قحط میںموت ارزاں ہو تی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔یہ فرمان ہے جناب مختار مسعود کا۔ہمارا میڈیا بھی ایک قحط سے دوچار ہے۔یہ مو ضوعات کا قحط ہے۔اس میں اگر کوئی شے ارزاں ہے تو وہ دانش ہے۔ ایک ایسالفظ جو اپنی معنویت کھو چکا۔ آج ہر چینل پر بہت سے دانش ور پائے جاتے ہیں‘ دانش کا مگر کہیں سراغ نہیں ملتا۔ الاما شااللہ۔
سرِشام سکرین آراستہ ہوتی ہے اورکہیں رات گئے پردہ گرتا ہے۔اس کے بعد انہی پروگراموں کی جگالی ہے۔اس دوران میں،آخر سکرین کو متحرک رہنا ہے۔یہ 'تحریک‘ نئے نئے مو ضوعات کا مطالبہ کر تی ہے۔زندگی رواں دواں سہی لیکن ایسی بھی کیا کہ وقت کی صراحی سے مسلسل مئے حوادث ٹپکتی رہے۔ اس پر مستزاد 'حالاتِ حاضرہ‘ کی قید۔دلاور فگار پہلے ہی کہہ چکے کہ حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہوگئے ۔مو ضوعات کے اس قحط میں دانش کام آتی ہے جو زندگی کے دامن سے لپٹے ان حادثات کو بھی دیکھ لیتی ہے جو ابھی پردۂ غیب میں ہیں۔ 'آبِ روانِ کبیر‘کے کنارے لوگ ہر روز بیٹھتے اور اٹھ جاتے ہیں۔اقبال کا بیٹھنا مگر اور طرح کا ہے۔وہ کسی اور زمانے کا خواب دیکھتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں:
عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
اقبال تو دور کی بات، اب کوئی ایسا بھی نہیں جو کلامِ اقبال ہی کو جانتا ہو۔مجلس آرائی لازم ہے مگر مو ضوعات نہیں ہیں۔ اب کیا کیا جائے؟ذوق ہو تو ایک پھول کا مضمون سو طرح سے باندھا جا سکتا ہے۔ذوق جنسِ بازار تو ہے نہیں۔اس لیے تکرار ہے بلکہ تکرارِ مسلسل۔آپ کہیں گے تکرار میں استمرار پو شیدہ ہے، اس لیے مسلسل اضافی ہے۔میرا جواب ہے کہ یہ استمرار مبالغے کا تقاضا کرتا ہے۔محض تکرار سے وہ قحط کا بیان محال ہے جو مو ضوعات کے باب میں درپیش ہے۔اب ایک مو ضوع ہاتھ آجائے تو سب اس کے شکار کے لیے لپکتے ہیں۔ان دنوں ایک شکار این جی اوز ہیں۔اردو میں یہ غیر سرکاری تنظیمیں کہلاتی ہیں۔اردو مگر اس 'شناخت‘ کو بیان نہیں کر تی جو انگریزی سے وابستہ ہے۔ اس لیے یہ غیر سرکاری تنظیموں کا نہیں این جی اوز کا ذکر ہے۔
مادے کی بنیاد پرزندگی کا جو بیانیہ وجود میں آ یا ہے،اس کے مظاہر ہر دور میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں کہ مادے کی ماہیت ایک نہیں رہتی۔مادہ جب حاکم ہے تو وہی زندگی کے ہر شعبے کی صورت گری کرے گا۔پھرمعیشت ہی نہیں، سیاست اور سماج بھی اس بیانیے کے تابع ہو ں گے۔سادہ لفظوں میں سرمایہ دارانہ نظامِ ِ معیشت ایک خاص طرزِسیاست کو لازم ٹھہرا تا ہے۔سیکولر ازم اور جمہوریت اس کے ناگزیر اجزائے ترکیبی ہیں۔ریاست کو ایک ماخذِ قانون کی ضرورت ہے۔اگر یہ الہام نہیں ہے تو پھر انسانی عقل ہے۔عقل کوزیرِ دام لا یا جا سکتا ہے کہ وہ رشوت لے لیتی ہے۔سرمایہ مگرایک وقت تک ریاست کے وجود کو قبول کر تا ہے۔جمہوریت کے بعض نتائج ایسے ہیں جو سرمایے کے اضافے میں حائل ہوتے ہیں۔جمہوریت سے کچھ ایسے لوگ ریاست کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں جن کا تعلق اہلِ سرمایہ سے نہیں ہوتا۔اس کے توڑ کے لیے خود سرمایے نے 'سول سوسائٹی‘ کو وجود بخشا۔
سول سوسائٹی اب پارلیمنٹ کے مقابلے میں ایک توا نا آ واز ہے جوقانون سازی پر اثر انداز ہو تی ہے اوریوںطاقت کا ایک نیا مرکز وجود میں آچکاہے۔سرمایہ جمہوریت کی طرح اس کو بھی استعمال کرنے لگا۔دنیا کے تمام بڑے سرمایہ دار اور ملٹی نیشنلز نے ایسے فنڈز قائم کر رکھے ہیں جو مختلف عنوانات سے سول سوسائٹی کے لیے مختص ہیں۔یہ کام عالمی قوتیں بھی کرتی ہیں۔اب جمہوریت سے فرا رکا کوئی راستہ ہے اور نہ سول سوسائٹی سے۔سول سوسائٹی کووہ حصہ جو زیادہ تر غیر ملکی عطیات سے زندہ ہے ،اسے ہم این جی اوز کہتے ہیں۔ان دنوں انہی کے خلاف ایک ہنگامہ برپا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام نے جو آلات اپنے استحکام کے لیے استعمال کیے،ان کی اساس عوامی تائید ہے۔جمہوریت عوام کے بغیر بے معنی ہے اور سول سوسائٹی بھی۔واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت اور سول سوسائٹی سرمایہ دارانہ نظام کی ایجاد نہیں۔یہ بات البتہ درست ہے کہ اس نظام نے ان کی صورت گری اس طرح کی کہ وہ سرمایہ داری کے ہتھیار بن گئے۔یہ ایسے ہی ہے کہ مدرسہ امریکہ کی 'ایجاد‘ نہیں ہے‘ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ اس نے مدرسے کو افغانستان میں استعمال کر نے کی کوشش کی۔سوئے استعمال سے کوئی شے فی نفسہٖ حرام نہیں ہو جاتی۔جس طرح مدرسے کو مضر اثرات سے نکال کر خیر کی علامت بنا یا جا سکتا ہے، اسی طرح جمہوریت اور سول سوسائٹی کے سوئے استعمال کو رو کنے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے وجود ہی کی نفی کر دی جائے۔
اس وقت ملک میں دو طرح کی این جی اوز ہیں۔ایک وہ جو بین الاقوامی ہیں اور کم و بیش ہر ملک میں مو جود ہیں۔ان میں وہ بھی ہیں جو 1950ء کی دہائی سے سرگرم ہیں۔ دوسری وہ جو مقامی ہیں مگر ان کے ڈونرز بیرون ِ ملک ہیں۔ان تنظیموں اور اداروں کے لیے ملک میں قوانین مو جود ہیں۔ملک کا قانون ان اداروں کوغیر ملکی ڈونرز کے ساتھ معاملہ کر نے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ سرگرمی اگر قومی مفادات اور سماجی ضرویات سے ہم آہنگ ہے تو ان کا وجود خیر کا باعث ہے۔حکومت کا یہ حق ہے کہ وہ ان اداروں کو قانون کا پابند بنائے۔ اگر کہیں کوئی کمزوری ہے تو اس کی نشان دہی کرے ۔اگر کوئی بات قابلِ گرفت ہے توملک کے قانون کے تحت معا ملہ کرے۔یہ ایک سادہ سی بات ہے جس سے کوئی معقول آ دمی اختلاف نہیں کر سکتا۔
تاہم اس میں ایک نزاکت کا خیال رہنا چاہیے۔تیسری دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ کے لیے بہت سی این جی اوز کام کر تی ہیں۔آمرانہ مزاج رکھنے والی حکومتوں کو یہ گراں گزرتا ہے۔ یوں وہ ملکی مفاد کے نام پر ریاست کی قوم کا ناجائز استعمال کرتی ہیں۔اس کی روک تھام بھی لازم ہے۔اس سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ حکومت اگر کہیں بے قاعدگی دیکھتی ہے تو اپنا مقدمہ عدالت کے سامنے ثابت کرے۔ یوں کارروائی کا حق عدالت کے پاس ہو نا چاہیے جو ظاہر ہے کہ ریاست ہی کا ایک ادارہ ہے۔
ایک قابلِ توجہ پہلو اور بھی ہے۔سماج کی تعمیر کے لیے شعوری تبدیلی ناگزیر ہے۔اگر کوئی سماج انسانی حقوق، جمہوریت، آزادی رائے اور محروم طبقات کے بارے میں بے پروا ہے تو اسے مہذب نہیں کہا جا سکتا۔ہمارے ہاں لوگ انفاق تو کرتے ہیں لیکن یہ بات کبھی ان کی سمجھ میں نہیں آ سکی کہ سماج کو ان معاملات میں حساس بنانے کے لیے پیسہ خرچ کرنابھی انفاق ہے۔یوں ایسے امور پر سماجی تربیت کر نے والی غیر سرکاری تنظیمیں مجبور ہوتی ہیں کہ غیر ملکی عطیات پر انحصار کریں۔اس باب میں ان کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا احسان فراموشی ہے۔ اگرمعاملے کا یہ پہلو بھی پیش ِنظر رہے توہم افراط و تفریط سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
یہ شاید ممکن ہو مگر موضوعات کے اس قحط کا کیا کیا جائے، میڈیا کو جس کا سامنا ہے۔اسے تو ٹی وی سکرین کو مسلسل متحرک رکھنا ہے۔مو ضوعات کی کمی نہیں ہے کہ سیاست، معیشت،سماج اور مذہب کے باب میں ان گنت مو ضوعات ہماری تو جہ چاہتے ہیں۔ اس کے لیے مگر دانش کی ضرورت ہے۔رونا تو اسی کے قحط کا ہے۔ہم ان مسائل کا ادراک رکھتے ہیں اور نہ انہیں زیرِ بحث لاتے ہیں۔اس لیے فی الحال این جی اوز سے گزارا کیجیے، یہاں تک کہ وقت کی صراحی سے مئے حوادث کا کوئی اور قطرہ ٹپکے۔