مکتبِ دیوبند پر،دہشت گردی اور مسلکی انتہاپسندی کی جو افتاد آ پڑی تھی،وہ اس میں بہہ گیا ہو تا اگر اس کی باگ مو لا نا فضل الرحمن جیسے زیرک آ دمی کے ہاتھ میں نہ ہو تی۔وہ دیوبند کے سفینے کویلغار اور تنقید کی تیز وتند سونامی سے بچا لے گئے۔
اس سے انکار محال ہے کہ آج پاکستان میں جو سیاسی اور مسلکی انتہا پسندی ہے، اس کے مؤسیسین کا تعلق اسی مکتب سے تھا۔متحدہ ہندوستان میں تکفیر کی پہلی صدا تو ایک دوسرے مکتب کے ایوانوں سے ابھری لیکن پاکستان میں یہ امتیاز اہلِ دیوبند کے حصے میں آیا۔اس پہ مستزاد طالبان، جن کی شناخت یہی مسلک تھا۔اس کے نتیجے میں ریاست اور سماج جن المیوں سے گزرے،اس کابار بھی اسی مسلک پر ڈالا گیا۔آج تک اس کی صدائے باز گشت ہمیں سنائی دیتی ہے۔مو لا نا فضل الرحمن نے اس رجحان کے سامنے بند باندھا۔ ایک تو انہوں نے اسے اپنے مکتب میں پھیلنے نہیںدیا۔دوسرا انہوں نے اس تعبیرِ دین کی اعلانیہ مخالفت کی جو عسکری جدو جہد سے تبدیلی کی قائل ہے۔یہ آسان کام نہیں تھا۔کم ازکم دودفعہ ان پرحملہ ہوا۔زندگی اور موت چونکہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیے وہ محفوظ رہے ورنہ انسانی کوشش میں تو کچھ کمی نہ تھی۔
چند دن پہلے، مجھے اِس مو ضوع پر ان کے خیالات بالتفصیل جاننے کا موقع ملا۔بعض ایسی باتیں بھی جو میں نے پہلے نہیں سنی تھیں۔خطیبِ بے بدل سید عبدالمجید صاحب ندیم کی یاد میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔ان کے بیٹے جانتے ہیں کہ مجھے مر حوم سے تعلقِ خاطر تھا۔اسی رشتے کے احترام میں انہوں نے مجھے بھی مدعو کیا۔شاہ صاحب کے ہونہارفرزندفیصل ندیم صاحب کافون آیا تومعلوم ہوا کہ مو لانا بھی تشریف لائیں گے۔جانا تو مجھے ویسے بھی تھا لیکن اس سے اشتیاق بڑھ گیا۔اس موقع پرمولا نا نے جو تقریر کی،وہ ان کے موقف کی جامع ترجمانی تھی۔میں چاہتا ہو ں کہ اُن کا یہ مقدمہ آپ کے سامنے بھی آئے۔یہ بات پیش ِنظر رہنی چاہیے کہ ان کے مخاطبین کی اکثریت، علما اور دینی مدارس کے متعلقین و طلبا تھے۔ اس میں جمعیت علمائے اسلام کے ذمہ دار بھی شامل تھے۔میں ان کے اس مقدمے کو نکات کی صورت میں بیان کر رہا ہوں۔
٭ دین اصلاً دعوت کا نام ہے۔ایک داعی کیے لیے لازم ہے کہ وہ شائستہ،حکیم اور متوازن مزاج ہو۔دعوت کے آداب قرآن مجید نے بیان کیے ہیں اور رسالت مآب ﷺ نے بھی سکھائے ہیں۔داعی کبھی جذباتی نہیں ہوتا۔ وہ گالی کے جواب میں کبھی گالی نہیں دیتا۔وہ گالی سن کر بھی اپنے غصے پر قابو رکھتا ہے۔اس کا معاملہ تو قرآن مجید نے بیان کیا ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں مرتا ہے، ان کے لیے نجات اور جنت کی خواہش کوپسِ مرگ بھی مر نے نہیں دیتا۔
٭ امن آج ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔چند سال پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت آدم سے ٹیلی فون پر ہم کلام ہوں۔انہوں نے پوچھا: کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا:امن چاہتا ہوں۔فرمایا: تو پھر انتظار کرو۔میں نے کہا: یہی تو کرر ہے ہیں۔خواب میں آ دمی کی روح بولتی ہے۔امن ہماری روح کی آواز ہے۔
٭ امن ہی انسانی سماج کی فطری حالت ہے۔جنگ غیر فطری ہے،اس لیے اس کی تمنا نہیں کر نی چاہیے۔جو لوگ دورِ حاضر میں (جب مسلمان کمزور ہیں) جہاد کی خواہش رکھتے ہیں یاشہادت کی آرزو کرتے ہیں،وہ دین کی روح سے واقف نہیں۔رسالت مآبﷺ نے اللہ سے ہمیشہ عافیت کی دعا کی۔اپنے چچا حضرت عباس ؓکو اس کی تلقین فرمائی: دنیا اور اخرت میں عافیت۔ایک معرکے سے واپسی پر اپنے صحابہ کو یہی نصیحت کی کہ دشمن سے مدبھیڑ کی کبھی خواہش نہ کرو۔ہاں اگر جنگ سر پڑ جائے تو پھر بزدلی کا مظاہرہ نہ کرو۔پھر ایک مجاہد کی شان سے نکلنا چاہیے۔( اس صورت میں ظاہر کہ جہاد سب سے بڑی نیکی ہے اور شہادت سب سے بڑی سعادت۔)
٭ جنگ ہمیشہ تیاری کے ساتھ ہونی چاہیے۔محض جذبات سے جنگ نہیں لڑی جاتی۔یہ دشمن ہے جو ہمیں اشتعال دلا تاہے۔جو لوگ بغیر تیاری کے لڑتے ہیں وہ دشمن کی چال کا شکار ہوتے ہیں اور یوں مسلمانوں کو مزیدکمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
٭ ہم کبھی جدید علم کے مخالف نہیں رہے۔ہمارے اکابر میں کوئی ایک مثال ایسی نہیں کہ کسی نے مسلمانوں کو اس سے منع کیا ہو۔ہم جدید علم کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔تاہم اس کے ساتھ دینی تعلیم بھی ضروری ہے۔دینی مدارس معاشرے کی اس کمی کو پورا کرر ہے ہیں۔ہم آپ کی افادیت اور ضرورت کے قائل ہیں تو آپ ہماری ضرورت اور افادیت کے منکر کیوں ہیں؟اگر کسی جدید تعلیمی ادارے پر افتاد پڑتی ہے تو ہم سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔اپنا خون دیتے ہیں اور دوسروں کے دکھ میں شریک ہوتے ہیں۔افسوس یہ ہے کہ ہمارے بچے مرتے ہیں تو مجھے اکیلے رونا پڑتا ہے۔آٹھ دس سال کے معصوم ڈرون حملوں سے گوشت کے لوتھڑوں میں بدل جاتے ہیں۔ان کو رونے والا کوئی نہیں ہوتا۔شکایت آپ کو ہم سے نہیں، ہمیں آپ سے ہونی چاہیے۔
٭ ہم ملک کے آئین کو مانتے ہیں۔ ہم اقوامِ متحدہ کے چارٹر کو مانتے ہیں۔ہم جنیوا کنونشنز کو مانتے ہیں۔ہم تو ان میں سے کسی کا انکار نہیں کرتے۔پھر ہمیں انتہا پسند کیوں کہا جا تا ہے؟چند لوگ اگر انتہا پسند ہیں تو ان کا وبال ہم سب پر کیوں؟پہاڑوں پر بیٹھے بندوق بردار دین کے نمائندے نہیں ہیں۔دین کے نمائندے تو وہ علما اور مسلمان ہیں جو ہزاروں اورکروڑوں کی تعداد میں مو جود ہیں۔اسلام ان کے افکار اور طرزِ عمل کا نام ہے،چند انتہا پسندوں کے افکار کا نہیں۔
٭ دینی مدارس کے خلاف مہم اصلاً دین کے خلاف ہے۔امریکہ اور مغرب ان کی آڑ میں ہمارادینی تشخص ختم کرنا چاہتا ہے۔ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے اور اس کی مزاحمت کریں گے۔
مو لا نا کی یہی سوچ ہے جس نے مکتبِ دیوبند کو انتہا پسندی کی افتاد سے محفوط رکھا۔تاہم میرا احساس ہے کہ یہ سوچ ان کے عمومی پیغام میں منتقل نہیں ہوسکی۔یہ کام جمعیت علمائے اسلام کا ہے‘مکتبِ دیوبند کے وابستگان کا ہے۔ان کا ہے جو اس اجتماع میں شریک تھے اور انہوں نے مو لانا کی زبان سے یہ سب کچھ سنا۔اسی کو مدارس اور محراب و منبر سے بیان کیا جا نا چاہیے۔میرا مشاہدہ یہ ہے کہ مدارس سے ایسے جرائداور کتب شائع ہو رہے ہیں جو انتہا پسندانہ افکار کی نمائندگی کرتے ہیں۔اختلافِ رائے کی بنیاد پر تکفیر کا عمل جاری ہے۔ یہ رویہ مو لانا فضل الرحمن کے عمومی پیغام سے متصادم ہے۔اگر اس حوالے سے وہ داخلی احتساب کا کوئی عمل شروع کر سکیں تو یہ ان کے مدرسۂ فکر کے لیے خیر کا باعث ہو گا اور سماج کے لیے بھی۔
مو لا نا فضل الرحمن کے لیے اس ملک میں حرفِ خیرکہنا آسان نہیں۔ان کے گردسکینڈلوںیک ایسا جال بُن دیا گیا ہے جو ان کی اصل شخصیت تک رسائی میں مانع ہے۔بہت سی نظریں اسی میں الجھ کر رہ جا تی ہیں۔میرے نزدیک یہ معاملات اکثر گمان سے تعلق رکھتے ہیں۔جہاں معاملہ یقین کے بجائے گمان کا ہو،وہاں میرے دین کی تعلیم یہ ہے کہ حسنِ ظن ہی کو ترجیح دینی چاہیے۔حکمت ِعملی البتہ ایک کھلا میدان ہے جس کا تعلق کسی کی بصیرت اوردانائی سے ہے۔اس پر کلام کیا جا سکتا ہے۔مو لانا فضل الرحمن سیاست دان ہونے کے ساتھ ایک دینی تشخص رکھنے والے گروہ کے نمائندہ بھی ہیں۔گروہ بھی وہ جس کی طرف مذہبی انتہاپسندی کا انتساب کیا جا تا ہے۔اس پس منظر میں مو لانا کی یہ باتیں غورو فکر کی دعوت دیتی ہیں۔