چند ماہ پہلے جب ایرانی وزیرخارجہ چھ مغربی ممالک (P5+1) سے ایک معاہدے کے بعد وطن لوٹے تو ان کا والہانہ استقبال ہوا۔ یہ اس بات کا علانیہ اظہار تھا کہ 'مرگ بر امریکہ‘ کی حکمتِ عملی کو اب ایرانی عوام کی تائید حاصل نہیں رہی۔ یہ سب اچانک نہیں ہوا۔ یہ اُس اضطراب کا نتیجہ تھا جو کئی سال سے ایرانی سماج میں جاری تھا۔
مئی1997ء میں جب محمد خاتمی ایران کے صدرمنتخب ہوئے تو یہ ایران کی مذہبی قیادت کے سیاسی فیصلوں پر عدم اعتماد کا اعلان تھا۔ رائے عامہ نے شدت پسندی اور اصلاح پسندی کے مابین ایک واضح لکیر کھینچ دی۔ 1979ء کے بعد ایران میں مذہبی پیشوائی نے کچھ ایسا آئینی انتظام کر دیا تھا کہ ان کی برتری کو چیلنج کرنا آسان نہیں تھا۔ مذہبی راہنماؤں پر مشتمل شورائے نگہبان اور اس پر ایک سپریم لیڈر سب سے بالا تر ادارے ہیں، اس کے باوجود اصلاح پسند پارلیمان تک پہنچنے میں کامیاب رہے اور اہم قومی فورمز پر اہلِ مذہب کی حکمتِ عملی تنقید کا نشانہ بننے لگی۔ میرا تاثر یہ ہے کہ امریکہ اور بین الاقوامی رائے عامہ نے اس تبدیلی کو وہ اہمیت نہیں دی، جس کی یہ مستحق تھی۔ اس پر تشکیک کا پردہ پڑا رہا۔ یوںخارج میں اس کی پزیرائی نہ ہو سکی۔ تاہم داخلی اسباب سے اصلاح پسندانہ نقطہ نظر مختلف صورتوں میں ظہور کرتا رہا۔
اس دوران میں مشرق ِ وسطیٰ کی صورِت حال بھی بدلتی رہی۔ عرب بہار اور عراق پر امریکہ کے حملے نے ایران کے لیے نئے چیلنج پیدا کیے اور ساتھ نئے مواقع بھی۔ صدام حسین کا خاتمہ، ایک وقت آیا کہ عربوں، ایران اور امریکہ کا مشرکہ ہدف بن گیا۔ صدام حسین کے بعد عراق میں امریکہ کو ایک مستحکم سیاسی نظام کی تشکیل کے لیے ایران کی حمایت کی شدید ضررت تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ صدام کے حامی سنی قبائل امریکہ سے برسرِ پیکار تھے اور انہیں شیعہ طبقے ہی سے مدد مل سکی تھی۔ القاعدہ اور داعش کو بھی عراق کے ان سنیوں کی حمایت حاصل رہی جو صدام کے ساتھ تھے۔ عراق کے شیعوں کو بھی امریکہ کی ضرورت تھی۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ عراق کے شیعہ عرب عصبیت رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ عراق ایران جنگ میں وہ ایران کے خلاف تھے۔ عراق کی ریاست جب ناکام ہوئی تو اس نے عراقی نیشنل ازم کو بھی نقصان پہنچا یا۔ اب ان کی شیعہ شناخت اہم تر ہوگئی اور وہ خود کو ایران سے قریب سمجھنے لگے۔ یہ صورتِ حال ایران کے لیے سازگار تھی۔ اس طرح امریکہ اور ایران کے مفادات نے دونوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا۔
ایک تبدیلی یہ بھی آئی کہ امریکہ کا سعودی عرب پر انحصار کم ہو گیا۔ اسے اب سعودی تیل کی زیادہ ضرورت نہیں، دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں ایران کی مداخلت میں اضافہ ہوگیا۔ یمن، لبنان، بحرین، شام، ان سب خطوں میں ایرانی مداخلت اور رسوخ بڑھ گیا ہے۔ اس لیے اب واضح ہو رہا ہے کہ ایران کی صور ت میں امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں ایک نیا اتحادی تلاش کر لیا ہے۔ میں نے جب اس مو ضوع پر کچھ باخبر لوگوں سے بات کی تو محسوس کیا کہ ان کا نتیجہ فکر بھی یہی ہے۔ ڈاکٹر ممتازاحمد مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کے بڑے راز دان ہیں۔ کم لوگ اس خطے کی سیاست ومعاشرت پر اس قدرگہری نظر رکھتے ہوں گے۔ میں نے ان سے بات کی تو انہوں نے بھی یہی تجزیہ کیا۔ ان کے دلائل کہیں زیادہ مضبوط تھے۔
ایران پر عائد پابندیاں جزوی طورپرختم ہوئیں تو اس پر معاشی ترقی کے دروازے کھل گئے۔ اس وقت امریکہ اور دوسرے ممالک کے بینکوں میں ایران کے ایک سو بلین ڈالر پڑے ہیں۔ ان پابندیوں کے اٹھنے سے اسے فوری طورپر 32 بلین ڈالر مل جا ئیں گے۔ان دنوں صدر حسن روحانی اٹلی اور فرانس کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ ویٹیکن بھی گئے۔ ایران تنہائی اور اس کی معیشت بحران سے نکلنے والی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ امریکہ اور مغرب کی تائید سے ممکن ہو سکا۔ یہ اصلاح پسندوں کی فتح ہے اور اس سے روحانی صاحب کہیں زیادہ مضبوط ہوں گے۔
اس کا اندازہ فروری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے ہو جا ئے گا۔ مذہبی پیشوائیت نے جو آئینی اہتمام کیاہے، وہ روحانی صاحب کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ ان انتخابات کے لیے امیداواروں کا فیصلہ ایک کمیٹی کرتی ہے جس کے نصف ارکان شورائے نگہبان سے لیے جاتے ہیں جو علما پر مشتمل ملک کا سب سے بڑا آئینی ادارہ ہے۔ دوسرے نصف پارلیمان سے لیے جاتے ہیں۔ اس کمیٹی نے ننانوے فیصد اصلاح پسند امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے ہیں۔ روحانی صاحب نے اس پر ایک ٹی وی خطاب میں کڑی تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان کسی خاص گروہ کا مرکز نہیں، یہ دارالعوام ہے۔ یہاں لوگوں کے داخلے پر پابندی نہیں لگنی چاہیے۔
میرا مشاہدہ اور تجزیہ یہ ہے کہ ایران آج ایک طرف سکیورٹی سٹیٹ ہے اور دوسری طرف سماجی سطح پروہاں لبرل اقدارکا فروغ ہو رہا ہے۔ سماج کھل رہا ہے لیکن ریاست اپنا کنٹرول ختم کر نے کے لیے آ مادہ نہیں۔ سٹیٹ کی اس سختی کا ایک مظاہرہ ہم نے بھی دیکھا جب دنیا ٹی وی کے وجاہت سعید خان کا کیمرہ، سکیورٹی اہل کاروں نے لے لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض سرکاری عمارات کی تصویریں لینا یا فلم بنانا ممنوع تھا، جس کی خلاف ورزی ہوئی۔ اس پر انہیں پیشکش کی گئی کہ ان کی موجودگی میں اس حصے کو کارڈ سے ختم (delete)کر دیں گے تو وہ مان کر نہیں دیے۔ لمحوں میں سکیورٹی کے بہت سے اہل کار جمع ہوگئے۔ انہوں نے مہمان نوازی کی قدرکا بھی خیال نہیں کیا۔ طویل مشاورت کے بعدکیمرہ تو واپس دے دیا لیکن کارڈ نہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایران
کیسی سکیورٹی سٹیٹ ہے۔ تاہم امید یہ ہے کہ جیسے جیسے سماج کھلتا جائے گا، ریاست کی غیر ضروری گرفت کمزور ہوتی جائے گی۔
ایران اگر بحرانوں سے نکلنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کا بڑا سبب مضبوط ایرانی نیشنلزم ہے۔ یہ بات کم وبیش ہر آدمی نے کہی کہ ہر ایرانی سب سے پہلے ایرانی ہے، اس کے بعد مسلمان، یہودی یا شیعہ سنی ہے۔ عالمِ اسلام کا یہ واحد ملک ہے جہاں یہودی بہت آرام سے رہتے ہیں اور اسرائیل کے خلاف ایران کے سخت مؤقف کے باوجود، وہاں یہودیوںکوکوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ایرانی مفادات کے لیے سب یک جان ہیں۔ ڈاکٹر ممتازاحمد صاحب نے مجھے سوڈان کے راہنما حسن ترابی کی رائے کے بارے میں بتایا کہ ان کا تجزیہ بھی یہی تھا کہ ایرانی سب سے پہلے ایرانی ہیں۔
ان تبدیلیوں سے واضح ہے کہ ایران اب پسِ انقلاب (Post Revolution) عہد میں داخل ہو چکا۔ اس کے خد وخال اس ایران سے مختلف ہیں جو 1979ء میں نمودار ہوا تھا۔ زندہ قوموں کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ خود کو ماضی کا اسیرنہیں بناتیں۔ حالات ان کی حکمت ِ عملی کا تعین کرتے ہیں۔ بقا کی جبلت بھی اسی کا تقاضا کر تی ہے۔
(پسِ تحریر:گزشتہ کالم میںخمینی صاحب کی تائید پر 'ترجمان القرآن‘ کی بندش کا ذکر ہوا تھا۔ برادرم سلیم منصور خالد نے اصلاح کی ہے کہ اس پابندی کا سبب ترجمان کا اداریہ نہیں، بلکہ اس میں چھپنے والا ایک مضمون تھا جو خلیل احمد حامدی صاحب نے لکھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس سے پہلے 1950ء کی دہائی میں بھی ترجمان پر پابندی عائد کی گئی تھی۔)