتی ہے۔ حزب اﷲ یا حزب الشیطان۔ اس تعبیر کے تحت اگر آپ القاعدہ کے ساتھ نہیںتو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آپ امریکہ کے ساتھی ہیں، لہٰذا واجب القتل ہیں۔ امریکی صدر بش بھی اسی کے قائل تھے۔ جو امریکہ کے ساتھ نہیں، وہ دہشت گردوں کے ساتھ ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس کی بنا پرمیں یہ کہتا ہوںکہ سماج میںرائج تصورِ اسلام جامعات پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ترقی یافتہ دنیا میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں جامعات کسی خاص فکر کی آبیاری کے لیے نہیں ہوتیں۔ وہ اس لیے ہوتی ہیں کہ فکری ارتقا کے لیے مہمیز بنیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت مغرب میں سماج اور سیاست کے باب میں جو تصورات رائج ہیں، انہوںنے سب سے پہلے یونیورسٹیوں میں جنم لیا۔' تہذیبوںکے تصادم ‘سے لے کر '' اختتام تاریخ ‘‘ تک کے سب نظریات کی پہلی گود یونیورسٹی اساتذہ کے ذہن تھے۔
ہمیںاس ترتیب کو بدلنا ہے۔ جامعات فکری راہنمائی کے لیے سب سے توانا فورم بن سکتی ہیں۔ یہاںتحقیق کے جدید ذرائع موجود ہیں۔ حقیقی اہل علم ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر زرخیز اور نوجوان ذہن ہے۔ اگر ہم انہیں ایک آزاد ماحول فراہم کر سکیں تو مجھے امید ہے کہ یہاں سے اسلام کی وہ تعبیرات بھی سامنے آئیں گی جو عہد حاضر کا سب سے مضبوط علمی مقدمہ بن سکتی ہیں۔ اس کے بعد سماج، جامعات پر اثر انداز نہیںہو گا، جامعات سماج کی فکری تشکیل کریںگی۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ یونیورسٹیوں میں فکری ارتقا کے عمل کو فطری انداز میں آگے بڑھایا جائے۔ ڈاکٹر ضیاالقیوم نے اس تالاب میں پہلا پتھر پھینکا ہے۔ دیکھیے، اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے!