نئی سیاسی جماعت کی ضرورت پر میں محترم ہارون الرشید صاحب سے متفق نہیں تھا ۔اب خیال ہوتا ہے کہ اس تجویز پر سنجیدگی سے بات ہونی چاہیے۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج حقیقی مقبولیت کا تعین نہیں کرتے۔ سب جانتے ہیں کہ حکومتیں کیسے اثر انداز ہوتی ہیں اور عوام کیوں حکومتی امیدوار کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس بارجھگڑا ووٹرزمیں نہیں، امیدواروںمیں تھا۔ ووٹرز تو طے کئے بیٹھے تھے کہ انہوں نے حکومتی نمائندے ہی کاانتخاب کر نا ہے۔ امیدواروں میں سے اکثریت کی خواہش تھی کہ وہ حکومتی جماعت کا انتخاب قرار پائے۔ جو مایوس ہوا وہ آزاد کھڑا ہو گیا۔ حکومت کو اس سے زیادہ پریشانی نہیں تھی کہ اس نے بھی جیت کر حکومتی کیمپ ہی میں آنا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان انتخابات سے مقبولیت سمیت بنیادی سیاسی حقیقتیں تبدیل نہیں ہوئیں۔ تحریکِ انصاف کی مقبولیت پر کچھ دوسرے عوامل اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اُن کا الگ سے تذکرہ ہو نا چاہیے۔
ملک ایک بار پھر دو جماعتی نظام کی طرف لوٹ گیا ہے۔ درست تر مفہوم میں ایک جماعتی نظام کی طرف۔ اِس وقت ملک میں ایک ہی جماعت پائی جاتی ہے۔ آپ چاہیں تو اسے ن لیگ کہہ لیں، چاہیں تو تحریکِ انصاف۔ اگر کوئی حجاب تھا بھی تو اب اٹھ چکا۔ سادہ سی بات ہے، اس ملک میں دھڑوں کی سیاست ہوتی ہے۔ ایک دھڑا اگر ن لیگ کے ساتھ ہے تو دوسرا اس میں شامل نہیں ہو سکتا۔ ماضی میں پنجاب کی حدتک، ایسے گروہ کی پناہ گاہ پیپلزپارٹی تھی۔ اس کے انتقال پُرملا ل کے بعد یہ حیثیت تحریکِ انصاف کو حاصل ہوگئی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کا متبادل کوئی قومی سیاسی جماعت نہیں۔ ن لیگ نے، معلوم ہوتا ہے کہ کسی معاہدے کے تحت پیپلزپارٹی کو کھلا میدان دے رکھا ہے۔ ورنہ حیرت ہے کہ کوئی قومی جماعت ایک پورے صوبے کو اس طرح بھی نظر انداز کر سکتی ہے۔ نظر انداز تو اس نے پختون خوا کو بھی کیا اور اس کی وجوہ بدستور راز ہیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کا متبادل قوم پرست جماعتیں ہیں یا فنکشنل لیگ جو قوم اور پیر پرستی کا ایک مقامی آمیزہ ہے۔ تحریک ِ انصاف نے کوشش کی لیکن وہ دیہی علاقوں میں جگہ نہیں بنا سکی۔ شہری علاقوں میں البتہ وہ کسی حد تک متبادل بن سکتی ہے۔
عمران خان کے ساتھ کسی منطق اور دلیل کا رشتہ تو ختم ہو چکا۔ مفاد اور رومان البتہ باقی ہیں۔ مفاد کی وجہ میں نے عرض کر دی کہ دھڑے کی سیاست ہے۔ رومان جو اُن کے شخصی کرشمے سے پھوٹا ہے، ایک گلیمر ہے جس نے نوخیز اور پسماندہ ذہنوں کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ چند دن پہلے،ایک پڑھی لکھی خاتون نے مجھے حیران کر دیا، جب ان سے کوئی دلیل نہ بن پائی تو کہا: عمران کی ہر بات میں کوئی حکمت اور راز ہوتا ہے جہاں تک ایک عامی کا ذہن نہیں پہنچ سکتا، یہ شخصیت پرستی کی آخری منزل ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ہم یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں رکھتے ہیں کہ جس کی حکمتیں ہماری نظروں سے پوشیدہ رہتی ہیں۔ رہے ہم جیسے انسان تو ان کی بات دلیل کی بنیاد پر قبول اور رد کی جائے گی۔ رومان میںدلیل کا دخل نہیںہو تا۔ سندھ میں دیکھ لیجیے! پیپلزپارٹی کا کیسا رومان ہے کہ ابھی تک قائم ہے۔ لوگوں نے بچشمِ سر سب کچھ دیکھا مگر ابھی تک وابستہ ہیں۔
گزشتہ دنوںعمران خان کی شخصیت کے گرد قائم رومان کے حصار سے، وقت کی تیز و تند موجیں ٹکراتی رہی ہیں۔ انہوں نے اس کی دیواروں میں شگاف ڈال دیے ہیں جس سے بہت کچھ دکھائی دینے لگا ہے۔ اُن کے بارے میں آنے والی ہر خبر مجھے اپنے مرحوم دوست خلیل ملک کی یاد دلاتی ہے۔ انہوں نے قابلِ ذکر وقت عمران خان کے ساتھ گزارا۔ وہ ایک ذہین آ دمی تھے جوانسانی نفسیات، سیاست اور سماج کی حرکیات کوبہت اچھی طرح سمجھتے تھے۔ انہوں نے بہت پہلے عمران خان پر ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا اور اس کا خاکہ بھی تیار کر لیاتھا: ''عمران خان: شخصیت کا بحران اور سیاسی المیہ‘‘۔ ان کی کتاب ''جب پاکستان لٹ رہا تھا‘‘ کے پس ورق پر اس کا اشتہار بھی شائع ہوا۔ زندگی نے مگر ان کو مہلت نہ دی ورنہ وہ کتاب خاصے کی چیز ہوتی۔ اب عمران کے بارے میں خوش گمانیاں ہیں یا بد گمانیاں۔ حقیقی تجزیہ بہت کم پڑھنے یا سننے کو ملتا ہے۔
ہماری سیاست دائرے کا سفر ہے۔ آج ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں برسوں پہلے تھے۔ مارشل لا نے کبھی مہلت دی تو دو جماعتی نظام سامنے آیا جو اصلاً ایک جماعتی نظام ہے۔ اقتدار کی چاہت میں بے چین لوگوں کا ایک گروہ ہے جس کا ایک حصہ ایک جماعت میں ہو تا ہے اور دوسرا دوسری جماعت میں۔ آج پھر وہی منظر ہے، اس تبدیلی کے ساتھ کہ پیپلزپارٹی کی جگہ تحریکِ انصاف نے لے لی۔ میرے نزدیک اس مخمصے سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے: جمہوری عمل کا تسلسل۔ اس سے وہ امکان باقی رہتا ہے جو نئے حقائق کو جنم دیتا ہے۔ ان حقائق میں کسی نئی سیاسی قوت کا ابھر نا بھی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ یہ نئی قوت کیسی ہونی چاہیے؟
سیاسی تبدیلی سماجی تبدیلی کے تابع ہے۔ صرف انتخابی عمل سے تبدیلی نہیں آ سکتی جب تک سماج شعوری طور پرکسی تبدیلی پر آمادہ نہ ہو۔ تحریکِ انصاف کے تجربے سے یہ ثابت ہوا کہ محض تبدیلی کی خواہش کافی نہیں۔ اس سے صرف ہیجان برپا کیا جا سکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ چہرے تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ اصل تبدیلی اسی وقت آ سکتی ہے جب سیاست رومان کے بجائے کسی منطق اور دلیل پرکھڑی ہو۔ لوگ تبدیلی کے مفہوم سے واقف ہوں اور اس کے ساتھ ان پر یہ بھی واضح ہو کہ یہ کس طرح آئے گی۔ معیشت، سیاست اور سماج پر مجوزہ تبدیلی کیسے اثر انداز ہو گی۔ اس کی حکمت عملی کیا ہوگی اور یہ تبدیلی کس رفتار کے ساتھ آئے گی۔ یک دم یا تدریجاً۔
نئی ابھرنے والی سیاسی قوت کے لیے لازم ہے کہ وہ ان تمام امور کا ادراک رکھتی ہو۔ وہ قوم کے سامنے اپنا واضح منشور رکھے اور ساتھ ہی مختلف رپورٹس مرتب کرے جس سے یہ معلوم ہو کہ نظامِ صحت میں تبدیلی کے لیے اس کے پاس کیا لائحہ عمل ہے اور تعلیم میں بہتری کیسے آئی گی۔ اسی طرح دیگر شعبوں کے بارے میں بھی دو اور دو چار کی طرح بات کی جا ئے۔ مردانِ کار کہاں سے آئیں گے اور آج حکومتی اداروں کو جو افراد میسر ہیں، وہ اس تبدیلی کے عمل میں کس حد تک کارآ مد ہو ں گے۔ ملک میں تبدیلی کا واحد آئینی راستہ انتخابات ہیں۔ مو جودہ انتخابی عمل سے باصلاحیت اور اس تبدیلی سے ہم آہنگ افراد کیسے سامنے آ سکیں گے۔ نئی سیاسی قوت کے پاس ان سب سوالات کے جواب ہونے چاہئیں۔ اس کے ساتھ عوام کو قائل کرنے کے لیے ابلاغ کاایک مستقل اور مربوط نظام بھی اس کی ناگزیر ضرورت ہے۔ اس سیاسی قوت کو اجتماعی دانش کی قیادت میں سامنے آنا چاہیے۔
میرے خیال میں تبدیلی کا صحیح منہج یہی ہے کہ سماجی تبدیلی کو موضوع بنایا جائے۔ زندگی لیکن ایک مسلسل عمل ہے اورجو ہر شعبہ حیات میں جاری ہے۔ سیاسی عمل اپنی جگہ جاری ہے جو سماجی تبدیلی کے انتظار میں موخر نہیں ہو تا۔ اس لیے اگر کوئی اس شعبے میں قسمت آ زمائی کر نا چاہتا ہے اور اصلاح کا کوئی پروگرام رکھتا ہے تو اسے ضرور یہ کاوش کر نی چاہیے۔ اس سے اگر چہ ہمہ گیر تبدیلی کا امکان نہیں لیکن کسی حد تک اصلاح کی توقع باندھی جا سکتی ہے۔ اس لیے ہارون الرشید صاحب کی تجویز سنجیدہ توجہ کی متقاضی ہے۔
اب ایک بارپھر سیاست میں خلا واقع ہو چکا ہے۔ اس کا اگلا مرحلہ مایوسی ہے۔ اس کو حکومت کی گڈ گورننس روک سکتی ہے یا پھر ایک نئی قوت۔