نواز شریف صاحب نے رمضان کے آخری ایام مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں گزارے۔عید کا دن بھی سعودی عرب میں گزرا۔کیسی سعادت ہے جو ایک مسلمان کو نصیب ہوئی۔ہم جیسے عام مسلمان تو رشک ہی کر سکتے ہیں۔
نوازشریف مگر ایک عام مسلمان نہیں۔اُن کے کندھوں پر ان کی ذات کا نہیں ،بیس کروڑ مسلمانوں کا بوجھ ہے۔یہ بوجھ کسی حادثے نے ان پر نہیں لادا۔ انہوں نے اس کی طلب کی اور اس کے لیے دن رات ایک کر دیے۔ان کے لیے سعادت اور عبادت اب ان بیس کروڑ لوگوں سے وابستہ ہے‘ الا یہ کہ معاملہ فرائض کا ہو۔ حج کا فریضہ وہ بارہا ادا کرچکے۔خدا کی رضا ان کے لیے اب پاکستان کے گلی بازاروں میں بکھیر دی گئی ہے۔یہ متاثرین ِ سیلاب کی دعاؤں میں چھپا دی گئی ہے۔یہ وزیرستان سے بے گھر ہو نے والے ان پاکستانیوں کے شب و روز میں ہے جو کھلے آسمان تلے ان کے منتظرہیں۔یہ غربت و افلاس میں ڈوبے ان شہریوں کی اس نگاہ میں ہے جو اسلام آباد کی طرف اٹھتی اور مدد کے لیے فریاد کر تی ہے۔یہ انصاف کی طلب میں بھٹکتے عوام کے پاس ہے جو انہیں ووٹ دیتے اور ایوانِ اقتدارتک پہنچا تے ہیں کہ ان کے ساتھ عدل کا معاملہ ہو گا۔ خدا کی رضا نواز شریف صاحب کی تلاش میں،اس ملک کے گلی بازاروں میں بھٹک رہی ہے۔ حیرت ہے وہ اسے تلاش کرنے عرب جا پہنچے!
اس ملک کے حکمرانوں کا تصور ِ مذہب اصلا ح طلب ہے۔وہ اس باب میں شدید غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔مذہب کا بڑا حصہ وہ ہے جو فرد کی سماجی حیثیت کی رعایت سے اسے مخاطب بناتا ہے۔عام پاکستانی مسلمان سے اسلام کا مطالبہ وہ نہیں ہے جو نوازشریف صاحب سے ہے۔زمین آ سمان کا فرق ہے۔عمر ہ نفلی عبادت ہے اورپاکستان میں بسنے والی خلقِ خدا کی خبر گیری ان کا فرض ہے۔عمرہ نہ کر نے پر وہ خدا کے حضورمیں جواب دہ نہیں ہیں لیکن سیلاب زدہ لوگوں کے لیے وہ جواب دہ ہیں۔ فرائض سے غفلت اور نوافل کا اہتمام، بعض اوقات خود ساختہ رسوم، جن کو وہ مذہب سمجھتے ہیں۔ حکمرانوں کے تصورِ مذہب کا بنیادی نقص ہے۔مجھے تو ڈر ہے کہ وہ جسے عبادت کہتے ہیں، کہیں ان کے لیے وبال نہ بن جا ئے۔
خلفائے راشدین کی بات میں نہیں کرتا کہ ان کا اقتدار خدائی فیصلہ تھا۔وہ اللہ کا وعدہ تھا جو پورا ہوا۔زوال کے دور میں بھی جب بادشاہ اہلِ اسلام کے سروں پر مسلط تھے، تب بھی حکمران اور سماج دونوں جانتے تھے کہ اربابِ حکومت سے مذہب کے مطالبات مختلف ہیں۔حکمران اقتدار کے نشے میں خدا فراموشی کا شکار تھے لیکن ان کے نہاں خانہ دل میںیہ تصور چھپا بیٹھا تھا کہ اقتدار ایک آ زمائش ہے اور وہ اس کے لیے خدا کے حضور میں جواب دہ ہیں۔یہ تصور کبھی سر اٹھا تا تو ان کے وجود کا احاطہ کر لیتا۔مسلم سلطنت جب چھوٹے چھوٹے حصوں میں منقسم ہو گئی توایک دولتِ سامانیہ بھی وجود میں آئی۔سامی سلطنت ایران میں ابھری اور کم و بیش ڈیڑھ سو سال تک قائم رہی۔اس کا ایک حکمران نصر بن احمد بن سامان بھی
تھا۔892ء میں اس کا انتقال ہوا۔نیشا پور اس کی سلطنت کا حصہ بنا تو اس نے ایک جشن کا اہتمام کیا۔وہ تخت نشین ہواتو اس کی فرمائش پر تلاوتِ قرآن سے تقریب کا آ غاز ہوا۔ ایک عالم نے سورہ مومن کی آیات تلاوت کیں۔ عالم نے سورہ کی سولہویں آیت پڑھی:''وہ دن جب کہ سب لوگ بے پردہ ہوں گے،اللہ سے ان کی کوئی بات چھپی نہیں ہو گی۔(اس روز پکار کر پوچھا جائے گا)آج بادشاہت کس کی ہے؟(سارا عالم پکار اٹھے گا)اللہ واحد قہار کی‘‘۔(40:16)بادشاہ نے آیت سنی تو اس پر لرزہ طاری ہو گیا۔ہیبت زدہ ہو کر تخت سے اترا۔تاج کوسرسے اتارا اور سجدے میں گر گیا۔اس کی زبان خدا کی بڑائی کا اعلان کر رہی تھی:''اے میرے رب ،بادشاہی تو تیری ہے، میری کہاں!‘‘کیا معلوم نوازشریف صاحب نے بھی مسجد ِ نبوی میں تراویح پڑھتے یہ آیت سنی ہو۔کیا اُن پر بھی یہ کیفیت طاری ہو ئی؟
ایک واقعہ اور سنیے جو اس سے بھی بعد کی تاریخ کا حصہ ہے۔ عہدِ رسالت سے دوری مزید بڑھ چکی ہے۔عبدالرحمن الناصر سپین کا حکمران ہے۔961ء میں انتقال ہوا۔ملک میں قحط پڑ گیا۔ قاصد کو خطیبِ شہرقاضی منذرکے پاس بھیجا کہ نماز استسقاء پڑھائیں اور بارش کی دعا کریں۔قاضی منذر نے قاصد سے پوچھا کہ بادشاہ نے مجھے دعا کے لیے پیغام بھیجا ہے مگر خود کیا کر رہا ہے؟ قاصد نے کہا:''آج سے زیادہ ہم نے انہیں کبھی خدا سے ڈرنے والا نہیں پا یا۔پریشانی کے عالم میں ہیں اور تنہائی میں پڑے ہیں۔میں نے انہیں اس حال میں دیکھا کہ مٹی کے فرش پر سجدے میں گرے ہیں۔آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ گناہوں کا اعتراف ہے اور اپنے اللہ سے دعا کر رہے ہیں: اے میرے رب !میری پیشانی آپ کے ہاتھ میں ہے۔کیا آپ میرے گناہوں کی وجہ سے لوگوں کو عذاب دیں گے، آپ تو سب سے زیادہ رحم کر نے والے ہیں‘‘۔قاضی منذر نے یہ سناتو چہرے پراطمینا ن کی لہر دوڑ گئی۔قاصد سے کہا: ''جاؤ اور اپنے ساتھ بارش لیتے جاؤ۔جب زمین پرحکمران اس طرح اظہارِ عجز کرتا اور اپنے رب کو پکارتا ہے تو آسمان پر عالم کے پروردگار کی رحمت جوش میں آ جاتی ہے‘‘۔قاصد واپس پہنچا تو بارش شروع ہو چکی تھی۔(الکامل فی التاریخ)۔
حکومت خدا کی رحمت کو متوجہ کرنے کا غیر معمولی ذریعہ بن سکتی ہے۔نیک حکمران ان لوگوں میں شامل ہیں جن کی دعائیں سب سے زیادہ قبولیت کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ رسالت مآبﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن جب عرشِ الٰہی کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا تو اس تپتی زمین پر سات افراد اس سایے تلے ہوں گے۔ان میں ایک عادل حکمران بھی ہے۔حکمران کو اسی وقت یہ منصب حاصل ہو تا ہے جب وہ جانتا ہے کہ اس سے مذہب کے مطالبات کیا ہیں؟وہ خدا کی رضا کا طلب گار ہوتا ہے مگراسے عوام کے مسائل میں تلاش کر تا ہے۔وہ جانتا ہے کہ اس کے لیے عبادت کا تصور وہ نہیں ہے جو ایک عام مسلمان کے لیے ہے۔اس کی عبادت عوام کی خدمت ہے۔مکرر عرض ہے کہ فرائض کا معاملہ الگ ہے کہ وہ ہر حال میں لازم ہیں۔
آصف زرداری صاحب نے نو کروڑاجمیر شریف کی نذر کر دیے۔ان کا خیال بھی یہی تھا کہ انہوں نے اپنا مذہبی فریضہ ادا کر دیا۔ہمارا حکمران طبقہ مذہب کے باب میں اسی طرح کی غلط فہمیوں میں مبتلا رہتا ہے۔کبھی کسی پیرسے لاٹھیاں کھا لیں۔ کبھی کسی مزار پر چادر چڑھادی۔کبھی رمضان کے آ خری ایام حرمین میں گزار کر، یہ فرض کر لیا کہ مذہبی ذمہ داریاں ادا ہو گئیں۔یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ عمرے عوام کے پیسے سے ہوتے ہیں یا ذاتی پیسے سے۔اگر پیسہ عوام کا ہے تو پھر یہ عبادت سے زیادہ جرم ہے۔
علما کا کام ہے کہ وہ حکمرانوں کو انذارکریں۔ انہیں بتائیں کہ ان سے مذہب کے مطالبات وہ نہیں ہیں جو ایک عام مسلمان سے ہیں۔یہ کام قاضی منذر جیسے لوگ کرتے تھے۔کبھی لکھوں گا کہ یہ قاضی منذر کون تھے،آج تو مجھے صرف اہلِ اقتدار کے تصور ِ مذہب تک محدود رہنا ہے۔نوازشریف صاحب عمرے ضرور کریں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدا کی رضا، اس ملک کی گلی بازاروں میں انہیں تلاش کر رہی ہے۔