اقبال نے کہا تھا:
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
یومِ اقبال کی چھٹی کیا ختم ہوئی، تجدیدِ تعلق کا باب کھل گیا۔ 9 نومبر کو مجھے اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے مدعو کیا۔ میں نے جو کہنا تھا، کہا‘ مگر وکلا کی گرم جوشی دیدنی تھی۔ شرکا کی تعداد اتنی تھی کہ ہال کی وسعت کم پڑ گئی۔ اقبال کی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا۔ میرا تاثر تھا کہ چھٹی ختم نہ ہوتی‘ تو شاید وابستگی کا یہ احساس بھی زندہ نہ ہوتا۔ اسی شب ایوانِ صدر میں ایک تقریب برپا ہوئی۔ میرے علم میں نہیں کہ ماضی میں کبھی اس نوعیت کی کوئی مجلس اس ایوان میں منعقد ہوئی ہو۔ صدر صاحب پر اُن کے آئینی اختیارات واضح ہیں۔ وہ اسی دائرے میں رو بہ عمل ہیں۔ تعلیم، صحت، فنونِ لطیفہ اور کرپشن کے خلاف قوم کو حساس بنانا ان کا ہدف ہے۔ اقبال‘ تعلیم اور فنون لطیفہ کا حصہ ہیں۔ وہ بدرجہ اتم اس کے مستحق تھے کہ ایوانِ صدر میں ان کے افکار کی بازگشت سنائی دے۔
چھٹی کے باب میں صائب بات وہی ہے‘ جو محترم مجیب الرحمٰن شامی صاحب نے کہی۔ تعطیلات کے نظام پر ایک عمومی نظر ڈالی جاتی‘ اور پھر سال بھر کی چھٹیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کیا جاتا۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں یومِ مئی کی چھٹی منائی جاتی ہے۔ اس کا ایک خاص نظریاتی اور تاریخی پس منظر ہے‘ جو اب متروک ہو چکا۔ مزدوروں سے اظہارِ یک جہتی لازم ہے‘ لیکن اس کی نوعیت تبدیل ہو سکتی ہے۔ جو دلیل یومِ اقبال کی چھٹی ختم کرنے کے حق میں دی جا رہی ہے، وہی یومِ مئی کے لیے بھی دی جا سکتی ہے۔ مزدوری تو عبارت ہی محنت سے ہے۔ ہم اس دن زیادہ کام کر کے مزدوروں سے اظہارِ یک جہتی کر سکتے ہیں۔ صرف یومِ اقبال کو ہدف بنانے سے سوالات پیدا ہوئے۔ قوم نے بحیثیت مجموعی اس سے ایک منفی تاثر لیا۔ ہم تشکیک کی فضا میں جینے والے لوگ ہیں۔ اس کو بہت سے معانی پہنائے گئے۔ ممکن ہیں یہ غلط ہوں لیکن اس کی گنجائش تو پیدا ہو گئی۔ پھر پس منظر میں لبرل پاکستان کا ذکر بھی تو موجود تھا۔
طبقہ اعیان کے جس نظری افلاس کا میں ذکر کرتا رہتا ہوں، یہ اسی کا ایک شاخسانہ ہے۔ وزیر اعظم کے تقریر نگار شاید نہیں جانتے کہ 'لبرل ازم‘ ایک اصطلاح ہے‘ جو ایک خاص نظامِ فکر اور رویے کا بیان ہے۔ اصطلاح کو لغت سے نہیں، سماجی و علمی تناظر میں سمجھا جاتا ہے۔ لبرل ازم کے مقابلے میں 'روایت پسندی‘ کی اصطلاح مستعمل ہے۔ نواز شریف صاحب لبرل طبقے کے نہیں، روایتی طبقے کے نمائندہ ہیں۔ لبرلز کی نمائندگی ہمارے ہاں پیپلز پارٹی کرتی ہے۔ نواز شریف صاحب جس عصبیت کے راہنما ہیں وہ اعتدال اور روایت پسند پاکستانیت ہے۔ اس کا اپنا ایک مزاج ہے۔ یہ ایک خاص حد سے زیادہ لبرل ہو سکتی ہے نہ ایک حد سے زیادہ مذہبی۔ یہی سبب ہے کہ ہماری مذہبی جماعتیں تاریخ میں کبھی عوامی عصبیت کی نمائندہ نہیں بن سکیں۔ پیپلز پارٹی کو بھی اسلام کا سہارا لینا پڑا۔ اس کو بھی ضرورت محسوس ہوئی کہ عوام سے مخاطب ہوتے وقت اپنے سوشلزم اور جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کرے۔ اس کے بغیر اسے عوامی پذیرائی نہیں مل سکتی تھی؛ تاہم تمام حکومتی اقدامات کے باوجود بھٹو کو مذہبی طبقے کی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ وہ لبرل طبقے کے نمائندہ ہی قرار پائے۔ وہی طبقہ آج جس کی پُرجوش وکالت رضا ربانی صاحب اور شیری رحمٰن صاحبہ کرتی ہیں۔
ہر شہری ظاہر ہے کہ اپنے نظریات کے انتخاب کا حق رکھتا ہے۔ اس حق کو چھینا نہیں جا سکتا۔ میں اسے تنقیدی پہلو سے نہیں، امر واقعہ کے طور پر بیان کر رہا ہوں۔ مجھے صرف یہ واضح کرنا ہے کہ نواز شریف صاحب لبرل پاکستان کا نعرہ لگاتے ہوئے جتنے بلند آہنگ ہو جائیں، وہ اس طبقے کے نمائندہ نہیں بن سکتے۔ یہ تو ممکن ہے کہ ان کے روایتی حامی طبقے میں اُن کے بارے میں شکوک پیدا ہو جائیں‘ لیکن یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ لبرل طبقے کے راہنما بن جائیں۔ کوے کو اسی لیے ہنس کی چال چلنے سے منع کیا گیا ہے کہ اس تمنا میں، اندیشہ رہتا ہے کہ وہ اپنی چال بھی بھول جائے۔
نواز شریف صاحب ایک عرصہ سے فکری ابہام کا شکار ہیں۔ ان کے حلقۂ دوستاں میں کو ئی نہیں جو انہیں بتا سکتا کہ اس کا علاج لبرل ازم میں نہیں، فکرِ اقبال میں ہے۔ فکرِ اقبال کے حوالے سے بھی یقیناً سوالات موجود ہیں اور کسی صاحبِ فکر کا کام اس سے مبّرا نہیں؛ تاہم ان سوالات کی نوعیت علمی ہے۔ ایک جدید
مسلم ریاست کی تشکیل کے ضمن میں اس وقت جو مسائل ہیں، میرا تاثر ہے کہ اقبال ان کا شافی جواب دیتے ہیں۔ میں نے گزشتہ کالم میں بعض پہلوئوں کا ذکر کیا۔ 9 نومبر کو ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کا ایک انگریزی مضمون اخبارات میں شائع ہوا۔ یہ ان کی ایک غیر مطبوعہ تحریر تھی۔ اس سے بھی یہ راہنمائی ملتی ہے کہ کیسے جدید عہد کے سیاسی و سماجی مسائل کی تفہیم میں فکرِ اقبال سے مدد لی جا سکتی ہے۔ پھر اقبال کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ان کا حوالہ سماجی اعتبار سے معتبر ہے۔ اس کی بڑی وجہ فکرِ اقبال سے جزوی شناسائی ہے۔ نواز شریف صاحب اگر فکرِ اقبال کی بنیاد پر سماجی و سیاسی تشکیل نو کی بات کریں تو شاید انہیں لبرل پاکستان کا نعرہ بلند کر نے کی ضرورت نہ رہے۔
یومِ اقبال کی چھٹی پر عوامی ردِ عمل کو ایک مثبت رخ دیا جا سکتا ہے۔ لوگوں تک یہ بات پہنچائی جا سکتی ہے کہ جو عمل اور حرکت کا شاعر ہے، اس کی یاد اس طرح منانی چاہیے کہ قوم معمول سے زیادہ متحرک ہو۔ ہم اپنی تخلیقی قوت کے مظاہر سامنے لا کر اقبال سے وابستگی کا اظہار کر سکتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں دن کا ایک حصہ اس کے لیے وقف کیا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کی طرح، فکرِ اقبال پر خصوصی لیکچرز کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ انتہا پسندی کے مفاسد کو نمایاں کرنے میں فکر ِاقبال سے مدد لی جا سکتی ہے۔ ہمیں اس دن کو اقبال کے ساتھ تعلق کی تجدید کا دن بنا دینا چاہیے۔ یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب حکومت اپنے فکری افلاس کا تدارک کر سکے۔ بصورتِ دیگر یہ کام سماجی اداروں کو کرنا چاہیے۔
مذہبی سیاست کے علمبردار بہت تیزی کے ساتھ سیاسی عمل سے لاتعلق ہو رہے ہیں۔ جمہوریت کی ایک اور لہر شاید انہیں پوری طرح قصۂ پارینہ بنا دے۔ وہ کوشش کریں گے کہ لبرل اسلام کے بیان اور یومِ اقبال کی چھٹی کی اساس پر اپنے سیاسی احیا کی عمارت اٹھائیں۔ ایسی کوشش جمعہ کی چھٹی ختم کرنے پر بھی کی گئی تھی۔ انہیں اب اندازہ ہو جانا چاہیے کہ 'اسلام خطرے میں ہے‘ جیسا کوئی نعرہ اب سیاسی افادیت کھو چکا۔ حکومت کے فکری افلاس کا جو نقصان اسے ہونا ہے، وہ تو ہونا ہے‘ لیکن اس طبقے کو اب کچھ ملنے والا نہیں۔ وہ اگر سیاست سے متعلق ہونا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی عمارت دوسروں کے عیوب پر نہیں، اپنی خوبیوں پر اٹھانا ہو گی۔
یومِ اقبال پر قوم نے علامہ اقبال کے ساتھ جس وابستگی کو اظہار کیا، اسے سطحی سیاست سے بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ جو اہلِ صحافت اس پر ماتم کر رہے ہیں، انہیں غور کر نا چاہیے کہ ان کی قیادت بہت پہلے اس چھٹی کا خاتمہ کر چکی ہے۔ رہے وہ جو اقبال سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، انہیں جان لینا چاہیے کہ اقبال سے عوامی وابستگی حکومت کے دن منانے سے مشروط نہیں ہے۔ اقبال ہماری روایت اور تہذیب کا استعارہ ہیں۔ استعارے اس وقت مرتے ہیں جو کوئی قوم اپنی یادداشت کھو دے۔ جو کام انگریزوں کا سو سالہ اقتدار نہ کر سکا، اب بھی نہیں ہو پائے گا۔ ایک سوال البتہ مجھے پریشان کرتا ہے: اردو، عربی اور فارسی سے بے اعتنائی کے ساتھ، ہم اقبال سے کیسے وابستہ رہ سکتے ہیں؟ کیا یومِ اقبال کی چھٹی اس کی تلافی کر سکتی ہے؟