آئی ایس پی آر اور وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے اخباری بیانات آپ نے پڑ ھ لیے۔ اب چوہدری نثار علی صاحب اور شہریار صاحب کا مناظرہ بھی سن لیا ہو گا۔ دنیا کی کوئی ریاست کیا فکری انتشار میں ہمارا مقابلہ کر سکتی ہے؟ معاملہ صرف ریاست کا نہیں، سماج میں جھانکیے تو وہاں بھی ہر طرف فکری پراگندگی کا راج ہے۔
مجالس میں جائیں تو میڈیا زیر بحث ہوتا ہے۔ کالم نگاری اور ٹی وی سے وابستگی کی تہمت مجھ پہ بھی ہے، اس لیے دیکھتے ہی لوگ پہلا سوال کرتے ہیں: یہ ہمارا میڈیا کیا کر رہا ہے؟ اس سے پہلے کہ میں کچھ عرض کروں، سوالی خود ہی مسئول بن کر جواب دیتا ہے‘ اور پھر فورم 'فری فار آل‘ ہوتا ہے۔ کم و بیش ہر مجلس میں میڈیا پر شدید تنقید ہوتی ہے۔ ٹاک شوز پر بات ہوتی ہے کہ مرغے لڑانے کا یہ کام کب تک جاری رہے گا؟ اینکر تنقید کی زد میں ہوتے ہیں۔ ہر روز ایک طرح کے لوگ اور ایک طرح کی باتیں، آخر لوگ کب تک سن اور دیکھ پائیں؟ یہی نہیں، 'میڈیا اور کلچر‘ پر بھی سیر حاصل بحث ہوتی ہے‘ اور ان مضر اثرات کا ذکر بڑی درد مندی کے ساتھ ہوتا ہے، جو میڈیا نے ہمارے نظامِ اقدار پر ڈالے ہیں۔
آدمی حیرت سے سوچتا ہے: یہ پروگرام اگر ایسے ہی غیر مقبول ہیں‘ تو انہیں کون دیکھتا ہو گا؟ ٹی وی چینلز ایسے پروگرام آخر کیوں دکھاتے ہیں؟ یہ سوال جب ٹی وی چینلز کے ذمہ داران کے سامنے رکھا جائے تو ان کا جواب بڑا سادہ ہوتا ہے: 'ریٹنگ‘۔ لوگ یہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی تائید اس عمومی مشاہدے سے بھی ہوتی کہ تقریبات میں یہی اینکر مرکز نگاہ ہوتے ہیں۔ لوگ ان کے ساتھ تصویریں بنواتے اور انہی کو اپنی تقریبات میں مدعو کرتے ہیں۔ رہی بات کلچر کی تو کسی پروگرام میں مفتی اور میرا جمع ہو جائیں تو اس کی ریٹنگ نئے ریکارڈ قائم کر دیتی ہے۔ آدمی سوچتا ہے کہ اگر ایسے پروگراموں کی مقبولیت کا یہی عالم ہے‘ تو پھر وہ لوگ کون ہیں جو تقریبات میں ملتے اور ان پروگراموں پہ شدید تنقید کر تے ہیں؟
کچھ ایسا ہی اہل مذہب کے بارے میں ہے۔ خوشی غمی کی ہر تقریب میں یہ ممکن نہیں کہ مذہب اور اہل مذہب زیر بحث نہ آئیں۔ بات شروع ہوتی ہے اور پھر ساتھ ہی تنقید کا باب کھل جاتا ہے۔ وہ تمام مفاسدگنوائے جاتے ہیں جو اہل مذہب کے باعث معاشرے میں پیدا ہو رہے ہیں۔ مدارس کے نظامِ تعلیم کو عصری تقاضوں سے غیر متعلق کہا جاتا ہے‘ اور پھر اجتماعی فتویٰ دیا جاتا ہے کہ مذہب کی یہ تعبیر اس دور میں قابل عمل نہیں۔ معاملہ مگر یہاں بھی میڈیا والا ہے۔ اس ملک میں لاکھوں مدارس قائم ہیں۔ جب پاکستان بنا تو اس خطے میں مدارس کی تعداد 245 تھی۔ 2011ء تک یہ تعداد 50,000سے تجاوزکر چکی تھی۔ یہ صرف رجسٹرڈ مدارس کا ذکر ہے۔ وفاق المدارس کے اپنے اعداد و شمار کے مطاق صرف دیوبندی مدارس کی تعداد 20560 ہے۔ ان میں 2510482 طلبا و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ ان کے لیے اربوں روپے کا بجٹ چاہیے۔ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ زیادہ تر مدارس قومی وسائل سے چلتے ہیں۔ یہاں بھی آدمی حیرت سے سوچتا ہے کہ اگر ان کے لیے اسی معاشرے کے لوگ اربوں روپے دیتے ہیں‘ تو ان پر تنقید کرنے والے لوگ کہاں سے آتے ہیں؟
صرف یہی نہیں۔ یہ لوگ تقریبات میں مولوی حضرات اور ان کی تفہیم دین پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کے برخلاف، روشن خیال صاحبانِ علم کی تحسین بھی کرتے ہیں‘ لیکن جب ضرورت پڑے تو فتویٰ انہی حضرات سے لیتے ہیں‘ جن کی مذمت ہر وقت ان کی نوکِ زبان پر رہتی ہے۔ نکاح ہوا یا نہیں، طلاق ہوئی یا نہیں؟ یہ سوالات جب درپیش ہوتے ہیں تو ان کا رخ کسی مدرسے کے دارالافتاء کی طرف ہوتا ہے۔ پھر کسی جدید عالم کی رائے ان کے نزدیک قابل قبول نہیں ہوتی۔
ریاست کی سطح پر یہ پراگندگی دوچند ہے۔ اس کی کلاسک مثال نیشنل ایکشن پلان اور ریاستی بیانیے کی تشکیل ہے۔ مذہبی تنظیموں کے باب میں، پیمرا کے تازہ احکام دیکھ لیجیے۔ کہا گیا کہ میڈیا پر اُن کا نام نہ آنے پائے۔ اگر کہیں یہ کوئی فلاحی کام کرتی دکھائی دیں‘ تو آپ وہ منظر ہی نہ دکھائیں۔ سادہ سا سوال ہے: اگر ان تنظیموں کو فلاحی کام کر نے کی قانوناً اجازت ہے‘ تو میڈیا پر ان کا ذکر کیوں نہیں ہو سکتا؟ اگر ان پر پابندی ہے تو انہیں معاشرے میں کام کرنے کی اجازت کس نے دی ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ بڑے بڑے شہروں میں ان کے وسیع و عریض مراکز ہیں۔ صرف انفراسٹرکچر کے لیے بلامبالغہ کروڑوں روپے درکار ہیں۔ یہ وسائل کہاں سے آتے ہیں؟ اگر یہ سب کام قانونی حصار میں ہے تو میڈیا پر ان کا تذکرہ کیسے ممنوع ہو سکتا ہے؟ کیا حکومتی سطح پر یہ سوال کسی نے نہیں اٹھایا؟ کیا ایک ملک میں دو قانون چل سکتے ہیں؟ یہ محض سوال نہیں۔ ریاست زبانِ حال سے بتا چکی ہے کہ چل سکتے ہیں۔
اس وقت ہمیں فوج اور حکومت میں جو اختلاف دکھائی دے رہا ہے، اس کا بڑا سبب بھی ابہام ہے‘ جو دونوں اطراف پایا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال دینی مدارس اور تنظیموں کے بارے میں دونوں کے خیالات سے ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ خارجہ پالیسی کا ہے۔ کھیل اب ڈپلومیسی کا ایک حصہ ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں، کر کٹ کی ایک سفارتی اہمیت ہے۔ اسے کیسے سفارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے، اس کے جواب میں ریاست کا ابہام ظاہر و باہر ہے۔ اس پر مکالمہ وزیرِ داخلہ اور چیئرمین پی سی سی بی کے مابین ہو رہا ہے۔ آدمی سوچتا ہے کہ وزارتِ داخلہ کا اس سے کیا تعلق؟ اس پر وزیر خارجہ کو کچھ کہنا چاہیے! معلوم ہوا کہ یہ جنس یہاں پائی ہی نہیں جاتی۔ اسی طرح وزیر اعظم اور آرمی چیف امریکہ جاتے ہیں‘ تو دونوں کے دوروں میں کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ میڈیا سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے دو متحارب قوتوں کے نمائندے واشنگٹن کے سامنے اپنا اپنا مقدمہ رکھنے گئے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے بجائے، کیا ترجمان وزارتِ خارجہ کو یہ نہیں بنانا چاہیے کہ امریکہ میں آرمی چیف کی مصروفیات کیا ہوں گی؟
ہر طرف فکری پراگندگی ہے۔ ریاست اور سماج دونوں اس میں مبتلا ہیں۔ میں اختلاف کی نہیں، ابہام کی بات کر رہا ہوں۔ اختلاف ایک مثبت قدر ہے۔ یہاں تو ابہام ہے۔ ابہام غلط رائے سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ غلط فیصلے سے آپ ایک نتیجے تک پہنچے اور یوں آپ پر غلطی واضح ہو جاتی ہے۔ اس سے اصلاحِ احوال کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ ابہام رکھنے والا اوّل تو قدم اٹھاتا ہی نہیں۔ اگر اٹھا لے تو کبھی ایک سمت اور کبھی دوسری سمت میں اٹھاتا ہے۔ یوں نہ صرف منزل کھوٹی ہوتی ہے بلکہ انتشارِ فکر آدمی کو نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے اور وہ کہیں کا نہیں رہتا۔ ہم آج بحیثیت قوم اسی کیفیت میں ہیں۔ ہم لبرل معاشرہ ہیں یا روایتی؟ جمہوریت یا فوجی آمریت؟ خلافت یا جمہوریت؟ مدارس خیر کا باعث ہیں یا شر کا؟ ہمارے پاس کسی سوال کا کوئی واضح جواب نہیں ہے۔ اس ابہام کے باعث ایک جھنجھلاہٹ (frustration) ہے۔ اس میں یہی ہوتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو مسائل کا سبب قرار دیتے ہیں۔ کوئی ایک کی طرف انگلی اٹھاتا ہے اور کوئی دوسرے کی طرف۔
سماج اور ریاست کو فکری انتشار سے بچانا رائے ساز حلقوں کا کام ہے۔ بدقسمتی سے وہ اس کے علاوہ ہر کام کر رہے ہیں۔ گروہی اور شخصی مفادات کی اسیری ہے اور رہائی کا کوئی امکان نہیں۔ مفاد سے آزاد کوئی نہیں ہو سکتا‘ مگر ہر آدمی ایک لکیر کھینچتا ہے۔ رائے ساز یہ نہیں کر سکے۔ شاید اس کا سبب بھی ابہام ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ کہاں لکیر کھینچی جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوتا، آپ ایک بریکنگ نیوز سُنیے: ''فلم سٹار میرا نے عمر اکمل کو معصوم قرار دے دیا‘‘۔