سیاست کا ایک فطری بہاؤ ہے۔ وہ ہمارے تجزیے پڑھ کر اپنے راستے کا تعین نہیںکرتی۔ تجزیہ البتہ یہ بتا سکتا ہے کہ فلاں راستے کی منزل کیا ہے۔ کراچی کی سیاست کو بھی اسی طرح دیکھنا پڑے گا۔
مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا وہ 'فطری‘ تھا۔ اہلِ بنگال کا اپنی شناخت کے ساتھ ابھرنا تاریخ کا جبر تھا۔ جب تمام اسباب فراہم ہوگئے، ہم اسے روک نہیں سکتے تھے۔ تاہم تجزیہ یہ بتا سکتا تھا کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کا لازمی نتیجہ پاکستان کا دو لخت ہونا ہے۔ بھارت کو یہ معلوم تھا۔ اس کی سیاست کا تقاضا یہ تھا کہ وہ موجود اسباب کو اپنے حق میں استعمال کرے۔ اس نے یہی کیا اور یوں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔
کراچی میں مہاجر سیاست کا ابھرنا بھی نوشتہ دیوار تھا۔ یہاں بھی تمام اسباب فراہم کردیے گئے تھے۔ ضیاء الحق صاحب نے اس فضا کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ انہیں قومی سیاسی جماعتوں کے متبادل کی تلاش تھی۔ ہم اس عمل کو روک نہیں سکتے تھے، مگر یہ تجزیہ کر سکتے تھے کہ یہ غلط ہوا، اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے، اسے بھی تجزیہ روک نہیں سکے گا، لیکن اسے یہ ضرور بتانا چاہیے کی یہ اچھا نہیں ہو رہا۔ کراچی کو جزیرہ سمجھنا اور بنانا مناسب نہیں۔ ایک موقع پیدا ہوگیا ہے کہ کراچی قومی دھارے میں شامل ہو جائے۔ قومی سیاسی جماعتوں کی بری کارکردگی کو اگر دلیل بنا کر اس مو قع کو ضائع کیا گیا تو قوم کی تقسیم کا عمل گہرا ہوتا چلا جائے گا۔
قومی سیاسی جماعت کا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ ان کی کوتاہیوں کے ازالے کی صرف ایک ہی صورت ہے: ان کی اصلاح۔ اگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوں تو نئی قومی سیاسی جماعت کا قیام۔ تحریکِ انصاف اسی بنیاد پر ابھری تھی۔ دونوں بڑی جماعتیں اپنی اصلاح کی ضرورت سے بے نیاز تھیں۔ نئی نسل بیزار تھی۔ یوں تحریکِ انصاف نے ظہور کیا۔ یہ الگ بات کہ وہ بھی روایتی سیاسی جماعت میں ڈھل گئی۔ عمران خان نے ایک موقع ضائع کر دیا۔ اس کا علاج اب یہ نہیں کہ ہر جگہ ایک مقامی سیاسی جماعت بنا دی جائے۔ بطورِ حل نئی قومی سیاسی جماعت بن سکتی ہے یا پھر ان جماعتوں پر اپنی اصلاح کے لیے دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں قومی سیاسی جماعتوں کے متبادل تلاش کیے جاتے ہیں۔ ایک پسندیدہ متبادل فوج ہے۔ دوسرا علاقائی، لسانی یا مذہبی جماعتیں۔ فوجی آمریت کی حمایت تو اب کسی کے لیے بقائمی ہوش و حواس ممکن نہیں۔ اگر چہ کنایوں اشاروں میں اس متبادل کو پیش کرنے والے بھی کم نہیں۔ تاہم وقت نے اس متبادل کی عدم قبولیت پر کچھ ایسی مہرِ تصدیق ثبت کی ہے کہ اس کی تائید کھل کر نہیں کی جا سکتی۔ دوسرے حل کے وکلا تاہم ابھی موجود ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ یہ عمل چونکہ پہلے سے جاری ہے، اس لیے مزید جاری رہنا چاہیے۔اگر سندھیوں اور بلوچوں کی جماعتیں موجود ہیں تو مہاجروں کی کیوں نہیں؟
تجزیے کو یہ بتانا چاہیے کہ ماضی میں جب بھی علاقائی، لسانی یا مسلکی سیاست ہوئی، اس نے ملک اور قوم کو شدید نقصان پہنچایا۔ جب مسلک کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بنیں تو قوم میں مسلکی تقسیم اور گہری ہوئی۔ مولانا امین احسن اصلاحی کے الفاظ میں ہر کسی نے امت کے وجود سے اپنے حصے کا گوشت کاٹ لیا۔ پاکستانی قوم کے سیاسی شعور کی داد دینی چاہیے کہ اس نے فی الجملہ علاقائی اور مسلکی سیاست کو مسترد کردیا۔ اگر شیعہ سنی یا دیوبندی بریلوی اپنے اپنے مسلک کی سیاسی جماعت کو ووٹ دیتے تو پیپلز پارٹی، ن لیگ یا تحریکِ انصاف کو کون ووٹ دیتا؟ یہی معاملہ قوم پرستوں کے ساتھ ہوا۔ سب سندھی قوم پرست ہو جاتے تو پیپلز پارٹی کا وجود کیسے قائم رہتا۔
قومی سیاسی جماعتیں اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود خیر کی قوت ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کے بغیر وفاق کو متحد رکھنے کی کوئی دوسری ضمانت موجود نہیں۔ یہ پیپلز پارٹی ہے جس نے سندھ میں علیحدگی پسندی اور سندھی قوم پرستی کے جذبات کے سامنے بند باندھا ہے۔ آصف زرداری صاحب کو ہر کوئی حسبِ توفیق برا بھلا
کہتا ہے مگر یہ اس ملک کی تاریخ کا ایک باب ہے کہ انہوں نے ایک نازک لمحے میں وفاق کا ساتھ دیا۔ ن لیگ کو بھی داد دیجیے کہ اس نے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں اے این پی اور ایم کیو ایم کو قومی دھارے میں شامل کیے رکھا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آج ایک طرف لوگ مہاجر سیاست کی حمایت کرتے ہیں اور دوسری طرف نواز شریف کو برا بھلا کہتے ہیں کہ انہوں نے ایم کیو ایک کو ڈھیل دی۔ سیاسی حرکیات کے تقاضے اپنے ہیں۔کبھی جی ایم سید کو بھی پھول پیش کرنے پڑتے ہیں۔ ریاست کے مفادات کو انفرادی مفادات کے پیمانے پر پرکھا نہیں جا سکتا۔اسلام میں تالیف قلب کے لیے مال خرچ کرنے کی اجازت ہے، یہاں تک کہ زکوٰۃ کا مال بھی۔ یہ تالیفِ قلب کیا ہے؟ سادہ لفظوں میں پیسہ خرچ کرکے دلوں کو موم کرنا۔ کبھی ریاست کو ضرورت پڑتی ہے کہ وہ رقم خرچ کرکے لوگوں کو وفاق کا حصہ بناتی ہے۔ جو سیاسی حرکیات سے واقف نہیں ہوگا وہ اس کی ایسی تاویل کر سکتا ہے جو اس باب میں اخلاقی مسائل کھڑے کردے۔
یہاںاہلِ سیاست کا معاملہ بھی اہلِ مذہب کی طرح ہوتا جا رہا ہے۔ یورپ کی اہلِ کلیسا سے شکایتیں پیدا ہوئیں تو مذہب ہی کو زندگی سے دیس نکالا دے دیا۔ یوں خود کو ایک بڑے خیر سے محروم کرلیا۔ ہمارے ہاں اہلِ سیاست سے نفرت اتنی بڑھی کہ لوگ قومی سیاسی جماعتوں کی افادیت کے ہی منکر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ کسی سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس موقع پر اپنے جذبات کو تھا متے ہوئے، سیاسی حرکیات کو سمجھنا چاہیے اور یہ جاننا چاہیے کہ ملک کی سلامتی اور اتحاد کے لیے قومی سیاسی جماعتوں کی مضبوطی کیوں ضروری ہے۔مجھے اس پر بھی حیرت ہے کہ سیاست دان لسانی ہو یا قوم پرست ہو تو گورا، قومی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائے تو گوارا نہیں ہے۔
ابنِ خلدون کی یہ بات دہرانے میں کوئی حرج نہیں کہ چھوٹی عصبیتوں کو ایک بڑی عصبیت ہی قابو میں رکھ سکتی ہے۔ پاکستان نام کی عصبیت کو ہم فروغ نہیں دے سکتے۔ تاہم اگر قومی سطح پر اس کا کوئی وجود ہے تو قومی سیاسی جماعتوں کے دم سے ہے۔ یہ بلا شبہ علامتی ہے لیکن اس کی بھی بہت اہمیت ہے۔کرا چی کو قومی دھارے میں لانا آج ملک کی ضرورت ہے اورمہاجروں کی بھی۔ مصطفی کمال سیاست میں ضرور آئیں لیکن اچھا یہ ہے کہ وہ مہاجروں کو قومی دھارے میں شامل ہو نے کا مشورہ دیں۔ پاکستان کی مذہبی اقلیتیں جداگانہ انتخابات کی حامی رہی ہیں۔ تجربے سے انہیں معلوم ہوا کہ اس حکمتِ عملی نے انہیں قومی دھارے سے کاٹ دیا تھا۔ اب وہ مخلوط انتخابات کی حامی ہیں اور آئینی طور پر انہیں یہ حق مل چکا۔ اس آئینی ترمیم کے بعداب قومی اور مذہبی جماعتیں بھی ان کے بارے میں اپنی رائے اور حکمت ِ عملی تبدیل کر چکی ہیں۔
پاکستان کو مضبوط کرنا ہے تو پاکستانیت کو فروغ دیجیے۔ پاکستانیت کا سب سے برا مظہر قومی سیاسی جماعتیں ہیں۔