انتخابات کے زخم تو بھر جائیں گے لیکن وہ گھاؤ کیسے مندمل ہوںگے جو اعصاب پر لگے ہیں؟میں ٹی وی نہیں دیکھتا۔ نیوزچینل تو بالکل نہیں، صرف شہ سرخیاں دیکھ لیتا ہوں، تفصیلات کے لیے اگلے دن کے اخبارات کا انتظار کر تا ہوں۔ بالجبر دیکھنا پڑ جائے تو دوسری بات ہے۔ تفریح کے لیے بھی اب ٹریجک ڈرامہ یا فلم نہیں دیکھے جاتے۔ اگرکسی چینل پر کوئی مزاحیہ ڈرامہ یا فلم چل رہی ہو تو رک جا تا ہوں۔ سچ یہ ہے کہ میرے اعصاب اب ٹی وی دیکھنے کے متحمل نہیں ہوتے۔ جو بات اقبال نے مدرسہ و خانقاہ کے بارے میں کہی تھی، اب نیوز چینلز پہ صادق آتی ہے:
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
اخبارات کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ حرفِ مطبوعہ اس ہیجان کو سمیٹنے پر قادر نہیں جو ٹی وی سکرین برپا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ یہاںپل بھر میں رائی کا پہاڑ بنتا ہے۔ سوچنے سمجھنے کا موقع نہ خبر دینے والے کے پاس ہوتا ہے نہ سننے اور دیکھنے والے کے پاس۔ لمحوں میں اعصاب ایسے دباؤ سے گزرتے ہیں کہ نہ پوچھیے۔
ان دنوں ایک علم کا چرچا ہے۔۔۔۔ جذباتی ذہانت (Emotional Intelligence) یہ علم بتاتا ہے کہ انسانی وجود میں جذبات ہی قوتِ محرکہ ہیں۔ اس علم کی تفہیم اور تدریس کے لیے امریکہ میں ایک ادارہ قائم ہے۔۔۔۔6 سیکنڈز(6 Seconds)۔ اس کا کہنا ہے کہ انسان اگر کسی بات پر ردِ عمل دیتے وقت چھ سیکنڈ توقف کر لے تو ذہن کو کام کر نے کا موقع مل جا تا ہے اور وہ بہتر اور زیادہ عقلی نتیجے تک پہنچ جا تا ہے۔ یہ چند لمحات اس کی زندگی کا رخ بدل سکتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے پاس یہی چھ سیکنڈ نہیں ہوتے۔ اس کے نتیجے میں اعصاب جس دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، اس کا اندازہ ہر اس آ دمی کو ہے جو بے حس نہیں ہے۔
یہ معاملہ محض میڈیا کا نہیں ہے۔ اِس کا تعلق سیاست اور تاریخ سے بھی ہے۔ ہم سب ، پہلے سے جانتے تھے کہ این اے 122 کا نتیجہ جو بھی ہو 12اکتوبر11 اکتوبر سے مختلف نہیں ہو گا۔ ایک حلقے کے ضمنی انتخابات سماج کو بدل نہیں سکتے۔ اہلِ سیاست نے مگر غیر ضروری ہیجان برپا کر دیا۔ تحریک انصاف کا مخاطب چونکہ ہے ہی نوجوان طبقہ جو دماغ سے نہیں دل سے سوچتا اور ایک رومانوی فضا میں زندہ رہنا چاہتا ہے، اس لیے بطور حکمتِ عملی، اس نے ہیجان کو فروغ دیا۔ ن لیگ اس جال میں پھنس گئی۔ میڈیا نے اپنے تجارتی مقاصد کے لیے اس رجحان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس طرح پورے معاشرے کو ایک غیر ضروری اضطراب میں مبتلا کر دیاگیا۔ اب ایک آ دمی کے اعصاب کہاں تک اس کے متحمل ہو سکتے ہیں؟
ایک سبب تاریخی بھی ہے۔ ہمارا معاشرہ 1979ء سے حالتِ جنگ میں ہے۔ پہلے ریاست نے ایک حکمتِ عملی کے تحت پورے ملک کو ایک جنگ میں جھونکا۔ پھر مذہبی طبقات کو ساتھ لیا۔ اب ہرمسجد کے مینار سے اسلام کی ایک جنگجوانہ تعبیر سنائی دینے لگی۔ ہر خطبہ جنگ کی ترغیب دیتا اور جذبات کو مشتعل کر تا ہوا۔ جب منظم فوجیں نہیں ہوتی تھیں تو حالتِ جنگ میں سماج کو پکارا جا تا تھا۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں بھی جہاد کے لیے نفیرِ عام کیا جاتاتھا۔ جنگ کے لیے اہل آ دمیوں کا انتخاب ہوتا تھا اور ظاہر ہے کہ بوڑھے یا بچے شامل نہیں ہوتے تھے۔ یہ واقعہ سب کو معلوم ہے کہ کیسے معاذ اور معزکو کم سنی کے سبب غزوہ بدر کے لیے منتخب نہیں کیا گیا اور پھر انہوں نے اس کے لیے اصرار کیا۔ یہ ہنگامی اور جنگ کے حالات میں ہوتا تھا۔ تب جنگ دنوں کا معاملہ تھا۔ اس کے بعد زندگی معمول کی طرف لوٹ آتی تھی۔
مو جودہ دور میں جب منظم ریاست وجود میں آ گئی اورجنگ ایک فن بن گئی تو عام آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ اس میں حصہ لے سکے۔ اس کے لیے اعلیٰ سطح کی پیشہ ورانہ تربیت لازم ہوگئی۔ یوں منظم فوج وجود میں آئی اور وہی جنگ لڑنے کا اہل قرار پایا جو فطری اہلیت کے ساتھ خاص تربیت کا بھی حامل ہو تا ہے۔ اب جنگ میںایک عام آ دمی کا کردار ختم ہوگیا۔ اب وہ اپنی آمدن کا ایک خاص حصہ ریاست کو دیتا ہے کہ وہ پیشہ ورانہ مہارت کی حامل فوج تیار کرے۔ عام شہری کے لیے اب جنگ میں عملی شرکت کی یہی صورت باقی ہے۔
ہماری ریاست نے اس اصول کی خلاف ورزی کی۔ اس نے پورے سماج کو جنگ میں جھونک دیا۔ جنگ کوگلی بازار تک پھیلا دیا۔گوریلا جنگ نے دھماکوں اور دہشت گردی کو جنم دیا۔ اس کے نتیجے میں ہمارا سماج گزشتہ پینتیس سال سے حالتِ جنگ میں ہے۔ پورے ملک پر خوف کی چادر تنی ہے۔ اس کیفیت میں اعصاب کہاں تک ساتھ دیں؟ یوں ہم اعصابی طور پر بر باد ہوگئے۔ یہ قوم فی الجملہ نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔ خدا خدا کر کے، اب اس صورتِ حال سے نکلنے کا امکان پیدا ہو چلا تھا۔ زندگی معمول کی طرف لوٹ رہی تھی کہ سیاست کو میدانِ جنگ میں بدل ڈالا گیا۔ ہیجان کو سیاسی ہتھیار بنا دیا گیا۔ صرف نو جوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے جذباتی استحصال کا کلچر پیدا کیا گیا۔ ہر دن کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے اہم دن بتایا گیا۔ ہر واقعے کے بارے میں یہ تاثر قائم کیا گیا کہ اس کے نتیجے میں عوام کے شب و روز بدل جائیں گے۔ ہر معرکے کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیا گیا۔ ہیجان کی اس فضا میں یہ ممکن نہیں کہ سوچ کا عمل آگے بڑھ سکے۔ شاید مطلوب بھی یہی ہے۔ ایک حکمتِ عملی کے تحت قوم کو ان چھ سیکنڈز سے محروم کر دیا گیا جو اسے صحیح فیصلے تک پہنچنے کے لیے، اسے لازماً چاہئیں۔
قوم کے اہلِ دانش کو اس پر غور کر نا چاہیے کہ یہ رجحان ہمیں کہاں لے جائے گا۔ یہ دو سیاسی جماعتوں کے تقابل کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ کسی کے اچھے یا برے ہونے کا سوال بھی نہیںہے۔ یہ عمران خان یا پرویز رشید کا مقابلہ نہیں ہے۔ یہ ہیجان اور دشنام کے اس کلچر کا سوال ہے جو اس قوم کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور اخلاقی سرمایے سے محروم کر رہا ہے، جومنفی اندازِ نظر پیدا کر رہا ہے، جو اعصاب شکن ہے۔ حکومت پر جائز تنقید کون کون غلط کہہ سکتا ہے؟ جو لکھنے والا اس سے دانستہ گریز کر تا ہے، وہ بلا شبہ بد دیانتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اصلاح اور تنقید کا عمل تو جاری رہنا چاہیے کہ اسی میں سماج کی بقا ہے۔ سوال لیکن یہ ہے کہ یہ کام کس قیمت پر ہو گا؟ ہر آدمی جانتا ہے کہ این اے 122کا انتخابی معرکہ مروجہ سیاسی اخلاقیات کے تحت لڑا گیا۔ انتخابی مہم کی حد تک،کسی کو دوسرے پر کوئی اخلاقی برتری حاصل نہیں تھی۔ جب سارا عمل ہی محض چہروں کی تبدیلی ہے تو یہ ہیجان کیوں؟
میرے اعصاب تو اس ہیجان کے متحمل نہیں ہو سکتے، اس لیے میں نیوز چینلز دیکھتا ہوں نہ سیاست دانوں کی تقریریں سنتا ہوں۔ اِن دنوں میرے سرھانے مو لانا وحیدالدین خان کی 'کتابِ معرفت‘ رکھی ہے اور ڈاکٹر خالد مسعود کی مرتب کردہ 'نقوشِ ٹیگور‘۔ دینی معرفت کو جس مہارت کے ساتھ اور پرکیف اسلوب میں مولانا بیان کرتے ہیں، کم لوگوں کو یہ صلاحیت ودیعت کی گئی ہے۔کتاب میں شامل اسمِ اعظم اور دعا پر مولانا کا مضمون میں نے بار ہا پڑھا اور ہر بار ایک نئی لذت سے آشنا ہوا۔ 'نقوشِ ٹیگور‘ آٹو گرافس کا مجموعہ ہے۔ ایک دو جملوں میں حکیمانہ باتوں کادلکش ادبی بیان۔ کیا اچھا ترجمہ ہے جو ڈاکٹر صاحب نے کیا! سوچتا ہوں کہ خدا کی معرفت نہ ہو اور اہلِ ادب کی تخلیقات نہ ہوں تو اعصاب کو سکون کہاں سے ملے؟ خود کو اہلِ سیاست اور میڈیا کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا انجام تو دیکھ لیا!