پیپلزپارٹی کو اب انتخاب کرنا ہے: نئی قیادت یا پھر سیاسی موت۔ اس نامۂ اعمال کے ساتھ زرداری صاحب اب پارٹی کے لیے ایک بوجھ ہیں۔
سیاسی جماعتیں،اس ملک میں اپنی قیادت کی پناہ گاہیں ہیں۔ داخلی احتساب کا کوئی نظام کہیں مو جود نہیں۔ لیڈر جرم کر تا ہے اور پھر جماعت اس کی پشت پر کھڑی ہو جا تی ہے۔ یوں سیاسی جماعتیں ایک فرد یا ایک خاندان کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ پیپلزپارٹی کا معاملہ بھی یہی بھی ہے۔ گزشتہ عام انتخابات کے نتائج سے اگر عبرت پکڑی جاتی اور یہ جماعت سندھ میں گڈ گورننس کی راہ اپنا تی تو آج یوں تنہا نہ ہوتی۔ پارٹی کا مقدمہ اب جتنا بھی وزن رکھتا ہو، اگر زرداری صاحب اسے پیش کریں گے تو کمزور ہو جا ئے گا۔ اخلاقی طاقت پشت پر نہ ہو تو سیاسی مقدمہ محض دلائل سے نہیں جیتا جا سکتا۔ یہ مان لینا چاہیے کہ ان کے خلاف عدالت میں کوئی جرم ثابت ہو نہ ہو، جرائم میں لپٹا سندھ زبان ِ حال سے بتا رہا ہے کہ ان کی اخلاقی اساس اب باقی نہیں رہی۔
زرداری صاحب کو اس وقت تین غلط فہمیاں لاحق ہیں۔ ایک یہ کہ بھٹو خاندان کی عصبیت ابدی ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ اس عصبیت کے تنہا وارث ہیں۔ تیسرا یہ کہ وقت 2007ء سے آگے نہیں بڑھا۔ اگر وہ دنیا کی سیاسی تاریخ سے واقف ہوتے تو انہیں معلوم ہو تا کہ سیاست میں کوئی عصبیت دائمی نہیں ہوتی۔ بنو امیہ، بنو عباس اور دورِ جدید میںنہرو خاندان کی عصبیت۔ وقت نے سب کو قصہ پارینہ بنا دیا۔ بھٹو خاندان کو بھی کوئی استثنا حاصل نہیں۔ عصبیت آنے والی نسلوں کی ساکھ کے ساتھ مشروط ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ زرداری صاحب بھٹو خاندان کی عصبیت کے عارضی امانت دار تو بن سکتے ہیں، وارث نہیں۔ تاریخ نے ایک مرحلے پر یہ امانت ان کے سپرد کی۔ آج اس کے حقیقی وارث مو جود ہیں۔ اب معاملہ تحویل کا نہیں، ملکیت کا ہے۔ زرداری صاحب اس تیسری بات کا بھی ادراک نہیں کر سکے کہ ہم 2015ء میں جی رہے ہیں۔ قوم اس حادثے کی گرفت سے نکل چکی جس نے انہیں ایک امانت سونپی تھی۔ اب ناگزیر ہے کہ امانت حق دارکے سپرد کر دی جائے۔
پیپلز پارٹی کے پاس بقا کا واحد راستہ یہ ہے کہ پارٹی کی قیادت بلاول بھٹو کو سونپ دی جائے ۔ یہ انتقالِ قیادت، مگر لازم ہے کہ علامتی نہ ہو۔ یہ ایک نئے وژن اور حکمتِ عملی کی طرف منتقلی ہو۔ عوام کو یہ تاثر نہ ملے کہ بلاول والدِ گرامی کے مبینہ قابلِ اعتراض افعال ہی پر پردہ ڈالنے آئے ہیں اور یہ تبدیلی محض ایک چال ہے۔ انہوں نے عملی سیاست میں قدم رکھتے وقت، کراچی میں جوتقریر کی تھی، وہ اس میں بیان کر دہ ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھیں۔ سندھ حکومت کی کارکردگی پر توجہ دیں اور اسے بہتر بنائیں۔ انہیں اندازہ ہو نا چاہیے کہ بے نظیر صاحبہ کی الم ناک موت اور2015 ء کے مابین آٹھ سال حائل ہیں۔ اس میں پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت کے پانچ اور صوبائی حکومت کے آٹھ سال شامل ہیں۔ اس کا حساب دیے یا اس عہد سے عملی اعلانِ لاتعلقی کے بغیر، وہ بھٹو اوربے نظیر کے وارث نہیں بن پائیں گے۔ انہیں اب انتخاب کر نا ہے کہ پیپلزپارٹی کی بھٹو روایت کے وارث ہیں یا زرداری روایت کے۔ دونوںکو ایک ساتھ نبھانا شاید اب ممکن نہ ہو۔
پیپلزپارٹی کو ضائع نہیں ہو نا چاہیے۔ سندھ میں بنیاد رکھنے والی ایک قومی جماعت جو وفاق پر یقین رکھتی ہے، قومی یک جہتی کے لیے ضروری ہے۔ یہ ضرورت پیپلزپارٹی ہی پورا کر سکتی ہے۔ ہمیں ایک اور قومی جماعت بھی چاہیے جس کی اساس بلوچستان میں ہو لیکن قومی سیاست کی علمبر دار ہو۔ پختونخوا میں قوم پرستی مضبوط ہو نے کے باوجود، مرکز سے گریز کے رجحانات نہیں ہیں۔ اس کی وجہ افغانستان کی صورت حال ہے۔ یہ صوبہ اسلام آباد سے دور نہیں ہے۔ یہی نہیں پنجاب میں پختونوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ ان کے مفادات اس خطے سے وابستہ ہیں۔ اسلام آباد بھی اس صوبے سے محض ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔کراچی میں ہمیں معلوم ہے کہ پشاورسے زیادہ پختون آ بادہیں۔ پھر یہ کہ اس صوبے میں پختون شناخت کے احساس نے مرکز سے گریز کے بجائے مرکزکو کنٹرول کرنے کے جذبات کو جنم دیا ہے۔ اس لیے خیبر پختونخوا میںعلیحدگی کی کسی تحریک کے لیے فی الحال کو ئی جگہ نہیں۔ بلوچستان اور سندھ کا معاملہ یہ نہیں، اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ پیپلزپارٹی کا وجود ایک قومی ضرورت ہے۔
اگر ہم نے آج کرپشن کے نام پر غیر سیاسی انتقام کے جذبات کو فروغ دیا، جو ہم کر رہے ہیں تومجھے تشویش ہے کہ یہ جذبہ انتقام ایک نئے فساد کو جنم دے گا۔ اگر یہ انتقامی آوازیں لا ہور اور اسلام آباد سے بلند ہو ں گی تو ہمیں ضرور اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ انہیں سندھ میں کیسے سنا جا ئے گا۔ اس بات کا آہنگ بلند ہو رہا ہے کہ کیا کرپشن صرف کراچی میں ہے؟ کیا لاہور اور اسلام آباد میں کوئی کرپشن نہیں؟ میڈیا میں ایک طبقہ موجود ہے جو شد و مد سے یہ موقف پیش کر رہا ہے کہ کرپشن کا اصل مرکز تو اسلام آباد ہے۔ اس لیے آنے والے دنوں میں اس آواز کی گونج سارے ملک میں سنائی دے گی کہ پورا ملک رینجرز اورفوج کے حوالے کر دیا جائے۔کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟ کیا یہی ہمارے مسئلے کا حل ہے؟اس سوال کا جواب تلاش کرتے وقت جنرل مشرف صاحب کی بطور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر پہلی تقریر ایک بار پھرذہن میںتازہ کر لیجیے!
میں جب ان باتوں کی طرف توجہ دلا تا ہوں تو لوگ اسے کرپشن یا زرداری صاحب کی حمایت پر محمول کرتے ہیں۔ ایسے ناقدین کی خدمت میں یہی عرض ہے کہ وہ اس مقدمے کو سیاسی حرکیات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ دل میرا بھی یہی چاہتا ہے کہ اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو اور ہر لٹیرا (میں ، میرے دوستوں اور میرے آجر یا کاروباری رفقا کے علاوہ) اپنے منطقی انجام تک پہنچے۔ دنیا میں مگر کوئی تبدیلی دنوں میں نہیں آتی۔ یہی نہیں، اگر کسی قاعدے اور ضابطے کے بغیر آئے گی تو غیر پائیدار ہو نے کے ساتھ ساتھ، یہ بے قاعدگی ایک اور طرح سے سماج کو متاثر کرے گی۔ رینجرز یا فوج کے ہاتھوں ،ایک محدود آپریشن کی حمایت تو کی جا سکتی ہے، ایک مکمل متبادل کے طور پراس کی تائید نہیں کی جا سکتی۔ فوجی عدالتیں کبھی ناگزیر ہو جاتی ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان کو مستقل حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ اس کا مطلب ملک کے عدالتی نظام کو معطل کرنا ہے۔ اسی طرح اگر ہر مسئلے کا حل رینجرز یا فوج کے ذریعے تلاش کیا جائے گا تو اس کا ناگزیر نتیجہ ریاستی نظام کا مفلوج ہو نا ہے۔ فطری راستہ اس نظام کو فعال بنانا ہے۔
یہ کیسے ہو؟ اہلِ سیاست اور اہلِ صحافت کو اسی سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے۔ اس کے لیے سب سے زیادہ ذمہ داری پیپلزپارٹی کی ہے۔ سندھ حکومت اگر یہ چاہتی ہے کہ صوبے میں گورنر راج کا نفاذ نہ ہو تو اسے خود کو فعال بنانا ہوگا۔ اس کے لیے اسے صوبے اور عوام کے مفاد کے میںسوچنا ہو گا، کسی فرد کے دفاع میں نہیں۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کرگڈ گورننس کے ایک ماڈل پر اتفاق کرنا ہوگا۔ یہ طے ہے کہ یہ معاملہ اب کراچی تک رکنے والا نہیں۔ اونٹ کا سر خیمے میں آ چکا۔ بدو نے اگر اب بھی نہ سوچا تو اسے اپنا انجام دیکھ لینا چاہیے۔
ایک بات البتہ کبھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔ سیاسی مسئلے کا غیر سیاسی حل، نئے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ یہ مسائل اصل مسئلے سے کہیں زیادہ گمبھیر ہوتے ہیں۔ برسوں کے تجربات کے بعد بھی، اگر ہم اس کا ادراک نہ کر سکیں تو پھر ہماری داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔