فرقہ وارانہ بنیادوں پر مشرقِ وسطیٰ کی تقسیم، اب ایک نظری بحث نہیں ہے۔ اسے امر واقعہ بنانے کا عمل شروع ہو چکا۔ امریکہ کی آشیر باد اپنی جگہ‘ مگر جس حکمت عملی میں مسلمانوں کے 34ممالک کی قیادت بقائمی ہوش وحواس شریک ہو، اسے محض سازش قرار دینا میرے لیے تو ممکن نہیں۔
واقعاتی اور تاریخی پس منظر پر معاصر لکھنے والوں نے بہت حد تک ہماری راہنمائی کر دی۔محترم اظہار الحق صاحب نے ماضی قریب کی تاریخ میں اس کی بنیادوں کو تلاش کیا۔ موجودہ منظر کو سمجھنے کے لیے اس پس منظر کا جانناضروری ہے۔ واقعاتی پس منظر کے ساتھ اس بحث کا ایک پہلو نظری بھی ہے۔ اس سے صرفِ نظر شاید پوری بات کی تفہیم میں مانع ہو۔یہ مذہب اور سیاست کا باہمی تعلق ہے۔
ریاست کی تشکیل اصلاً ایک سیاسی و سماجی عمل ہے۔اسے ہم سیکولرعمل بھی کہہ سکتے ہیں۔ معاشرتی ارتقا نے ریاست کو جنم دیا۔ انسان نے ایک ایسی قوتِ نافذہ کی ضرورت کو محسوس کیا، جو ایک نظمِ اجتماعی کو برقرار رکھ سکے۔ طاقت ورکمزور پر ظلم نہ کرے اورکمزور اس وجہ سے بنیادی حقوق سے محروم نہ رہے کہ وہ ان کے حصول کی طاقت نہیں رکھتا۔یہ تصور ارتقا کی مختلف صورتیں اختیار کرتے کرتے دورِ حاضر تک پہنچا۔ تجربے سے انسان نے یہ بھی سیکھ لیا کہ ایک مضبوط نظم اجتماعی کی تشکیل کے لیے عصبیت لازم ہے۔ یہ عصبیت جغرافی وحدت ہو سکتی ہے، مذہب ہو سکتا ہے اور لسان بھی۔ سیاسی یا ریاستی قیادت ، اگر اکثریتی عصبیت کی نمائندہ ہو گی تو اسے عوامی اعتماد حاصل
رہے گا اور یوں اس کے خلاف بغاوت کے امکانات کم ہوں گے۔ ریاست کے باب میں جو نظریات سامنے آتے رہے ، وہ دراصل انسان کے اس اجتماعی تجربے کا حاصل ہیں۔ میکیاولی کی ' پرنس ‘بھی دراصل اسی موضوع پر ایک سنجیدہ کتاب ہے۔
دوسری طرف مذہب اپنے جوہر میں ایک مابعد الطبیعیاتی تصور ہے۔ انسان چونکہ ایک طبیعیاتی وجود بھی رکھتاہے اس لیے مذہب اس سے لا تعلق نہیں ہوتا۔ مذہب اصلاً انسان کے اخلاقی وجود کو پاکیزہ بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ اخروی زندگی میںکامیاب رہے۔ اس اخروی زندگی کا انحصار اس پر ہے کہ وہ اس دنیا کی زندگی میں کس طرح خود کو پاکیزہ بناتا ہے۔ یوں مذہب اس کی طبعی حالت سے متعلق ہو جاتا ہے۔ انسان کی طبعی حالت کا تعین حالات کرتے ہیں، مذہب نہیں۔ ایک آدمی چرواہا ہے یا حکمران، استادہے یا طالب علم، باپ ہے یا بیٹا، ماں ہے یا بیٹی۔یہ مادی و سماجی حیثیت مذہب سے طے نہیں ہوتی۔ مذہب فرد کو اس کی اس سماجی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے مخاطب بناتا ہے۔اگر اسے کسی ایسے نظم کی باگ ڈور دے دی گئی ہے جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے ایمان اور عقیدے کے مطابق نظم اجتماعی تشکیل دے ۔ اگر اکثریت غیرمسلموں کی ہے تو ان کے جذبات کو ملحوظ رکھنا ہو گا۔
چند روز پہلے میرے ایک ذی علم دوست نے،اس مو ضوع پر امام ابن تیمیہ کا ایک فتویٰ بھیجا۔ وہ لکھتے ہیں:'' حضرت یوسف ؑ اہل مصر کے ساتھ رہتے تھے جو کفار تھے۔ان پر تمام امور میں اسلام کے احکام کے مطابق فیصلہ کرنا ممکن نہ تھا۔ اسی طرح نجاشی اگرچہ نصاریٰ کا بادشاہ تھا لیکن اس کی قوم نے قبول اسلام کے معاملے میں اس کی بات نہیں مانی بلکہ نجاشی کے ساتھ کچھ ہی لوگوں نے اسلام قبول کیا ۔ نجاشی بہت سے بلکہ اکثر احکامِ اسلام پر عمل نہیں کر سکا کیونکہ وہ ایسا کرنے سے عاجز تھا۔ اس نے نہ ہجرت کی اور نہ جہاد کیا اور نہ ہی بیت اﷲ کا حج کیا بلکہ یہ بھی روایت ہے کہ اس نے پانچ نمازیں بھی ادا نہ کیں۔ نہ روزہ رکھتا اور نہ شرعی زکوٰۃ ادا کرتا تھا... ہم قطعی طور پر جانتے ہیں کہ نجاشی کے لیے اپنی قوم کے مابین قرآن کے مطابق فیصلہ کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ اس کی قوم اسے قبول نہ کرتی۔ اور بکثرت
ایسا ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور تاتاریوں کے مابین کسی آدمی کو قاضی بلکہ حاکم تک کا منصب مل جاتا ہے اور اس کے دل میں ارادہ ہوتا ہے کہ وہ عدل کے بہت سے احکام پر عمل کرے لیکن اس کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ وہاں اس کے روکنے والے موجود ہوتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کسی پر اس کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ پس نجاشی اور ان جیسے لوگ کامیاب ہو کر جنت میں جائیں گے، اگرچہ انہوں نے اسلام کے ان شرائع کی پابندی نہیں کی ، جس کی وہ قدرت نہیںرکھتے تھے‘‘۔ ( مجموع الفتویٰ، ج19،ص218-219)
دور جدید میں اسلام کی جو سیاسی تعبیر سامنے آئی اس سے مسلمانوں میں یہ خیال پختہ ہوا کہ اسلام چونکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، اس لیے اس کا نفاذ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ یوںاسلامی تعلیمات کے مطابق سیاسی نظم کی تشکیل ان کا مذہبی فریضہ قرار پایا اور اس کی ادائیگی میں کوتاہی کا مفہوم اسلام سے روگردانی لیا گیا۔ اس کے نتیجے میں بہت سے سیکولر کام مذہبی فرائض بن گئے جیسے اسلامی ریاست کا قیام۔
میں یہ بات پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ اس وقت ہم مذہبی بنیادوں پر جس فرقہ واریت کو دیکھ رہے ہیں، یہ اصلاً سیاسی اختلاف تھا جسے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی دلائل فراہم کر کے ایک مذہبی تنازعے میں بدل دیا گیا۔ مشرق وسطیٰ میں ہم یہی بویا کاٹ رہے ہیں۔ اگر یہ مقدمہ درست ہے تو داعش کے خلاف لڑنے کے لیے' اسلامی فوج‘ کا بیانیہ نہ صرف غیر مذہبی ہے بلکہ سیاسی حرکیات کے بھی خلاف ہے۔ اگر داعش انسانوںکے بنائے ہوئے نظم اجتماعی کے
لیے چیلنج ہے تو اس کے لیے ریاست کا حق ہے کہ وہ اقدام کرے۔ اگر یہ چیلنج کئی ریاستوں تک پھیلتا ہے تو بہت سی ریاستیں مل کر بھی اس کے خلاف اتحاد بنا سکتی ہیں۔ دور حاضر میں اس کی ایک مثال دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد ہے۔ اس میں مسلمان، غیر مسلم سب شامل تھے۔ اب اس کی توسیع ہو سکتی ہے۔ الگ سے مسلمانوں کا اتحاد بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر داعش کے خلاف اس بنیاد پر کوئی اتحاد بنتا تو اس سے کم از کم فرقہ واریت کو تقویت نہ ملتی۔داعش ایک مذہبی بیانیہ ہے اور اس کے ساتھ ایک مسلح قوت بھی۔ بطور بیانیہ، یہ مسلم سماج کے اہل علم کا کام ہے کہ وہ اس کی غلطی واضح کریں۔ جہاں تک مسلح گروہ کا تعلق ہے تو یہ ریاست یا ریاستوںکا کام ہے کہ اس کے خلاف اقدام کریں۔ ریاستوں کو کسی مذہبی بحث میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔اہلِ فتنہ کے خلاف لڑنے کا حق ریاست کے لیے ثابت ہے۔ اس وقت دہشت گردی کے خلاف ایک اتحاد موجود ہے جو غیر مذہبی ہے۔ بہت سے مسلمان ملک اس کا حصہ ہیں۔ جو نہیں ہیں وہ بن سکتے ہیں۔ اس کے لیے کسی اسلامی فوج یا اتحادکی کوئی ضرورت نہیںتھی۔
ریاست و سیاست کی سطح پر دہشت گردی کے خلاف سیکولر بنیادوں پر لڑا جانا چاہیے۔ سیاسی تنازعات کی مذہبی تعبیر کا نتیجہ ہم افغانستان میں دیکھ چکے۔ اس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ہمیں مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے۔اس صورت میں لازم ہے کہ ایران بھی عالمی اتحاد میں شامل ہو۔ہم اگر اسلامی فوج ترتیب دیتے اور ایران کو اس سے باہر رکھتے ہیں تواس سے داعش ختم ہو نہ ہو، فرقہ واریت ضرور پھیلے گی۔