شریف خاندان کیا نئے فکری پیرھن کی تلاش میں ہے؟مسلم لیگ کا قدیم لبادہ بوسیدہ ہو چکا یا پھر ان کی قامت کے لیے موزوں نہیں رہا ؟
کہتے ہیں کہ خاندان کی نئی نسل کو کچھ نئے فکری اتالیق میسرآگئے ہیں۔ہیں تو وہ میڈیا مینیجر لیکن ان کا خیال ہے کہ نظریہ ساز بھی ہیں۔آثار یہ ہیں کہ وہ انہیں عصری زبان میں کلام کرنا سکھاتے اور رائج الوقت اسلوب کی تربیت دیتے ہیں۔ عالمگیریت کے کلچر میں زندگی بِتانے بلکہ سنوارنے کے ڈھنگ سکھاتے ہیں۔وہ تربیت کرتے ہیں کہ غالب کلچر میں کیا باتیں انسان کو مہذب ثابت کرتی ہیں ۔شخصیت کا ''سوفٹ امیج‘‘ کیسے بنتا ہے، علیٰ ہذا القیاس۔
دورِ حاضر کی سیاسی روایت میں یہ کوئی اجنبی رویہ نہیں۔بالخصوص نو آبادیاتی پس منظر رکھنے والے ممالک کے حکمران طبقے کے ہاں اس کا عام رواج ہے کہ وہ اپنی اولاد کو مغرب کے تعلیمی اداروں میں بالاہتمام بھیجتے ہیں تا کہ وہ عصری علوم کے ساتھ غالب تہذیب سے بھی واقف ہوں بلکہ اس کا مظہر ہوں۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ موروثی سیاست کے اس کلچر میں، وہ اپنی اولادوں کو مستقبل کا ممکنہ حکمران تصور کرتے ہیں۔پھروہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ طاقت کے عالمی مراکز میں جب ان کے بارے میں فیصلے ہوں توان کی نظرِ انتخاب ان کی آل اولاد پر پڑے اور انہیں کوئی اجنبیت محسوس نہ ہو۔ بھارت کے گاندھی خاندان سے لے کر پاکستان کے بھٹو خاندان تک، اس کی بہت سی مثالیں ہمیں مل جا ئیں گی۔
شریف خاندان کا معاملہ مگر مختلف تھا۔نوازشریف صاحب کی تربیت ،ہمیں معلوم ہے کہ سیاست اور حکمرانی کے لیے نہیں ہو ئی۔یہ بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن اور جنرل ضیاالحق مرحوم کی نظرِ انتخاب تھی جو انہیں سیاست میں لے آئی۔سیاست میں ان کا مخاطب ایک روایتی پاکستانی تھا۔مقامی کلچر سے جڑا ہوا پاکستانی،جو کسی 'میڈان پاکستان‘ لیڈر کی تلاش میں تھا۔ایسا لیڈر جو عصری زبان اور علوم سے واقف ہو نہ ہو،دیکھنے میں اپنا سے لگتا ہو۔اس کی شخصیت میں مقامی رنگ ہو۔یہ طبقہ بھٹو صاحب سے ایک تہذیبی بُعد محسوس کرتاتھا۔مذہبی لوگوں کو وہ بطور سیاسی راہنما قبول کرنے پر آ مادہ نہیں تھا۔وہ مذہبی تو تھا لیکن ایک حد سے زیادہ نہیں۔یا یوں کہیے کہ اس مذہبیت کا قائل نہیں تھا جس کو مذہبی جماعتیں پیش کرتی ہیں۔وہ مذہب کے اخلاقی پہلو کو قبول کرتا تھا لیکن کلچر اس کا مقامی تھا۔وہ مذہب کے نام پر عربی یا کسی غیر مقامی کلچر کو اپنانے پر آمادہ نہیں تھا۔وہ تہذیبی طور پر پنجابی، سندھی،پختون یا بلوچی تھا اوراس تشخص سے الگ ہو نے پر آمادہ نہیں تھا۔
اس طبقے کو یہ لگا کہ نوازشریف ان کی مراد ہے۔یوں وہ اس کے متفقہ راہنما بن گئے۔سادہ لفظوں میں، وہ سیاست میںلبرل اور مذہبی سوچ سے مختلف،ایک روایتی مقامی مسلمان کلچر کے نمائندہ تسلیم کر لیے گئے۔1993ء کے انتخابات میں یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی جو 1997ء میں ایک مشہود سیاسی حقیقت میں ڈھل گئی۔نوازشریف صاحب انگریزوں کی طرح انگریزی نہیں بول سکتے۔ان کا لہجہ مقامی ہے۔ان کی زبان(diction) مقامی ہے۔بات بات پر جب وہ'اللہ کے فضل و کرم سے‘ کہتے ہیں تو عام پاکستانی کو اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔نوازشریف صاحب کی اصل طاقت یہی ہے۔
روایتی طور پر مسلم لیگ بھی ایسی ہی تھی۔جس مسلم لیگ نے تحریکِ پاکستان کی قیادت کی،وہ اسی روایتی مسلمان کی نمائندگی کرتی تھی۔وہ مسلمان جو جذباتی طورپرمسلمان لیکن روایتی اور تمدنی اعتبار سے مقامی ثقافت کا علم بر دار تھا۔مسلم قومیت سے، مسلم لیگ کی مراد یہی تھی۔وہ آ دمی ،مردم شماری کے رجسٹر میں جسے مسلمان کہا گیا، مسلم لیگ کے نزدیک مسلمان تھا اور وہ اس کے حقوق کی نمائندہ تھی۔ہماری مذہبی فکر کواس تصورِ قومیت سے اتفاق نہیں تھا۔لوگ متحدہ قومیت پر مو لا نا مودودی کی تنقید تو بیان کرتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ مسلم لیگ، مسلم قومیت کے جس تصور کی علم بردار تھی، اس پرمو لا نا کی تنقید کیا تھی۔آج جب جماعت اسلامی کے دوست تحریکِ پاکستان اور قائد اعظم کی اونر شپ کا دعویٰ کرتے ہیں تو مجھے بہت حیرت ہوتی ہے۔
اب معلوم ہو تا ہے کہ نوازشریف صاحب یا اس خاندان کی نئی نسل اس شناخت سے نکلنا چاہتی ہے۔نوازشریف صاحب پہلے تو اس کے قائل نہیں تھے۔اس لیے انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پر نہیں کی۔اب لگتا ہے کہ ان کے خیالات بدل رہے ہیں۔ان کے بچوں میں مریم نواز سیاسی شعور رکھتیں اورعملی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنے کی متمنی ہیں۔اب اس خاندان کو خیال آیا ہے کہ آج سیاست کے تقاضے مختلف ہیں۔انہیں روایتی سے زیادہ ایک لبرل تعارف کی ضرت ہے۔ روایتی حلقے کو ساتھ رکھنے کے لیے محافلِ میلاد و نعت کفایت کر تی ہیں۔ہمیں خارجی دنیا کی طرف دیکھنا چاہیے۔ گلوبل ویلج میں جس جنس کی قیمت ہے، ہماری دکان پر بھی دستیاب ہو نا چاہیے۔اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی سے مایوس لبرل طبقہ مسلم لیگ کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔
اگر یہ مقدمہ درست ہے تو میرے نزدیک یہ ایک سنگین سیاسی غلطی ہوگی۔پہلی بات تو یہ کہ بازارِ سیاست کی مانگ کے مطابق نظریات اختیار کرنا،اخلاقی کمزوری کی علامت ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اقدار کے ساتھ آپ کی وابستگی مشکوک ہے۔ایک فطری طریقے اور ارتقائی طریقے سے اگر نظریات میں تبدیلی آتی ہے تواس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر تبدیلی کا سبب خارجی مطالبات ہیں تواس سے شخصیت کے بارے میں مثبت رائے قائم کر نا مشکل ہو جاتی ہے۔یہ تو اشتراکیت کے ان علم برداروں کا مذہب ہے جو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کمیونزم سے ٹوٹ کر سرمایہ دارانہ نظام کے کل پرزے بن گئے ہیں۔
دوسرا یہ کہ اس سے کوئی سیاسی فائدہ بھی نہیں مل سکتا۔ لبرل طبقہ پیپلزپارٹی سے تمام تر مایوسی کے باوجود، کبھی شریف خاندان کی سیاسی قیادت کو تسلیم نہیں کرے گا۔چند موقع پرستوں کا معاملہ دوسرا ہے۔میرے نزدیک اگر اس ملک میں لبرل طبقے کی کوئی حقیقی نمائندہ جماعت ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہی ہے۔اگر مسلم لیگ نے لبرل بننے کی کوشش کی تونہ صرف لبرل طبقے کو مخاطب نہیں بنا پائے گی بلکہ اس کے ساتھ اپنے حقیقی حلقے سے بھی محروم ہو جائے گی۔ مسلم لیگ کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جماعت اسلامی اور اس کی سوچ سے متاثرجو ووٹ بینک 1993ئمیں ان سے آ ملا تھا، وہ مایوس ہوکر واپس بھی جا سکتا ہے،اگر جماعت اسلامی اپنی حکمتِ عملی میں چند تبدیلیوںپر آمادہ ہو۔
مسلم لیگ کے پاس ایک ہی راستہ ہے۔وہ مسلم لیگ کو اس پاکستانی کی جماعت بنائے جو نہ تو ان معنوں میں لبرل ہے، جن معنوں میں لبرل ازم کافلسفہ مطالبہ کرتا ہے اور نہ ان معنوں میں مذہبی ہے جن معنوں میں مذہبی جماعتیں اسے بنانا چاہتی ہیں۔ایک متوازن آ دمی جو خدا پر ایمان رکھتا اور اپنی تہذیبی قدروں سے جڑا ہوا ہے‘جو خود کو مسجد سے جدا نہیں کرتا اور جسے بسنت منانا بھی اچھا لگتا ہے‘ جو روزہ نہ رکھنے کو معیوب سمجھتا ہے اور ساتھ شادی بیاہ پر کچھ گابجا بھی لیتا ہے‘جو قرآن مجید کی تلاوت میں آسودگی محسو س کرتا ہے اور ساتھ ہی اسے ہیر اور سیف الملوک کی لے بھی اچھی لگتی ہے‘اس کے ساتھ جدیدسیاسی وسماجی مسائل کے حل کے لیے علامہ اقبال جیسی اجتہادی بصیرت کا متلاشی ہے۔
شریف خاندان کی قامت کے لیے یہی لباس موزوں ہے۔نیا فکری پیرھن اسے مضحکہ خیز بنا دے گا۔قامت اور لباس کا آپس میں گہرا تعلق ہے‘خوش لباسی اسی ادراک کا نام ہے۔