پنجاب اسمبلی کے بل میں کون سی شق غیر اسلامی ہے؟
اسمبلی نے خواتین کو گھریلوتشدد سے محفوظ رکھنے کے لیے جو بل منظور کیا ہے، اس کے بارے میں پہلا سوال تو یہی ہے۔میں نے علمائے کرام کے تبصروں اورموقف تک رسائی کی مقدور بھر کوشش کی۔میں متعین طور پریہ نہیں جان سکا کہ علما کے نزدیک کون سی بات خلافِ اسلام ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی بلاغت اور حسِ مزاح کی داد تو دی جا سکتی ہے لیکن ان کے بیانات سے بھی اس باب میں کو ئی رہنمائی نہیں ملتی۔
ہمارے ہاں علما یا مذہبی طبقے کا عمومی اسلوبِ کلام یہی ہے کہ جو بات انہیں پسند نہ ہو، اسے وہ خلافِ اسلام قرار دے دیتے ہیں۔ پس منظر میں یہ نفسیات کارفر ما ہے کہ وہ اسلام کے اصل نمائندہ ہیں۔ ان کی سوچ کا سانچا اس طرح سے بنا ہے کہ وہ غیر اسلامی سوچ کے لیے غیر موزوں ہے۔ جو خیال اس سانچے میں ڈھل نہیں سکتا، وہ لازماً غیر اسلامی ہے۔ یوں شاید غیر شعوری طور پر مسلم سماج میں بھی کلیسا کا ادارہ تشکیل پا گیا ہے، دراں حالیکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام میں اس کے لیے کو ئی جگہ نہیں۔ علما اور مذہبی طبقے کو یہ حق ہے کہ وہ جس بات کو چاہیں پسند کریں اور جس کو چاہیں ناپسند۔ اس سے اتفاق ہو سکتا ہے اور اختلاف بھی۔ یہ اختلاف لیکن لازم نہیںکہ غیر اسلامی بھی ہو۔
اسلام تو قرآن و سنت کا نام ہے۔ کسی قانو ن یا رائے کو خلافِ اسلام قرار دینے کے لیے یہ بتانا لازم ہے کہ اس میں کون سی بات قرآن مجید کی کسی نص کے خلاف ہے یا رسالت مآب ﷺ کی سنت سے متصادم ہے۔ ہر شے اپنی حقیقت میں اسلامی ہے اگر وہ خلافِ اسلام نہیں۔ کسی بات کے اسلامی ہونے کے لیے مثبت دلیل کی ضرورت نہیں، البتہ خلافِ اسلام ہونے کے لیے منفی دلیل کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ٹریفک کے قوانین کا قرآن و سنت میں کہیں ذکر نہیں۔ کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ سرخ بتی پر رک جانا چاہیے؛ تاہم یہ بات قرآن وسنت کی کسی ہدایت کے خلاف بھی نہیں، اس لیے اسے اسلامی مانا جائے گا۔ پنجاب اسمبلی کا بل خلافِ اسلام نہیں ہے، اگر اس میں کوئی شق اسلام کے کسی صریح حکم یا ہدایت سے متصادم نہیں ہے۔
اس بحث میں ایک اہم نکتہ اور بھی ہے۔ جن معاملات میں اہلِ علم اختلاف کرتے ہیں، ان میں سے کسی ایک رائے کی مخالفت بھی خلافِ اسلام نہیں ہے۔ ہمارے فقہا بہت سے مسائل میں مختلف الرائے ہیں۔ ایک رائے ممکن ہے فقہائے احناف کے فتوے کے خلاف ہو۔ اسی طرح ایک رائے ہو سکتا ہے مالکی آئمہ کی رائے سے متصادم ہو۔ کسی فقیہ کی رائے سے اختلاف کو خلافِ اسلام نہیں کہا جا سکتا۔ جید علما اور فقہا خود بھی اختلافی آرا میں، یہ دعویٰ نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں ایک عام رجحان یہ ہے کہ اہلِ مذہب اس رائے کو بھی خلافِ اسلام کہہ دیتے ہی جو ان کے فقہی موقف سے مختلف ہو۔ اس رویے سے سماج میں جہاں تنگ نظری پیدا ہوتی ہے، وہاں اس کا فکری ارتقا بھی رک جاتا ہے۔ آدمی علما سے اختلاف کرتے ہوئے ڈرنے لگتا ہے کہ اس کی بات کو خلافِ اسلام قرار دے کر، اسے کسی فتوے کا شکار بنایا جا سکتا ہے۔
پنجاب اسمبلی کے بل کو علما خلاف ِاسلام قرار دے رہے ہیں لیکن وہ میرے علم کی حد تک، یہ نشان دہی نہیں کر سکے کہ اس میں کون سی بات قرآن مجید کی کسی آیت کے خلاف ہے یا کون سی شق رسالت مآبﷺ کی سنت سے متصادم ہے۔ جب تک کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کی جاتی، اسے خلافِ اسلام کہنا ایک جسارت ہے اور خود کو شارع کے منصب پر فائز کرنا ہے۔
اس بحث میں ایک اور سوال بھی بہت اہم ہے: خاندان کے نظام میں شوہر اور بیوی ایک دوسر ے کے حریف ہیں یا معاون؟ انہوں نے ایک دوسرے سے اپنے حقوق کو چھیننا ہے یا خاندان کی سلامتی اور پائیداری کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے؟
قرآن مجید نے ازدواجی رشتے کی اساس مودت اور رحمت بتائی ہے۔ دونوں کا ناگزیرنتیجہ ایثار ہے۔ آپ جس سے محبت کرتے ہیں، اس کے لیے جان تک دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ آپ محبوب کی پسند کو اپنی پسند پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی خوشی کے لیے اپنی تمناؤں کوتج دیتے ہیں اور اس میں تکدر نہیں، لذت محسوس
کرتے ہیں۔ جو رشتہ اس بنیاد پر قائم ہوتا ہے،اس میں حقوق کی بات بے معنی ہو جاتی ہے۔ جو گھر اس اساس پر کھڑا ہو، وہاں تشددکا کوئی سوال ہی نہیں۔ تاہم اختلاف ہو سکتا ہے۔ اس کے آداب ہیں۔ اگر اس اختلاف کی نوعیت یہ ہے کہ خاتون خاندان کے نظم کو چیلنج کر دے اور فساد کا امکان پیدا ہو جائے پھر اسلام کا حکم یہ ہے کہ مرد معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔ وہ پہلے مر حلے پرخاتون کو نصیحت کرے۔ اگر یہ کارگر نہ ہو تو پھر اظہارِ ناراضی کرتے ہوئے، اپنا بستر الگ کردے۔ اگر یہ تدبیر بھی ناکام ہو جائے تو پھر وہ خاتون کو ضرب لگا سکتا ہے۔ یہ سب باتیں سورہ نساء میں بیان ہو گئی ہیں۔ ضرب لگانا،اس کو ایذا پہنچانا نہیں، محض تنبیہ ہے۔ رسالت مآب ﷺنے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں خود اس کی وضاحت فرمائی کہ یہ 'ضرباً غیرمبرحِِِ‘ ہو۔ قدیم مفسرین میں سے کسی نے اس کی تعبیر مسواک سے مارنا بیان کی ہے۔ کسی کا خیال ہے کہ یہ رومال یا کپڑے سے مارنا ہے۔
قرآن و حدیث سے یہ بالکل واضح ہے کہ ازدواجی تعلق میں تشدد کا کوئی گزر نہیں۔ جو کوئی اس کا ارتکاب کرتا ہے، وہ بلا شبہ خلافِ اسلام حرکت کا مرتکب ہوتا ہے،کیونکہ یہ ماخذ دین سے متصادم رویہ ہے۔ رسالت مآب ﷺ کا معاملہ تو یہ تھا کہ ایک بار ایک صحابیہ نے آپ سے مشورہ کیا کہ فلاں صاحب کی طرف سے نکاح کا پیغام آیا ہے، مجھے کیا فیصلہ کرنا چاہیے۔ آپ نے فرمایا: وہ تو ڈنڈا اپنے کندھے سے نہیں اتارتا(مسلم)۔ یہ جملہ واضح کر رہا ہے کہ آپ نے اس خاتون کو کیا مشورہ دیا۔ آپ کے ہر ارشادِگرامی کی طرح آپ کا یہ جملہ بھی آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ 'یہ کوئی اچھا رویہ نہیںکہ ایک وقت ہاتھ میں کوڑا اٹھا لو اور دوسرے وقت اسی کے ساتھ ہم بستر ہو جاؤ‘(بخاری و مسلم)۔ آپ کا اپنا اسوہ یہ ہے کہ عمر بھرکسی بیوی پر ہاتھ نہیںاٹھایا۔
مودت اور رحمت کی اساس پر قائم رشتہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس میں ایثار ہے، حقوق کا تصادم نہیں۔ ہمارے ہاں اسے حقوق کی جنگ مغرب کے زیر اثر بنا یاگیا ہے۔ بدقسمتی سے خواتین کے حقوق کے علم برداران نے شوہر اور بیوی کے تعلق کو حریفانہ کشمکش میں بدل دیا اور دونوں کو ایک دوسرے کے بالمقابل لاکھڑا کیا ہے۔ اس سے یہ امکان پیدا ہو چلا ہے کہ خاندان کے ادارے کی اساس ہی منہدم ہو جائے۔ پنجاب اسمبلی کے بل میں مجھے یہی سوچ کارفرما لگتی ہے۔ یہ قانون شوہر اور بیوی کو حریف فرض کرتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ سادہ سا سوال ہے کہ جب خاوند بیوی پر تشدد کرے گا یا بیوی شوہر کو پولیس کے ہاتھوں کڑے پہنائے گی تو پھر کون سی مودت اور کون سی رحمت باقی رہے گی؟
سماج میں خواتین کے خلاف تشدد کے لیے قانون سازی لا زم ہے اور ریاست اس بارے میں ہر سخت قدم اٹھا سکتی ہے۔ گھریلو تشددکو البتہ مغرب کے بجائے، اپنے سماجی پس منظر میں سمجھنا چاہیے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ریاست اس معاملے میں بھی قانون سازی کا حق رکھتی ہے۔ کوئی فریق اپنی ذمہ داری سے روگردانی کرتا یا غیر اخلاقی رویہ اپناتا ہے تو وہ اسے سزا دے سکتی ہے۔ تاہم اس کے لیے لازم ہے کہ قانون سماجی پس منظرکو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بنا یا جائے۔ معاشرتی حالات سے لاتعلق قانون کی کتابوں میں بند رہ جاتے ہیں اور سماج کسی اور سمت نکل جاتا ہے۔