"KNC" (space) message & send to 7575

مو لا نا مودودی کی یاد میں!

آج 23 ستمبر ہے جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘یہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودوی کا یومِ وفات ہے۔
کل ''دنیا‘‘ میں ایک خبر شائع ہوئی۔فیصل آباد سے اے پی پی کے رپورٹر کی یہ خبر خواہش،خوش گمانی اور تساہل کا' حسین امتزاج‘ ہے۔آئیے،دوبارہ اس خبر پر ایک نظرڈالتے ہیں: ''مفسرِ قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی مو لا نا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا یومِ وفات کل ملک بھر میں انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منایاجائے گا۔اس مو قع پر ملک بھر میں جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی تنظیموں کی طرف سے خصوصی تقریبات، تعزیتی ریفرنسز، کانفرنسز، مذاکروں، مباحثوں اور دیگر پروگراموں کا انعقاد کیا جا ئے گا جن میں مفسرِ قرآن کی اسلام، ملک و ملت اور تنظیم کے لیے سیاسی، دینی،مذہبی اور قومی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا جائے گا جب کہ قرآن خوانی کی محافل بھی منعقد کی جائیں گی۔‘‘ 
خبر نگار، معلوم ہوتا ہے کہ میری طرح مو لانا کا کوئی مداح ہے جس نے اپنی خواہش کو خبر بنا دیا۔میری طرح اُس کا دل بھی چاہتا ہے کہ اس جلیل القدر شخصیت کو یاد کیا جائے۔قریہ قریہ ان کا ذکرِ خیرہو۔جماعت اسلامی کے بارے میں رپورٹر کا حسنِ ظن اس خبر کا محرک ہے۔اس نے گمان کیا کہ جماعت ایسا کرے گی۔یہ خوش گمانی اس میں مانع رہی کہ وہ آنکھ کھول کر، یہاں وہاں دیکھ لیتا کہ کیاسطحِ زمین پرکہیں یہ سب کچھ ہو رہاہے ۔یوں خواہش، خوش گمانی اور تساہل کے امتزاج سے یہ خبر ظہور میں آئی۔میں یہ بات کسی گمان کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا۔اس میں مقدوربھر تحقیق بھی شامل ہے۔راولپنڈی اسلام آباد کے اخبارات میں کوئی ایسی اطلاع مو جود نہیں کہ مو لانا کی یاد میں کوئی تقریب ہو رہی ہے۔میں نے لاہورفون کیا اور ایک معتبر اور باخبر شخصیت سے پوچھا کہ کیاان کے شہر میں مو لانا کی یاد میں کوئی اجتماع ہو رہا ہے۔میرا خیال یہ ہے کہ اگر لاہور میں اس نوعیت کی کوئی تقریب ہو تو ناممکن ہے کہ وہ اس میں شریک یا کم از کم مدعو نہ ہوں۔انہوں نے بھی اپنے بے خبری کا اظہار کیا۔خبر نگار نے مبا حثوں اور مذاکروں سمیت جن اسماء کا ذکر کیا ہے، اگر ان میں سے سب کا ایک ایک مسمیٰ کہیں پایا جاتا تو میر ے جیسے روایت اور ماضی کے نوحہ گرکا خوشی سے دم نکل جاتا۔
جماعت اسلامی کے نظم کو اس کی داد دینا چاہیے کہ انہوں نے اخبارات میں خصوصی صفحے کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ اسے دیکھ کرالبتہ،جماعت کے ذمہ داران کی خوش ذوقی کا علم ہوا۔ اس اشاعت میں برادرم لیاقت بلوچ صاحب کے نام سے ایک مضمون موجود ہے جس کا عنوان ہے ''سید ابو الاعلیٰ مودودی، بحیثیت نثر نگار‘‘۔نثر نگاری اور وہ بھی مو لانا مودودی کی!لکھ کون رہا ہے؟لیاقت بلوچ۔ کیا جماعت کے ذمہ داران یہ بھی نہیں جانتے کہ کس مضمون کا انتساب کس کی طرف کیا جا نا چا ہیے؟ اگر یہ مضمون پروفیسر خورشید احمد صاحب،ڈاکٹر سفیر اختر یا پھر برادرم سلیم منصور خالد کے نام سے شائع ہوتا توہم جیسے مولانا کی نثر کے قتیل مان لیتے کہ انہوں نے خود لکھا ہوگا۔اگر لیاقت بلوچ صاحب کے نام سے کسی مضمون کی اشاعت ضروری تھی تو مو لانا کی سیاسی یا قومی خدمات کا عنوان باندھاجاتا۔لیاقت صاحب کا جس گلی سے کبھی گزر ہی نہیں ہوا ،ان کو کیا معلوم کہ وہاں کیا کیا بزم آرائیاں ہیں؟
آج مولانا مودودی کا علم ہی نہیں،اُن کی شخصیت بھی متقاضی ہے کہ اس پر ہزاروں صفحات لکھے جائیں اور نئی نسل کو بتایا جائے کہ اس کی تاریخ کے دامن میں کیا کچھ ہے۔میں نے مولانا کے فکری آغوش میں آنکھ کھولی۔ آج میں اِس کی گرفت سے نکل چکا مگر یہ کتنا مشکل کام تھا،یہ وہی جانتا ہے جس کی جان پر گزر گئی۔کتنی بے چین راتیں اس کی نذر ہوئیں۔میں اگر یہ تمثیل اختیار کروں تو شاید مبالغہ نہ ہو کہ ''کبھی سوزو سازِ رومی، کبھی پیچ وتابِ رازی‘‘۔کبھی دل پر واردات گزری اور کبھی دماغ مضطرب ہوا۔یہ اضطراب دراصل اسی تنقیدی شعور کی دَین تھا جو مو لانا کی تحریروں کے مطالعے سے پیدا ہوا۔مو لاناخود اس شعور کے ساتھ جس جس وادی میں اترے ہیں،واقعہ یہ ہے کہ آج بھی وہاں قدم رکھتے ہوئے، ہمارے پر جلتے ہیں۔یہ بات میں نے ان ہی سے سیکھی کہ عقیدت کو کبھی دلیل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔یوں ان سے عقیدت برقرار رہی مگر ناقۂ فکر نے کہیں اور جا پڑاؤ کیا۔ میں نے پڑاؤ اس لیے کہا کہ علم کے راستے میں پڑاؤ ہوتے ہیں منزل نہیں۔ 
مولانا عالم ہی نہیں، آ دمی بھی بہت بڑے تھے۔میں نے مولانا مودودی کو کبھی نہیں دیکھا۔اُنہیں ایسے لوگوں سے جانا ہے جنہیں مو لانا کا قرب حاصل رہایا جو انہیں جانتے تھے۔کبھی علامہ اقبال کی توقعات سے انہیں سمجھا۔کبھی محترم مجیب الرحمن شامی کا لکھا خاکہ پڑھا تو جانا کہ ان کی شخصیت کے خد وخال کیسے تھے۔یہ دلچسپ بات ہے کہ ان کے ساتھ عقیدت اس حلقے میں پختہ ہوئی جو اُن کا ناقد ہونے کی شہرت رکھتا ہے۔یہ شاید مو لانا کے حسنِ تربیت ہی کا فیضان ہے کہ دلیل اور عقیدت ایک دوسرے کے راستے میں ،مزاحم نہیں ہوتے۔میں نے اپنے استاذ جاوید احمد صاحب غامدی کو بارہا ان کے بارے میں کلام کرتے سنا ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ مو لانا کا ذکر کرتے ہوئے، ان پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔جیسے کوئی اپنے محبوب کویاد کر رہا ہے جس سے بچھڑجانے کا صدمہ بہت گہرا ہے۔ایک ڈیڑھ ماہ پہلے،ایک تقریب میں مو لا نا کا تذکرہ ہوا۔مفتی محمد سعید صاحب بھی موجود تھے‘ جاوید صاحب نے مولانا کے شخصی اوصاف کا بیان شروع کیا تو' وہ کہے اور سنا کرے کوئی‘ کا سماں بندھ گیا۔ان کے
علم کا ذکرہوا اور للہیت کابھی۔وہ اکثر کہتے ہیں کہ مو لانا کے روایتی ناقدین کوفی الجملہ، اُن کی خشیت اور علم کی ہوا تک نہیں لگی۔اسی گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ مو لانا حافظِ قرآن نہیں تھے لیکن قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ انہیں یاد تھا۔کئی بات ایسا ہوا کہ تراویح کی نماز میں امام سے تسامح ہوا تو مو لانا نے لقمہ دیا۔ 'روایتی اہلِ علم کے تصورِعلم و تقویٰ اور مو لانا مو دودی‘ کے حوالے سے 'تنقیدات‘ میں مو لانا امین احسن اصلاحی نے جو لکھ دیا ہے، واقعہ یہ ہے کہ وہ اس باب میںحرفِ آخر ہے۔
مو لانا مودودی کا علم ہی نہیں، اُن کی شخصیت بھی اس کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ خصوصی مطالعہ کا موضوع بنے۔نئی نسل کو یہ معلوم ہو کہ ہماری روایت میں بڑائی صرف علم ہی سے نہیں، خدا خوفی اور اعلیٰ انسانی اوصاف سے بھی ترتیب پاتی ہے۔یہ بات خود مو لا نا مودودی کے علمی کام سے مستحکم ہوئی کہ علم کی دنیا میں صرف دلیل کی حکمرانی ہوتی ہے۔کسی کی رائے کے غلط ہونے سے،اس کی انسانی عظمت میں کمی نہیں آتی۔اس کے ساتھ ان کی شخصی زندگی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم اگر بنیادی انسانی اقدار سے بے نیاز ہے‘ اگر اس میں توسع،باہمی احترام،برداشت اورتواضع نہیں ہے تو ایسا علم ہماری روایت میں محمود نہیں ہے۔ تہمت، الزام اور تکفیر کے فتووں کا چلن اسی وقت ہوتا ہے جب علم آخرت میں جواب دہی کے احساس سے بیگانہ ہو جائے۔بد قسمتی سے آج ہمارا سماج اس رویے کی زد میں ہے۔اس کا ایک علاج مولانا مودودی جیسے مشاہیر کو یاد کرنا بھی ہے۔ فیصل آباد کے رپورٹر کی خواہش، اللہ کرے کہ خبر بن جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں