سیاستِ دوراں سے گریز مشکل ہے لیکن ماہِ رمضان کا مطالبہ ہے کہ موضوعات بدل جائیں، جیسے کلچر اور مذہب۔
مشاہدہ ہے کہ جمعہ کے روز لوگ شلوار قمیض پہنتے ہیں۔ اس کا تعلق نماز جمعہ سے نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ نمازیوںکی بڑی تعداد ہفت روزہ نماز کی قائل ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد نمازِجمعہ کا اہتمام کرتی ہے، اگر چہ وہ روزانہ کی نماز سے غافل رہتی ہے۔ شلوار قمیض کا مگر جمعہ کے ساتھ خصوصی تعلق ہے، نمازِ جمعہ کے ساتھ نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
جمعہ اہلِ اسلام کا دن ہے، جیسے سنیچر یہود کا اور اتوار مسیحیوں کا۔ ہمارے تحت الشعور میں یہ رچ بس گیا ہے کہ شلوار قمیض اسلام کا لباس ہے۔ مذہبی تقریبات میں اور اجتماعات میں ہم بالخصوص اس کا خیال رکھتے ہیں کہ ہمارا پہناوا شلوار قمیض ہو۔ لوگ جنازہ پڑھنے جاتے ہیں تو ترجیح یہی ہوتی ہے۔ عید پر تو خیر یہی لباس پہنا جاتا ہے۔ اس تصور کا ایک حصہ یہ ہے کہ پتلون کو مذہبی تقریبات سے متصادم خیال کیا جاتا ہے۔ لوگ اس کو پسند نہیںکرتے بلکہ کسی دوسرے کو بھی اس لباس میں دیکھ لیں توانہیں ناگوار گزرتا ہے۔ پتلون ہمارے ہاں ماڈرن ہونے کی علامت ہے۔ ماضی میں یہ احساس بہت گہرا تھا لیکن اب اس میں کمی آ گئی ہے؛ تاہم جمعہ تو بدستور شلوار قمیض کا دن ہے۔
میں اس تحقیق میں نہیں پڑتا کہ پتلون کب ایجاد ہوئی اور کس نے کی۔ سپین کے مسلمانوں نے یا فرنگیوں نے؟ میں بات کو لباس کے تہذیبی اور سماجی پہلو تک محدود رکھنا چاہتا ہوں۔ یہ معلوم ہے کہ شلوار قمیض یہاںکا مقامی لباس ہے۔ اگر اسلامی لباس وہ ہوتا ہے جو اﷲ کے آخری رسولﷺ نے پہنا تو سب جانتے ہیں کہ یہ آپ کا لباس نہیں تھا۔ یہ تو اس خطے میں پہنا جاتا ہے جہاں ہم رہتے ہیں۔ یہاں آباد لوگ مذہبی امتیاز سے ماورا، یہی لباس پہنتے ہیں۔ خواتین کا ایک لباس ہے اور اسی طرح مردوں کا بھی۔ یہی معاملہ پگڑی، ٹوپی اور دوپٹے وغیرہ کا بھی ہے۔ برصغیر کی خواتین دوپٹہ اوڑھتی ہیں۔ یہاں کی ہندو خاتون بھی یہی کرتی ہے اور مسلمان بھی۔ شائستگی یا حیا ، ایک قدر ہے جو سب مذاہب کے نظامِ اقدار کا ناگزیر جز ہے۔ باحیا خاتون اپنے لباس کے بارے میں حساس ہوتی ہے۔ اس کا اہتمام وہ اپنے مقامی کلچر کے مطابق کرتی ہے۔ اس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔
اس امر واقعہ کے باوجود لوگ خیال کرتے ہیںکہ مذہب کا بھی کوئی لباس ہوتا ہے۔ ایک دور میں یہ موقف بڑے شد ومد کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا کہ عرب لباس ، اسلام کا لباس ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ برسوں پہلے، اس موضوع پر امام ابن تیمیہ کی ایک کتاب کا اردو ترجمہ پڑھا تھا جس میںانہوں نے اصرار کیا کہ عرب تہذیب ہی اسلامی تہذیب ہے۔ تاہم علمی سطح پر یہ مقدمہ اپنی جگہ نہیں بنا سکا۔ برصغیرہی میں دیکھ لیجیے۔ ہمارے مذہبی راہنما‘ جو ان مظاہر کے بارے میں بہت حساس ہیں، وہ بھی مقامی لباس پہنتے ہیں۔ یہی معاملہ دیگر علاقوں کا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں چلے جائیں۔ انڈونیشیا جیسا ملک جو آبادی کے اعتبار سے مسلمانوںکا سب سے بڑا ملک ہے، وہاں کے علماء مقامی لباس پہنتے ہیں۔ دیگر خطوں میںتو یہ معاملہ صرف لباس تک محدود نہیں ، اس کا دائرہ دیگر مظاہر تک پھیلا ہوا ہے۔ اس لیے کسی خاص لباس یا بود و باش پر اصرار عملاً ممکن نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس کا اطلاق دوسرے تہذیبی مظاہر پر بھی کیا جانا چاہیے۔
کلچرکی تشکیل میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک مذہب ہے۔ مذہب جز ہے کل نہیں۔ ہم جسے اسلامی نظام معاشرت کہتے ہیں، اس کی اساس چند اقدار پر ہے۔ ان اقدار پر ہر خطے کے مقامی حالات کے مطابق عمل کیا جاتا ہے۔ ہم بعض اوقات اس بات کا ادراک نہیں کرتے۔ یوں بعض ایسی باتوں کو بھی دین کا حصہ مان لیا جاتا ہے جو اصلاً مقامی تہذیبی ضروریات سے پھوٹتی ہیں ، جیسے کثرتِ ازدواج ہے۔ عرب معاشرے میں یہ پہلے سے موجود رواج تھا ؛ تاہم اس کی عملی صورت ایسی تھی جس سے خاتون کا شرفِ انسانیت اور حقوق دونوںمتاثر ہو رہے تھے۔ یہ بات اسلام کی بنیادی
اقدار سے متصادم ہے جو مرد و زن کی ذمہ داریوں میں توفرق کو پیش ِ نظر رکھتا ہے، سماجی مقام اور رتبے میں نہیں۔ یوں اسلام نے اس مقامی رسم کی اصلاح کرتے ہوئے، اسے اپنے نظام اقدار سے ہم آہنگ بنا دیا۔
برصغیر کا معاشرہ بالکل دوسرا ہے۔ یہاں تعددِ ازدواج کا رواج نہیں ، لوگ بالعموم ایک وقت میں ایک ہی نکاح کرتے ہیں۔ اس لیے جب ہم یہاں سماجی بہتری کا کوئی قانون بنائیں گے تو مقامی حالات کی رعایت کریں گے۔ یوں دوسری شادی کے معاملے میں، ریاست یہ حق رکھتی ہے کہ وہ مرد پر کوئی قدغن لگا دے۔ اب تو خیر عرب کے ممالک شام، مصر وغیرہ میں بھی مرد کے اس حق کو غیر مشروط نہیں رکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج عرب معاشرہ بھی وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ ناگزیر ہو گیا ہے کہ جدید دور میں قوانین بناتے وقت، اس تبدیلی کو ملحوظ رکھا جائے۔
ہمارے ہاں لوگ جب تعددِ ازدواج کو اس سماجی پس منظر سے اٹھا دیتے ہیں تو اسے قرآن مجید کے ایک حکم کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ قرآن مجید حالانکہ اسے ایک بالکل مختلف تناظر میںدیکھ رہا ہے۔ سماج میں جب یتیموں کی کفالت کا مسئلہ پیدا ہوا تو اسلام نے یہ اجازت دی کہ اس کے لیے عرب معاشرے میں موجود تعددِ ازدواج کے رواج سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؛ تاہم اس رواج میں ترمیم کرتے
ہوئے ، اسلام نے خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جو عام طور پر ایسے معاملات میں نظر انداز ہوتا ہے۔ ہم کلچراور مذہب کے اس باہمی تعلق کو اکثر نظر انداز کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر مذہبی مباحث کی اساس یہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارا مذہبی طبقہ اگر اس پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے لوگوں کے سامنے دین کو پیش کرے تو مذہب کے ساتھ اختلاف کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے۔
میرا احساس یہ بھی ہے کہ ہمارے سیکولر یا لبرل طبقے کے اکثر اعتراضات کا تعلق دین کے بنیادی مقدمات سے نہیں، اس کے ان مظاہر سے ہے، جو اصلاً مقامی ہیں اور ہم انہیں دینی اقدار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ طالبان پر اعتراضات کی اگر ہم فہرست بنائیں تو نوے فیصد معاملات وہ ہیں جنہیں طالبان نے مقامی تہذیبی اقدار کے تحت اختیار کیا لیکن انہیں یوں پیش کیا جیسے وہ دینی احکام ہیں، جیسے بامیان میں بت شکنی یا بچیوںکی تعلیم کا مسئلہ۔ اگر ہم لبرل طبقے کے اعتراضات کو اس کی نفسیاتی ساخت اور اس کے سوالات کی بنیاد کو سمجھتے ہوئے مخاطب بنائیں تو مجھے پورا یقین ہے کہ نظریاتی تقسیم بہت مدھم ہو جائے اور مشترکہ کلمات کی تعداد بڑھ جائے۔
کل جب میں نمازِ جمعہ کے لیے نکلا تو میں نے دیکھا کہ سب نے شلوار قمیض پہن رکھی ہے اور اکثر سر پر ٹوپی بھی لیے ہوئے ہیں۔ میں سوچتا رہا کہ کلچر جب مذہب بن جاتا ہے تو مذہب کی روح کیسے پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ مذہب کلچر بن جائے تو اس کا بھی نقصان ہوتا ہے، پھر مظاہر اہم ہو جاتے ہیں اور تزکیہ نفس کا تصور نگاہوں سے اوجھل ہو جا تا ہے۔