بچوں کو کئی روز سے ایک خاص احساس سے سر شار دیکھ رہا ہوں۔ ان کی باتوں اور چاہتوں کا محور پاکستان ہے۔ پاکستان کے جھنڈے کا مطالبہ ہے۔ بیٹی کا اصرار ہے کہ وہ سبز اور سفید رنگ کے کپڑے پہنے گی۔ سینے پر بیج سجا رکھے ہیں۔ میں سوچتا ہوں، یہ احساس کہاں سے پھوٹا ہے؟ کیا یہ کسی نظریے سے وابستگی کا اظہار ہے؟ کیا اس جذبے نے ان کے معاشی مفادات سے جنم لیا ہے؟ پھر خیال آتا ہے کہ بچوں کا کون سا نظریہ اور کیسا مفاد؟ یہ شعور سے وابستہ تصورات ہیں اور انہوں نے تو ابھی اس دنیا میں قدم نہیں رکھا۔ یہ عمر کا وہ مرحلہ ہے جب وہ فطرت کی راہنمائی میں جیتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ احساس ماحول کی دَین ہے؟ کیا یہ اُس تعلیم اور ذہن سازی کا حاصل ہے جو گھر اور مدرسے میں ہو رہی ہے؟
میں گلی میں نکلتا اور چند مسیحی بچوں کو دیکھتا ہوں۔ ہاتھ میں پاکستان کا جھنڈا اور آنکھوں میں وہی چمک جو میں اپنے بچوں میں دیکھ رہا ہوں۔ وابستگی کا ایک مشترکہ احساس جو کسی کی جاگیر نہیں۔ مساجد میں مناجاتیں ہیں اور کلیساؤں میں دعائیں، اس پاکستان کے لیے، جس کو سب اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ 11 اگست کو قومی اسمبلی ایک مشترکہ قرارداد بھی منظور کرتی اور قائد اعظم کے اس وژن کو اپنا وژن قرار دیتی ہے جو انہوں نے1947ء میں اِسی دن کو دستور ساز اسمبلی کے سامنے رکھا۔ وہی تقریر جس میں ریاست، شہریوں کو مذہب سے ماورا ایک نظر سے دیکھنے کا وعدہ کر رہی ہے۔ اگر شعور اور فطرت کی سرحدیں پاکستان کے نقطے پر مرتکز ہو رہی ہیں تو پھر یہ وطن اور نظریے کی بحث کیا ہے؟
یہ سوال سامنے ہو تو کیسے ممکن ہے کہ علامہ اقبال یاد نہ آئیں۔ کیسا خوش نوا تھا جو اس چمن میں نغمہ سرا رہا! میں خطبہ الہ آباد کو ایک بار پھر پڑھتا ہوں۔ اس بار ایک اور مفہوم میرے سامنے ہے۔ اقبال اس خطبے میں اہلِ کتاب اور ہندوئوں میں فرق کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہندو مذہب میں ذات پات اور عدم مساوات کا تصور خود ہندوئوں کے ایک قوم بننے میں مانع ہے۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ ایک قوم کیسے بن سکتے ہیں؟ رہی بات اہلِ کتاب کی تو ''مسلمانوں اور اہلِ کتاب میں کوئی معاشرتی رکاوٹ حائل نہیں۔ ایک یہودی، ایک مسیحی اور ایک زرتشتی کا ہاتھ لگ جانے سے مسلمان کا کھانا پلید نہیں ہوتا۔ اسلامی قانون اہلِ کتاب کے ساتھ شادی بیاہ کی اجازت دیتا ہے۔ دراصل اسلام نے بنی نوع انسان کے اتحاد کے ضمن میں جو پہلا عملی قدم اٹھایا، وہ تھا ایک ہی نوع کے اخلاقی ضابطے رکھنے والوںکو اتحاد کی دعوت دینا‘‘۔ اقبال کا کہنا یہ بھی ہے کہ صلیبی جنگوں اور یورپ کی جارحیت کے باعث قرآن مجید کی اس آیت کے لامحدود معنی سامنے نہیں آ سکے جو اہلِ کتاب کو مشترکہ نکات کی طرف بلاتی ہے۔
علامہ اقبال اسی خطبے میں یہ بھی واضح کر تے ہیں کہ وہ کسی مذہب کے خلاف نفرت کو پست ذہنیت کی علامت سمجھتے ہیں۔ گویا انہیں ہندو مذہب سے کد نہیں تھا۔ ان کے خیال میں یہ ذات پات کا تصور ہے جو وحدتِ آدم یا متحدہ قومیت میں رکاوٹ ہے۔ گویا ہندو اگر اس سے دستبردار ہو جائیں تو پھر ان کے ساتھ بھی اہلِ کتاب کی طرح معاملہ کیا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے‘ یہ تعبیر پاکستان میں وطن اور مذہب کی بحث کو حل کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ اگر قائد اعظم کی11 اگست کی تقریر کو بھی شامل کر لیا جائے‘ تو تصویر زیادہ واضح ہو جائے گی۔ یہ ہم پر واضح ہے کہ اقبال دین‘ دنیا میں تقسیم کے قائل نہیں تھے۔ ان کے نزدیک روحانی اقدار سے محرومی انسانی سماج کو اس کی اساسی جوہر سے محروم کر دیتی ہے۔ روح اور مادہ کی وحدت ان کے ہاں روحانی اقدار اور دنیاوی مطالبات کی وحدت ہے۔
اقبال اسی خطبے میں ذکر کرتے ہیں کہ وحی کے اصولوں کو جدید دنیا کے ساتھ رابطے کی بنیاد پر ترتیبِِ نو کی ضرورت لاحق ہے۔ وطن اور مذہب کا باہمی تعلق بھی اسی حوالے سے ہماری توجہ کا مستحق ہے۔ بات کو اب اس مر حلے سے آگے بڑھنا چاہیے جہاں علامہ اقبال اور قائد اعظم نے اسے چھوڑا تھا۔ ہمیں بنی نوع انسان کے اس عظیم اتحاد کی طرف پیش قدمی کرنی ہے، جس کی طرف قرآن مجید نے ہماری راہنمائی کی ہے۔
پاکستان میں بسنے والے سب مذاہب ان آ فاقی روحانی اقدار پر یقین رکھتے ہیں، اسلام جن کا علم بردار ہے۔ یہ اقدار انسان کو اصلاً ایک اخلاقی وجود مانتی ہیں۔ اہلِ اسلام کے لیے ان کے ساتھ مل کر کسی عمرانی معاہدے پر اتفاق مشکل نہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اس کے فکری اور سیاسی اسباب فراہم ہو سکتے ہیں۔ ایک بنیادی مسئلہ البتہ یہ ہے کہ لبرل ازم پر یقین رکھنے والے کیا کسی ایسے معاہدے کا حصہ بن سکتے ہیں؟ لبرل ازم مذہبی پیراڈائم میں سوچنے کے حق میں نہیں۔ وہ کسی روحانی تعبیر کو بھی قبول نہیں کرتا۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں اہلِ دانش کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ الہامی اور غیر الہامی روایات میں وحدتِ عمل کیسے پیدا ہو؟ یہ اگرچہ عالمی مسئلہ ہے مگر ہمیں مقامی تناظر میں بھی اس کا حل تلاش کرنا ہے۔
علامہ اقبال اسلام کو عربی پیرہن سے الگ ایک آفاقی دین کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہم نے اسے مقامی ضروریات سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ یہ اسلام کو تبدیل کرنا نہیں، اس کے عملی مظاہر کا تعین ہے۔ اسی طرح لازم ہے کہ دیگر ادیان کے ماننے والے بھی اپنے مذہب کو مقامی تناظر میں دیکھیں۔ لبرل ازم کے علم بردار دوستوں کو بھی اس ذہنی مشقت سے گزرنا ہو گا کہ لبرل ازم کی تعلیمات کو ایک ایسے سماج میں کیسے روبعمل لایا جا سکتا ہے‘ جو اپنی اساس میں مذہبی ہے۔ جمہوری اصولوں کے مطابق اس مملکت کے نظام میں مسلمانوں کا عمل دخل دوسروں سے زیادہ ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ وہ اپنے اس جمہوری حق کو کیسے استعمال کرتے ہیں؟ قائد اعظم نے ہمیں ایک راہ دکھائی۔ علامہ اقبال نے اس کی نظری اور فلسفیانہ بنیادیں فراہم کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے اب اس کو آگے بڑھانا ہے۔
آئین کے بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے ہونے والی بحث سے، مجھے اندازہ ہوا کہ ہمارے رائے ساز طبقات میں اس بات کا شعور موجود نہیں کہ نظم اجتماعی کی جدید تشکیل ہم سے کیا مطالبہ کر رہی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد اس خطے میں مسلم تہذیب کو درپیش وہ چیلنج ختم ہو گیا، جس کا تعلق ایک دوسرے نظامِ معاشرت کے غلبے سے تھا۔ یہاں تو مسلم تہذیب کے نمائندوںکو سوچنا ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے افراد کو کس طرح وہ مواقع فراہم کریں‘ جو انہیں ان خدشات سے محفوظ رکھیں، جن کا سامنا مسلم اقلیت کو پاکستان بننے سے پہلے تھا۔ مجھے حیرت ہے کہ یہاں کا مسلم دانشور اب بھی عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہے۔ اسے یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ پاکستان بننے کے بعد اس کی ذمہ داری بدل چکی ہے۔ اب وہ لینے والا نہیں، دینے والا ہے۔
زندگی فطرت سے ہم آہنگ ہو کر ہی آگے بڑھ سکتی ہے۔ ایک پاکستانی بچہ مسلم ہو یا مسیحی، اس ملک کے لیے ایک طرح کے جذبات رکھتا ہے۔ ان جذبات کی اساس مذہب ہے نہ کوئی مفاد۔ یہ وطن سے وابستگی کا وہ فطری جذبہ ہے جو شعورکے دائرے میں پہنچے تو ایک نجیب آدمی کی پہچان بن جاتا ہے۔ اس فطری جذبے کی آسودگی کا سامان کرنا اکثریت کی ذمہ داری ہے۔ ستانوے فی صد مسلم آبادی کا مسئلہ مذہبی تشخص نہیں ہو سکتا۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی یہ شناخت دوسروں کو کس حد تک ایک وحدت میں پرونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔