رمضان کی دستک،العطش، العطش... الامان، الامان کے شور میں کہیں کھو گئی۔زندگی کے مو ضوعات بدل گئے... کہاں عشرہ ٔرحمت کا تذکرہ ،کہاں مرگِ انبوہ کا ماتم!تو پھر سماج اور مذہب کا باہمی تعلق کیا ہے؟
ہر شے کی تخلیق پانی سے ہوئی۔مذہب کا مقدمہ یہی ہے۔یہی پانی آج نایاب ہے۔اہلِ کراچی اس کی بوند بو ند کو تر س رہے ہیں۔پانی نہیں تو زندگی نہیں۔پانی استعارہ ہے زندگی کا۔پیاس کسی المیے کی شدت کو بڑھادیتی ہے۔کربلا کی داستان کو ذہن میں تازہ کیجیے!فرات کے کنارے پر ،پیاسے بچوں کا ذکر نہ ہوتا تو کیا اس المیے کا وہی تاثر قائم ہوتا جس کی یاد صدیوں سے انسانوں کو رُلارہی ہے اور آنسو ہیں کہ خشک ہونے میں نہیں آتے؟ سوال پھر اٹھتا ہے:سماج اور زندگی سے جدا کر کے، مذہب کا کوئی مقدمہ کیا قائم کیا جا سکتا ہے؟کراچی میں پانی اور مذہب الگ نہیں ہو سکتے۔
اسلام، جتنا میں جان پایا،جس ایک نکتے پر کھڑا ہے، وہ آخرت میں جواب دہی ہے۔خدا کے حضور میں پیشی اوراپنے اعمال کا حساب۔ وہ اعمال جو اس حیاتِ مستعارمیں سر زد ہوئے۔جزا اور سزا کا فیصلہ انہی کی بنیاد پر ہوناہے۔پیغمبر اس کی یاد دہانی کے لیے مبعوث کیے جاتے اورآسمان سے فرشتے یہی خبر لے کر اترتے رہے ہیں۔آج بھی وہ رمضان کی کسی شب آتے ہیںاوراللہ کی چادرِ رحمت استحقاق رکھنے والوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔یہ رحمت اُخروی کامیابی کی خوش خبری ہے۔دین آخرت ہے تو پھر یہ سوال ذہن کے دریچے سے بار بارجھانکتا ہے کہ سماج سے مذہب کیسے متعلق ہو تا ہے؟دنیاوی زندگی سے اس کا تعلق کیا ہے؟
میرا احساس یہ ہے کہ مذہب کا پیغام ہر فرد کے لیے ایک نہیں ہے۔وہ انسا ن کے سماجی حالات کی رعایت سے اس کو مخاطب بنا تا ہے۔مذہب کے مطالبات اس کی سماجی حیثیت سے بے نیازنہیں ہوتے۔وزیراعظم سے مذہب کا مطالبہ وہ نہیں ہو سکتا جوایک مزدور سے ہے۔ایک عالم سے مذہب وہ بات نہیں کہتا جو عامی سے کہتا ہے۔کراچی میں پیاس سے مرنے والا اور پانی کی فراہمی پر مامور اہل کار، دونوں سے مذہب کے مطالبات مختلف ہیں۔حاصل یہ ہے کہ مذہب سماج کے لیے ہو تاہے، سماج مذہب کے لیے نہیں۔سیدنا یوسفؑ سے جیل کے رفیقوں نے خواب کی تعبیر چاہی تو کہا:تعبیر ملے گی لیکن مجھے بھی ایک سوال کا جواب چاہیے: اللہ ایک ہو نا چاہیے یا بہت سارے؟سید نا مسیح ؑ نے مچھیروں کو مخاطب کیا تو کہا:ماہی گیرو!آؤ میں تمہیں آدم گیر بنا دوں۔مذہب اسی طرح خود کو زمینی حقائق سے ہم آہنگ کرتااور اپنا مقدمہ قائم کر تا ہے۔اسے اپنی بات پر اصرار ہوتا ہے مگر وہ انسانی خوابوں کی تعبیر بھی بتاتا ہے۔آدم گیری کا پیغام انہی کو دیا جا تا ہے جو پہلے سے ماہی گیر ہوں۔سیدنا مسیحؑ کا عہدِ رسالت اسی حکمت کو واضح کرتے گزرا۔
سماج انسان کی مادی ضرورت اور آدرش کا اجتماع ہے۔ حیاتیاتی بقا مقدم ہے کہ اس کے بعد آدرش کا مر حلہ آتا ہے۔ آدرش غور وفکر کے راستے کھولتا اور یوں سماج ارتقا کی منازل طے کر تا ہے۔زندگی ہو گی تو زندگی کی معنویت طے ہو گی۔زندگی پہلے، معانی اس کے بعد۔میں اس جملے کو اس طرح بیان کر تا ہوں:سماج پہلے، مذہب اس کے بعدکہ سماج زندگی کی علامت ہے اور مذہب معنویت کی۔رسالت مآبﷺ سخاوت کا استعارہ ہیں۔رمضان آتا تو اس دریا کی جولانی بے قابو ہو جا تی۔کنارے پھر اس کے بہاؤ کو تھام نہ سکتے۔شب بیداریاں اور اعتکاف اپنی جگہ مگراس سے پہلے انفاق فی سبیل اللہ۔جب العطش، پیاس، پیاس کی آوازیں بلند ہو رہی ہوں تو پھر رمضان کے فضائل پر خطاب کوئی نہیں سنتا۔اگر کوئی سن بھی لے تو وہ خشک گلے سے نیچے نہیں اترتا۔رمضان انفاق کی دستک ہے جب افلاس ہر گھر پر قابض ہو نا چاہتا ہو۔
مذہب سماج میں اجنبی ہو جا تاہے جب وہ زندگی سے متعلق نہیں رہتا۔ جب انسان پر وہ بوجھ ڈال دیا جا تا ہے جس کو اٹھانے کا وہ مکلف نہیں ہو تاتو مذہب زندگی سے دور ہونے لگتا ہے۔مذہب آئیڈیل کی تلاش ہے۔اس سفر کا ہر مرحلہ آئیڈیل نہیں ہو تا لیکن 'مذہبی‘ ہو تا ہے۔مذہب مکہ میں بھی تھا، حالانکہ ابھی قرآن مجید کا بہت سا حصہ نازل نہیں ہو اتھا۔مذہب صلحِ حدیبیہ کے موقع پر بھی تھا اور مذہب فتح مکہ کے دن بھی تھا۔مذہب اس وقت بھی تھا جب اللہ کے آ خری رسول ﷺ اپنا آخری خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اسلام ہر موقع پر سماج سے متعلق ہوتا گیااور اس کے مطالبات تبدیل ہو تے گئے۔
مذہب آج بھی ہمارے سماج سے متعلق ہوگا لیکن ویسے ہی جیسے آج معاشرے کی حالت ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب دین مکمل ہو گیاہے تو اسے اب آئیڈیل صورت میں سماج سے متعلق ہو نا چاہیے۔سود ایک دن میں ختم ہو نا چاہیے جب اسے حرام قرار دیا جا چکا۔کل سے پورا سماج اسلام کے رنگ میں رنگ جا نا چاہیے۔ ایسے لوگ دین سے صرف قانون لیتے ہیں حکمت نہیں، حالانکہ وہ قانون اور حکمت دونوں کا مجموعہ ہے۔قرآن مجید نے خود بتایا کہ تورات میں قانون ہے اور انجیل میں حکمت۔قرآن مجید میں قانون بھی ہے اور حکمت بھی۔ لوگ دراصل افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں، بنی اسرائیل کی طرح۔یہود نے احکام پر اصرار کیا اور حکمت کو نظر انداز کیا۔مسیحیوں نے حکمت کو مانا اور قانون کو منسوخ قرار دے دیا۔مسلمانوں میں سے کچھ لوگ 'مقاصدِ شریعت‘ کے نام پر قانون کو قبول نہیں کرتے، مقاصد ہی کو مطلوب سمجھتے ہیں اور مقاصد بھی وہ جو وہ خود طے کریں۔کچھ قانون پر اصرار کرتے وقت،اس کی حکمت کو
نظر انداز کرتے ہیں۔خیر دونوں کے اجتماع میں ہے۔
پیاس کی پکار میں رمضان کے فضائل کا آہنگ مدھم ہو گیا ہے۔اس وقت نیکی یہ ہے کہ پیاسے کو پانی پلا یا جائے۔ پیاس سے بلکتے آ دمی کو آپ عشرۂ رحمت کے فضائل نہیں سمجھا سکتے۔اگر آپ ایسا کریں گے تو اس حکمت کو نظر انداز کریں گے جو اللہ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو عطا فرمائی۔ کراچی میں آج اہلِ مذہب کا کام یہی ہو نا چاہیے۔'الخدمت فاؤنڈیشن‘ کے دوست یقیناً اس میں مصروف ہوں گے۔ دوسروں کو بھی متوجہ کر نا چاہیے۔توحید کا پیغام اُس وقت زیادہ موثر ہو سکتاہے جب کوئی اپنے خواب کی تعبیر کے لیے آپ کی طرف رجوع کر تاہے اور آپ اس کی تعبیربھی بتاتے ہیں۔سیدنا یوسف ؑ کا اسوہ یہی سکھاتا ہے۔
سماج کی ضرورت اور حالت کو نظر اندازکرتے ہوئے، مذہب کاپیغام موثر نہیں رہتا۔لوگ پورے سماج کو یکساں طور پر مخاطب بناتے ہیں حالانکہ وہ فرد کو اس کی سماجی حیثیت کے مطابق مخاطب کرتا ہے۔ایک سرمایہ دار اور ایک مزدور دونوں کے لیے موقع مو جود ہے کہ وہ رمضان کے فضائل کو سمیٹیں لیکن دونوں کے لیے اس منزل تک پہنچنے کاراستہ ایک نہیں ہے۔عبادت کے باب میں یکسانیت کے باوجود،سماجی مطالبات ایک جیسے نہیں ہیں۔بحیثیت مجموعی، مذہب سماج کے حالات سے غیر متعلق ہو کر اپنا مقدمہ قائم نہیں کرتا۔ جب چاروں طرف سے العطش،العطش کا شور بلند ہو تو پھر رمضان کی دستک مدھم ہو جاتی ہے۔اس کی لَے بلند کرنے کے لیے لازم ہے کہ پہلے یہ شور کم ہو۔شور تب کم ہو گا جب پانی ملے گا۔