اگر اب بھی کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ شیعہ سنی اختلاف دشمنوں کی کوئی سازش ہے تو اس کی عقل پر صرف ماتم کیا جا سکتا ہے۔
سعودی عرب میں جن 47 افراد کو موت کی سزا دی گئی، ان میں ایک شیعہ عالم بھی ہیں۔ وہ سعودی عرب کے شہری ہیں۔ ان کی سزا کے خلاف ایران میں پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ تادمِ تحریر جاری ہے۔ تہران میںسعودی سفارت خانے پر حملہ ہوا اور اسے جلانے کی کوشش کی گئی۔ پاسدارانِ انقلاب نے بدلہ لینے کا بھی اعلان کیا۔ سوال سادہ ہے۔ ایران نے سنیوں کی سزا پر نہیں، ایک شیعہ کی سزا پر ہی ردِ عمل کا اظہار کیوں کیا؟ عراق سمیت ہرجگہ صرف شیعہ طبقے میں یہ اضطراب کیوں ہے؟
بطور واقعہ، اس سے انکار محال ہے کہ جسے ہم امتِ مسلمہ کہتے ہیں وہ واضح طور پر دو حصوں میں منقسم ہے۔۔۔۔سنی اور شیعہ۔ یہ تقسیم صدیوں پرانی ہے۔ میں یہ بات لکھ چکا کہ یہ تقسیم اصلًا سیاسی تھی، جسے بعد میں ایک مذہبی استدلال فراہم کر دیا گیا۔ مختار ثقفی کے بعد،اہلِ تشیع کو کوئی سیاسی قیادت نہیں مل سکی۔ بنو امیہ اور بنو عباس کو غاصب سمجھنے کے باوجود، اس گروہ میں کسی ایسی سیاسی شخصیت نے ظہور نہیں کیا جو ایک سیاسی تحریک کو منظم کر سکتی۔ یوں اہلِ تشیع نے مذہبی سطح پر تو اپنا تشخص برقرار رکھا لیکن سیاسی معاملات کو امام مہدی کی آ مد تک موخر کر دیا۔ وہ ان کی تشریف آوری کے لیے دست بدعا رہے۔ اس دوران میں ان کی قیادت مذہبی علما کے ہاتھ میںرہی جو مرجعِ تقلید تھے۔ نجف اور کربلا نے علامتی طور پر ان کی وحدت کو بر قرار رکھا جہاں سیدنا علیؓ اور سیدنا حسینؓ کی آ خری آرام گاہیں ہیں۔
مصر اور شمالی افریقہ میں اسماعیلی فاطمیوں (1177-909ء) اور ایران میں صفیوں کے اقتدار کی بدولت اہلِ تشیع کو سیاسی اقتدار ملا لیکن اس کے اثرات ان ممالک کی سرحدوں سے باہر نہیں جا سکے۔ مسلمانوں کی عمومی سیاسی قیادت سنیوں ہی کے ہاتھ میں رہی۔ شمالی افریقہ اور مصر میں اقتدار پھر سنیوں کو لوٹ گیا جن کی اکثریت تھی۔ آج جن خطوں میں ان کی عددی اکثریت ہے، جیسے عراق اور بحرین، وہاں بھی انہیں اقتدار سے محروم رکھا گیا۔ تیرھویں صدی کے بعد مسلمانوں کا عمومی اقتدار خطرات میں گھرا رہا۔ سنی اسے بچانے کی فکر میں رہے، یہاں تک کہ خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا ور قومی ریاستیں وجود میں آنے لگیں۔ اس دوران میں ایران میں پہلوی حکمران بن چکے تھے۔ ان کی دلچسپی بھی صرف ایک خاندان کے اقتدار تک محدود تھی۔ یوں اہلِ تشیع کو بطور گروہ سیاسی قیادت نہیں مل سکی۔ پہلوی اقتدار کے باوجود ان کی مرکزیت علما ہی کے مرہونِ منت رہی۔
روح اللہ خمینی صاحب نے اس سارے منظر کو بدل ڈالا۔ انہوں نے اہلِ تشیع میں موجود مذہبی اور سیاسی قیادت کی دوئی کو چیلنج کیا۔ انہوں نے اس تعبیر کو قبول نہیں کیا کہ امام مہدی کی آ مد تک اہلِ تشیع کا کام صرف انتظار ہے۔ انہوں نے نائب امام کاتصور دیا جو امام ِمنتظَرکی آ مد تک، ان کی نیابت میں سیاسی ذمہ داریاں ادا کرے گا۔ اس کے لیے انہوں نے ایک دینی مقدمہ قائم کیا اور اسے نقلی وعقلی استدلال فراہم کیا۔ اس کام میں انہیں روایتی شیعہ علما کی مخالفت کے ساتھ پہلوی اقتدار کی مخالفت کا بھی سامنا کر نا پڑا۔ پندرہ برس انہوں نے جلا وطنی میں گزارے۔ ایران میں، جہاں ایک شیعہ خاندان کی حکومت تھی، ان کی تحریر اور تقریر پر پابندی تھی۔ ان کے چاہنے والوں کو شدید ریاستی تشدد کا سامنا رہا۔ خوش قسمتی سے انہیں فرانس کی صورت میں ایک دارالہجرہ میسر آگیا جہاں بیٹھ کر وہ اپنی بات کہتے رہے۔ پھر وہ وقت آیا کہ ایران کی پوری قوم ،ان کے ساتھ ہم آواز ہوگئی۔1979ء میں جب وہ ایران کی سر زمین پر اترے تو ان کو
روکنا ریاست کے بس میں نہیں تھا۔ انہوں نے اس انقلاب کو ساری مسلم دنیا میں پھیلانے کا اعلان کیا۔ یوں پورے عالمِ سلام کے اہلِ تشیع میں ایک تحریک پیدا ہوئی اور انہیں یہ محسوس ہوا کہ انہیں ایک سیاسی قیادت میسر آگئی ہے جو انہیں ایسے غاصبوں سے نجات دلائے گی جو ان کے خیال میں صدیوں سے اہلِ بیت کے حقِ اقتدار کو غصب کیے ہوئے ہیں۔ ولی رضا نصر نے لکھا ہے کہ کیسے ایرانی انقلاب کے بعد پورے مشرقِ وسطیٰ میں اہلِ تشیع اپنی شناخت کے ساتھ سیاسی طور پر منظم ہونے لگے۔
اہلِ سنت کا معاملہ یہ رہا کہ ان کے ہاں 'خلافت‘ کی حیثیت مذہبی نہیں سیاسی تھی۔ خلیفہ نظمِ اجتماعی کی علامت تھا، جسے کوئی مذہبی جواز حاصل نہیں تھا۔ ابتدا میں یہ تاثر نمایاں نہیں ہوا لیکن بعد کے ادوار میں دو اور چار کی طرح واضح ہو گیا۔ سنیوں میں سیاسی اور مذہبی قیادت دوحصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اسے قبول کر لیا گیا۔ عباسیوں کے دور میں ایک نظم ِاجتماعی موجود تھا جو ملوکیت کی شکل میں تھا۔ اہلِ سنت کے علما اور فقہا نے بحیثیت مجموعی اسے چیلنج نہیں کیا۔ البتہ جہاں حکمرانوں نے کوئی ایسا قدم اٹھایا یا نظریہ اختیار کیا جو علما کے نزدیک خلافِ اسلام تھا، انہوں نے تنقید کی اور اپنی دانست میں صحیح بات کو واضح کیا۔ خلفا کا طرزِ عمل عام دنیادار حکمرانوں کی طرح تھا لیکن علما و فقہا نے ان کے حقِ اقتدار کو چیلنج نہیں کیا۔ اس کے نتیجے میں اہلِ سنت کے ہاں سیاسی عمل، عملًا سیکولر خطوط پر آگے بڑھا۔ امام ابو حنیفہ جیسے لوگ اس طرزِ حکمرانی کو درست نہیں سمجھتے تھے لیکن انہوں نے کوئی علمِ بغاوت بلند نہیں کیا۔
عثمانیوں کا اقتدار ختم ہوا اور نئی سیاسی حقیقتیں سامنے آئیں تو سنی دنیا میں، اس وقت بھی اقتدار کی وحدت کا کوئی تصور سامنے نہیں آیا۔ مقامی سطح پر آزادی کی تحریکیں منظم ہوئیں اور جب آزادی ملی تو مسلمانوں کی کئی خود مختار ریاستیں وجود میں آگئیں۔ میرے علم میں نہیں کہ ان کی اس خود مختار حیثیت کو کسی نے دینی حوالے سیے چیلنج کیا ہو۔ کسی نے خلافت کا عنوان پسند نہیں کیا۔ یہ مملکتیں تھیں یا جمہوری ریاستیں۔ خود سعودی عرب میں سیاسی و مذہبی قیادت کو دو حصوں میں منقسم کر دیا گیا۔ دونوں نے معاہدے کر لیا کہ وہ ایک دوسرے کی اس حیثیت کو چیلنج نہیں کریں گے۔ یہ سیاسی عمل کو سیکولر بنیادوں پر قبول کرنے کے نتیجے ہی میں ممکن ہو سکا۔
آج صورتِ حال یہ ہے کہ اہلِ تشیع میں سیاسی و مذہبی قیادت کی وحدت کا تصور مو جود ہے۔ شیعہ مسلمان جس ملک میں رہتا ہے، راہنمائی کے لیے نجف اور قم کی طرف دیکھتا ہے۔ اسی طرح ایرانی حکومت دنیا بھر کے اہلِ تشیع کی سرپرستی کو اپنا مذہبی وظیفہ سمجھتی ہے۔ ایک سعودی شیعہ عالم کی سزا کے خلاف ایران کا ردِ عمل اس کی ناقابلِ تردید دلیل ہے۔ دوسری طرف اہلِ سنت میں سیاسی وحدت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ آج کچھ سنی علما اسے سیاسی طور پر زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے ممدوح مولانا زاہد الراشدی نے تو تجویز پیش کی ہے کہ کوئی بڑا اسلامی ملک خلافت کے ٹائٹل کے ساتھ، مسلمانوں کو عالمی قیادت فراہم کر نے کا اعلان کرے۔ اس تجویز میں واضح ہے کہ مسلمانوں سے مراد سنی مسلمان ہیں۔ سعودی عرب بھی چاہے گا کہ مشرقِ وسطیٰ کی تازہ معرکہ آرا ئی میں، سنی مسلمانوں کو اپنی قیادت میں مجتمع کرے۔34 ممالک کے اتحاد سے اس کام کا آغاز ہو چکا۔ اگر مولانا راشدی کی تجویز پر بھی عمل ہو تا ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کیسا سیاسی خلفشار مسلمانوں کا منتظر ہے۔
کیا اس کے بعد بھی ہم شیعہ سنی اختلاف کو اغیار کی سازش کہیں گے؟ اس کا حل کیا ہے۔ انشاء اللہ اگلے کالم میں اس پربات ہو گی۔