اس فیصلے میں نشانیاں ہیں ن لیگ، تحریک انصاف اوراہلِ دانش کے لیے،اگر وہ غور پر آمادہ ہوں۔ قانونی موشگافیوں سے قطع نظر، یہ ن لیگ کی اخلاقی ساکھ کے لیے ایک دھچکا ہے۔عمران خان جن چار حلقوں کی بات کر رہے تھے،ابھی تک دو میں ان کا مقدمہ درست ثابت ہوا ہے، مجموعی طور پرپچاس فیصد۔ابھی تک آنے والے فیصلوں میں سو فیصد۔ یہ ایک مضحکہ خیز استدلال ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے لیکن ہم نے نہیں کی۔یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ حسبِ توفیق سب نے کی ہوگی، شکایت لیکن تحریکِ انصاف نے کی۔مقدمہ بھی اسی کا ثابت ہوا ہے۔آپ کا مقدمہ تو یہ تھا کہ نہیں ہوئی۔ عدالتی عمل نے آپ کے خلاف فیصلہ دیا۔اپیل کا حق یقیناً ن لیگ کو حاصل ہے لیکن ابتدائی فیصلہ بھی کم اہم نہیں ہوتا۔ ن لیگ کی اخلاقی ساکھ مجروح ہو ئی اور اس باب میں کوئی دوسری رائے نہیں۔جو اثر عدالتی کمیشن کے فیصلے کا تحریکِ انصاف پر مرتب ہوا، ذرا چھوٹے پیمانے پر اب وہی اثر ن لیگ پر بھی پڑاہے۔معلوم ہوا کہ عمران خان کا مقدمہ،کم از کم چند حلقوںکے حوالے سے، کچھ ایسا بے بنیاد بھی نہیں تھا۔ن لیگ کی ساکھ اسی وقت بحال ہو سکتی ہے کہ سعد رفیق صاحب اور ایاز صادق صاحب نئے مینڈیٹ کے لیے ایک بار پھرعوام سے رجوع کریں۔
اب آئیے تحریکِ انصاف کی طرف۔یہ فیصلہ اِس نقطہ نظر کی تردیدہے کہ 'سب چور ہیں‘ اور' اس نظام سے انصاف نہیں مل سکتا‘۔انصاف کے باب میں پی ٹی آئی کی منطق تو یہ ہے کہ انصاف سے مراد ان کے موقف کی تائید ہے، ورنہ یہ بے انصافی ہے۔اب ان کے معیار پر بھی انصاف ہوا اور اسی نظام کے تحت ہوا، جس پرعدم اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے، دھرنا دیا گیا۔اس سے واضح ہوا کہ دھرنا انتخابی دھاندلی کے نام پرکسی اور مقصد کے لیے تھا۔اس عمل میںشریک دیگر کردار بھی سامنے آ چکے۔انتخابی دھاندلی کے نام پر ایک بساط بچھائی گئی لیکن جو چال چلی گئی وہ ناکام ہو گئی۔ یا یوں کہیے کہ عمران خان کی حد تک ناکام ہوئی لیکن ایک دوسرے زاویے سے کامیاب ہوگئی۔ نوازشریف 'اچھا بچہ‘ بن گئے۔اب خیال یہی ہے کہ وہ کوئی 'شرارت‘ نہیںکریں گے۔
تاخیر یقیناً ہوئی لیکن یہ عدالتی نظام کا حصہ ہے، اس کا کوئی تعلق انتخابی دھاندلی یا سیاسی مداخلت سے نہیں ہے۔جو نظام کم وبیش دو سال میں یہ نہیں جان سکا کہ عتیقہ اوڈھو کے سامان میں شراب کی بوتل تھی یا نہیں، جب ایئر پورٹ پر انہیں اس الزام میں پکڑا گیا،اس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ سیکڑوں پولنگ سٹیشنز پر محیط ایک انتخابی عمل کے بارے میں، چار ماہ میںحقیقت تک پہنچ جائے۔یہ تاخیر مجھے بھی کھَلتی ہے لیکن کیا اس کے بعد متاثرہ فریق کو یہ حق دے دینا چاہیے کہ وہ سارے نظام ہی کو برباد کر ڈالے؟اس ملک کی عدالتوں میں لوگ نسل در نسل انصاف کی تلاش میں کچہریوں کی خاک بن گئے ہیں۔کیا ہم ان کو اجازت دے دیںکہ وہ اس نظام پر قبضہ کر کے خود ہی مدعی اور خودہی عدالت بن جائیں؟ یقیناً انتخابی عمل میں اصلاح ہونی چاہیے اور اس سے کسی کواختلاف نہیں۔ پارلیمانی کمیٹی نے اس پر کام کا آغازکر دیا ہے اور اس میں تحریکِ انصاف بھی شامل ہے۔امید ہے کہ اگلے انتخابات پہلے سے کہیں بہتر ہوںگے۔
عمران خان نے ایک بار پھر دھرنے کااعلان کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ لوگ پچھلے دھرنے کوبھول جائیں گے۔اس سے میرے اس دیرینہ موقف کی ایک بار پھر تائید ہوئی کہ اصلاً وہ ایک احتجاج پسند (agitator) ہیں، سیاست دان نہیں۔وہ ایسے ہی لوگوں میں ہردل عزیز ہیں۔جذبات کا استحصال دنیا کا سب سے آ سان کام ہے۔یہ پاکستان کی بد قسمتی ہوگی کہ ایک ناکام تجربے کے بعد، وہ ایک پھر پورے سماج کو ہیجان میں مبتلا کر دیں۔مجھے اس میں رتی برابر شبہ نہیں کہ ہم نفسیاتی طور پر ایک بیمار قوم ہیں۔جس قوم پر پینتیس سال سے مسلسل خوف اور ہیجان کا غلبہ ہو،اس کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر متوازن رہے۔جو کام مذہبی انتہاپسندوں نے اپنے انداز میں کیا، وہی کام سیاسی انتہا پسند اپنے اسلوب میںکر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے کچھ لکھنے والے اورکچھ بولنے والے بھی جذباتی فروشی کے اس عمل کا حصہ بن کر وہی کام کر رہے ہیں جو طالبان اور مذہبی انتہا پسندوںنے کیا۔سب کی کوششوں کا حاصل ایک ہی ہے: نفسیاتی عارضے کا شکار معاشرہ۔ عمران خان کا یہ اعلان ایک نئے حادثے کی خبر ہے۔
اہلِ تجزیہ،جنہیں ہم برسبیلِ تذکرہ دانشور بھی کہتے ہیں،ان کو کیا کرنا چاہیے؟یہ کوئی دانشور ہی بتا سکتا ہے۔سماج اور سیاست کا یہ طالب علم ، البتہ یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہے کہ انتخابی عمل استقرائی منطق کے تابع نہیں ہے کہ ایک حلقے میں دھاندلی کا مطلب ہر حلقے میں دھاندلی سمجھا جائے۔یہ بات عدالتی کمیشن کے فیصلے سے واضح ہے۔این اے122 کے فیصلے کی بنیاد پر،پورے نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی بات غیر منطقی ہوگی۔حالات پر سرسری نظر رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ مدتوں بعد ہم نے درست سمت میں سفرکا آ غاز کیا ہے۔حکومت کے بدترین مخالف بھی لکھ رہے ہیں کہ بلوچستان بدل رہا ہے۔وہ اس کا کریڈٹ سیاسی قیادت کو نہیں دینا چاہتے تو نہ دیں لیکن یہ اعتراف بہتری کی نشاندہی کر رہا ہے۔کراچی میں، سب جانتے ہیںکہ حالات میں آنے والی بہتری، اب بچشمِ سر دیکھی جا سکتی ہے۔دہشت گردوں کے خلاف آپریشن آخری مر حلے میں ہے۔اس کی کامیابی کے بارے میں بھی دو آرا نہیں۔معیشت کی بہتری کے بارے میں عالمی مالیاتی ادارے حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ بہتری امن کا ناگزیر نتیجہ ہے۔
داخلی سطح پر آنے والے ان مثبت تبدیلیوں کے ساتھ ایک نظر ان منفی تبدیلیوں پر بھی ڈال لیجیے جو اڑوس پڑوس میں آ رہی ہیں۔بھارت کی کینہ پروری اپنے عروج پر ہے اور اب اس میں اونٹ کا کینہ بھی شامل ہو گیا ہے۔متحدہ عرب امارات بھارت میں75 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔مودی صاحب کے امارات کے دورے پر جو اعلامیہ جاری ہوا،اسے پڑھ لیجیے۔صاف لفظوں میں بتا دیاگیا ہے کہ یہ کس کو پیغام دیا جا رہا ہے۔ایران ،بھارت اور عرب امارات کا ایک نیا اتحاد وجود میں آ رہاہے۔سب کا مشترکہ مقصد پاکستان میں عدم استحکام ہے تاکہ خاکم بدہن، وہ اقتصادی منصوبہ آگے نہ بڑھے جو چین کے تعاون سے شروع ہوا اور نئے معاشی امکانات کا دروازہ کھول رہا ہے۔ہم سب جانتے ہیں اس سے کس کس کے مادی مفادات پر اثر پڑے گا۔ جن لوگوں نے وہاں اپنے عشرت کدے آ باد کر رکھے ہیں، انہیں بطور خاص اس پر سوچنا چاہیے۔
اس پس منظر میں استحکام کے جاری داخلی عمل کو سبوتاژ کرنا ایسی ناعاقبت اندیشی ہو گی جس کی تلافی ممکن نہیں۔اس موقع پر اگر کوئی نئے انتخابات یا دھرنے کی سیاست کر تا ہے تو اس کی بصیرت پر صرف ماتم کیاجا سکتا ہے۔یہ شکست خوردہ اناکوگنے کارس پلانے کا نہیں، اپنی ذات سے اوپر اٹھنے کا وقت ہے۔یہ اس بات کی نفی نہیں ہے کہ حکومت کا احتساب نہ کیا جا جائے یا اس کی غلطیوں یا بدعنوانیوں کو،اگر کہیں اس کے آثار ہیں، سامنے نہ لا یا جا ئے۔یہ اپوزیشن اور اہلِ صحافت کی ذمہ داری ہے۔تاہم تنقیدکرنا اور عدم استحکام پیدا کرنا دو مختلف عمل ہیں۔ان میں فرق ضرورکیا جا نا چاہیے۔دھرنے کی سیاست تنقید نہیں، عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔ تنقید کا مقصد بہتری لانا ہے۔ عدم استحکام کا مطلب بد امنی اور فساد ہے۔ قوم نے دیکھناہے کہ کس کا انتخاب کرنا ہے۔