سیاست کو آداب کے سانچے میں ڈھالنا سیاسی قیادت کا کام ہے۔ ہجوم ہیں اور جذبات سے مملو۔ استدلال نہیں، ہیجان ہے۔ سیاسی کلچر کو ایک نئے پیرہن کی ضرورت ہے۔ کوئی ہے جو پیش قدمی کرے؟
انتخابی ٹربیونل کے فیصلے پر حکومتی ردِ عمل با وقار نہیں تھا۔ پرویز رشید صاحب اوررانا ثناء اللہ اپنے جذبات کو تھام لیتے تو بہتر ہوتا۔ جج صاحب کا جواب مزید افسوسناک تھا۔ سب کو قانون کی زبان میں گفتگو کرنا چاہیے تھی۔ ایاز صادق صاحب سپریم کورٹ میں جاتے اور جج صاحب خاموش رہتے۔ دونوں کے مناصب کا تقاضا یہی تھا۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ جو عدالتی ایوانوں میں ہو نا چاہیے تھا، وہ ٹی وی سکرین اور اخبارات کے صفحات پر ہو رہا ہے۔ کسی چیز کو اس کے مقام سے ہٹانا، عربی زبان میں ظلم کہلاتا ہے۔ عدل یہ ہے کہ اشیا کو ان کی جگہ پر رکھا جائے۔ ہم نے سیاست کو عدل کے تابع کر نا ہے یا ظلم کے؟
عدالتوں میں فیصلے ہوتے ہیں۔ لازم نہیں کہ عدل بھی ہو۔ عدالتیں شواہد کی پابند ہوتی ہیں اور عدالتی اخلاقیات میں شک کا فائدہ ملزم ہی کو پہنچتا ہے۔ اسلامی اخلاقیات یہی کہتے ہیں اور سیکولر اخلاقیات کا رجحان بھی یہی ہے۔ اس کے دلائل ہیں جو مضبوط ہیں۔ سماج لیکن قائم نہیں رہ سکتا اگر عدالت کے فیصلے کو قبول نہ کیا جائے۔ اس کا معاملہ جمہوریت کی طرح ہے۔ اکثریت کا فیصلہ لازم نہیں کہ حق پر مبنی ہو۔ یہ ممکن ہے کہ عوام کی اکثریت کسی غلط رائے کو قبول کر لے۔ کسی نااہل کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دے۔ عوام کے فیصلے کو لیکن قبول کیا جاتا ہے کہ اس کے بغیر سیاسی نظم باقی
نہیں رہ سکتا۔ غلطی سے پاک فیصلے صرف وہی ہو سکتے ہیں جو وحی سے صادر ہوں۔ رسالت مآب ﷺ رخصت ہوئے تو یہ باب بند ہو گیا۔ اب فیصلے انسانوں نے کرنے ہیں جن میں غلطی اور صحت دونوں کا امکان رہے گا۔ سماج اور ریاست کے نظم کو باقی رکھنے کی یہی صورت ہے کہ نظم ِاجتماعی کے فیصلے تسلیم کیے جائیں۔ اس کا مظہر پارلیمان کا فیصلہ ہو سکتا ہے اور عدالت کا فیصلہ بھی۔ غلطی کے امکان کے پیشِ نظر ہی اپیل کا حق دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے کو لیکن کہیں ختم تو ہونا ہے۔ یوں سپریم کورٹ کو حتمی فیصلے کا حق ہے۔ غلطی اور صحت کا یہاں بھی ویسا ہی امکان ہے جیسے کسی ذیلی عدالت میں ہے، لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کو آ خری فیصلہ مانا جائے گا۔
سماج کی انہی خطوط پر تربیت کرنا چاہیے۔ سیاست کے حوالے سے یہ سیاسی جماعتوں کا کام ہے۔ عمران خان پر ہمارا بنیادی اعتراض ہی یہ ہے کہ انہوں نے سیاسی کلچر کو پامال کیا اور ریاستی اداروں کو بے وقعت کرنے کوشش کی۔ وقت کا جبر اگرچہ انہیں اداروں کی طرف لے آیا اوربعد از خرابی بسیار۔ لیکن اس کے باوصف یہ مثبت پیش رفت ہے۔ اس کو اب روایت بننا چاہیے۔ اس موقع پر حکومت کی باتوں میں اگر تحریکِ انصاف کی صدائے بازگشت سنائی دے تو یہ بات میرے لیے باعثِ تشویش ہے۔ یہ ترقی معکوس ہے۔ عدالتی فیصلوں نے انسانی تاریخ کا رخ متعین کیا ہے۔ مو لانا ابوا لکلام آزاد تو یہ کہتے ہیں
کہ دنیا کی سب سے بڑی ناانصافیاں عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں۔ تاریخی حوالے سے یہ امرِ واقعہ ہے۔ مگریہ اس عہد کی بات ہے جب حاکم محکوم کے خلاف فیصلے دیتے تھے۔ آزادی کی کوشش کو غداری کہا جا تا تھا۔ آمریتوں کے دور میں بھی ایسا ہو تا آیا ہے۔ جمہوریت کی برکت سے لیکن اس کا امکان کم ہوگیا ہے۔ اب معاشرتی و سیاسی نظم کو باقی رکھنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ قانون کی حکمرانی کو تسلیم کیا جا ئے۔
فیصلے کے وقت، عدالت کے باہر سیاسی کارکنوں کا ہجوم بھی میری سمجھ میں نہیں آ سکا۔ یہ عدالتی فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔ مذہبی لوگ یہ کام پہلے ہی کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کے باعث عدالتی فیصلے کیسے متاثر ہوئے۔ اب سیاسی جماعتوں نے بھی یہی کام شروع کر دیا ہے۔ جس دن این اے 122 کا فیصلہ آیا، ہم نے اس کا مشاہدہ کیا۔ آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو ملتان میں عدالت کے باہر بھی ایسے ہی مناظر ہیں۔''دنیا‘‘ کی ویب سائٹ پر میں پڑھ رہا ہوں کہ کارکن باہم دست و گریبان ہیں۔ میڈیا نے جو ہیجان پیدا کر رکھا ہے، وہ اس پر مستزاد ہے۔ میرا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اس بارے میں ایک ضابطہ اخلاق بنا نا چا ہیے۔ عدالتوں پر اثر انداز ہو نے کی ہر کوشش کادروازہ بند ہو نا چاہیے۔ عدالتی فیصلے کو معمول کا ایک واقعہ سمجھنا چاہیے۔ سیاست اور تاریخ پر اس کے جو اثرات مرتب ہوں گے، وہ ایک الگ موضوع ہے جس پر بات ہو سکتی ہے اور لکھا بھی جا سکتا ہے۔ اس کو لیکن ہیجان کا باعث نہیں بننا چاہیے۔
جسٹس افتخار چوہدری صاحب نے ہمارے ہاں ایک عدالتی کلچر متعارف کرایا۔ وکلا نے جس طرح اس کی آبیاری کی، اس سے یہ کلچر عدالتی روایت سے ہم آہنگ نہیں رہا۔ اس وکلا تحریک کے اثرات کا اگر سنجیدگی سے تجزیہ کیا جائے تویہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے سماج پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ بین السطور، نہیں معلوم کتنی نا آسودہ خواہشات ہمیں جھانکتی دکھائی دیں۔ یہ خواہشیں دراصل اس تحریک کی قیادت کر رہی تھیں۔ شاعری اور خطابت کے زور پر، اس کودوآتشہ بنایا گیا۔ جنرل پرویز مشرف رخصت ہوئے اور ساتھ ہی وہ خواب بھی جس میں ریاست ماں کی طرح دکھائی دیتی تھی۔
آج ہمارے سیاسی کلچر کو اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔ اس کا آ غاز سیاسی جماعتوں سے ہو نا چاہیے۔ ن لیگ تو خیر ایک لاوارث جماعت ہے، جب اس کی قیادت اقتدار کے ا یوانوں تک پہنچ جاتی ہے تو اس کے سر سے دستِ شفقت اٹھا لیتی ہے۔ تحریکِ انصاف کا معاملہ جسٹس وجیہ الدین بیان کر چکے۔ یہاں سرمایہ ہی فیصلہ کن ہے۔کوئی مزیدتفصیل جاننا چاہے تو فوزیہ قصوری صاحبہ سے مل لے۔ پیپلزپارٹی کو پاتال تک پہنچا نے کے باوجود زرادری صاحب بند مٹھی کھولنے پر تیارنہیں۔ جمعیت علمائے اسلام تو ہے ہی مو لا نا فضل الرحمٰن کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی۔ اس فضا میں سیاسی جماعتیں کیسے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہیں؟ سیاسی جماعتوں کی اصلاح نہیں ہو گی تو سیاسی کلچر نہیں بدلے گا۔ پھر ہیجان ہوگا اور جذبات کی فراوانی۔
ادارے کیا ہوتے ہیں، ان کے احترام سے کیا مراد ہے؟عدالتی فیصلوں پر کیسے ردِ عمل کا اظہار ہوتا ہے؟ پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ کی حیثیت کیا ہو تی ہے؟ یہ سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو ان امور کی تعلیم دیں۔ وزرا اور ججوں کے مابین اگر سیاسی بیانوں کا تبادلہ ہو، سیاست دان جج صاحبان پر الزام لگائیں اور جج جواباً کہیں کہ میں فلاں کو دیکھ لوں گا تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں خرابی ہے۔ وہ کہاں ہے، میں نے اس کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔
پاکستان میں سیاسی عمل ایک نظام کے تحت آگے بڑھ رہا ہے۔ لوگ اس نظام کو قبول کرتے ہوئے سیاسی جماعتیں بناتے ہیں مگر سیاست انقلابی کرنا چاہتے ہیں۔ انقلاب کسی نظام کو نہیں مانتا۔ اہلِ سیاست کو اس فکری پراگندگی سے نکلنا چاہیے۔ اگر انقلاب لا نا ہے تو پھر کیسا آئین اور کیسا نظام؟ اگر آئین ہے تو پھر سیاست کو اس کے تابع ہونا چاہیے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی اور اپنے کارکنوں کو بھی یہی سمجھانا ہوگا۔